بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا کے مطابق، رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے 13 آبان [4 دسمبر] "یوم طالب علم" یا "عالمی استکبار کے خلاف جدوجہد کے دن [یا بقولے یوم مردہ باد امریکہ] کی آمد پر، آج صبح ہزاروں طلبہ، طالبات اور متعدد شہداء کے خاندانوں سے خطاب کیا؛ 4 نومبر 1979ع کے دن امریکی سفارت خانے ـ جو اسلامی انقلاب کے خلاف سازشوں کا مرکز تھا ـ پر قبضے کی سالگرہ کو "فخر و فتح" اور "امریکی استکباری حکومت کی حقیقی شناخت عیاں ہونے کا دن" قرار دیا؛ اور 'قومی یادداشت' میں اس دن کو ثبت کرنے پر زور دیاتے ہوئے فرمایا: ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی امریکی سفارت خانے پر ایرانی طالبعلموں کے قبضے سے نہیں بلکہ 19 اگست 1953ع کی بغاوت سے شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔
آپ نے زور دے کر فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کا اختلاف فطری ہے اور امریکہ اور اسلامی جمہوریہ نامی دو دھاروں کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ چنانچہ صرف اس صورت میں ـ کہ امریکہ، ملعون صہیونی ریاست کی حمایت مکمل طور پر بند کرے، اپنے فوجی اڈے خطے سے ہٹا لے اور اس [خطے] کے معاملات میں مداخلت ترک کر دے، تو ـ امریکہ کی ایران سے تعاون کی درخواست ـ مستقبل قریب میں نہیں ـ بلکہ بعد میں ـ زیر غور لائی جا سکتی ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا: "بہت سی مشکلات کا حل اور ملک کو محفوظ بنانے کا راستہ صرف طاقتور بننے سے ہی ممکن ہے: انتظامی، سائنسی، فوجی اور عزم و ہمت کے لحاظ سے؛ اور حکومت کو اپنے دائرہ کار کے اندر اپنے کاموں کو مضبوطی سے انجام دینا چاہئے۔"
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اس ملاقات میں، ایران سے امریکہ کی دشمنی کی تاریخ کی تشریح کرتے ہوئے 4 نومبر 1979ع کے دن امریکی جاسوس خانے (سفارت خانے) پر تاریخی قبضے کے پہلوؤں کی وضاحت کی اور فرمایا: "نوجوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے پر قبضہ دو ـ 'تاریخی' اور 'شناختی' ـ حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔"
آپ نے تاریخی حوالے سے، 4 نومبر 1979ع اور طلبا کے امریکی سفارت پر قبضے کی بہادرانہ کارروائی کو ایرانی قوم کے لئے "فخر اور فتح" کا دن قرار دیا۔ اور نشاندہی کی کہ: "تاریخ میں ایران کی کامیابی کے دن بھی ہیں اور کمزوری اور شکست کے دن بھی، ان دونوں کو قومی یادداشت میں محفوظ رکھنا چاہئے۔"
امام خامنہٰی نے میرزائے شیرازی کے ذریعے 'استعماری تمباکو معاہدے' کی منسوخی، یا وثوق الدولہ کے معاہدے کے خاتمے اور مرحوم شہید آیت اللہ مدرس اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے برطانویں پر غالب آنے کے واقعات کو عروج کے دنوں اور معاصر خوشگوار واقعات کے طور پر یاد کیا؛ جامعات اور اسکولوں کے طلباء اور اہل قلم کو ان واقعات کا مطالعہ اور اوران پر بحث و تمحیص کرنے کی تاکید کی اور فرمایا: خوشگوار واقعات کو محفوظ اور یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ، ہمیں 21 فروری 1921ع کی رضاخان کے ذریعے برطانویوں کی بغاوت، پھر اس کے بادشاہ بن جانے، اور ان سانحات، مصائب، بے مثال استبدادیت و آمریت اور ملک پر غیرملکی تسلط کو جیسے تلخ واقعات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے۔
آپ نے 4 نومبر 1979ع اور امریکی سفارت پر قبضے کے واقعے کو قومی تاریخ اور [قومی] یادداشت میں محفوظ کرنے اور عوام کو اس سے آگاہ کرنے، کو ضروری قرار دیا۔ اس عظیم واقعے کے شناختی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئےآپ نے فرمایا: "سفارت پر قبضے نے ریاستہائے متحدہ امریکا کی حقیقی شناخت اور نیز اسلامی انقلاب کی حقیقی پہچان اور تشخص کو واضح کر دیا۔
رہبر انقلاب نے لفظ 'استکبار' کی قرآنی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے 'احساسِ برتری (Superiority-complex)' کا ہم معنی قرار دیا اور فرمایا: "کبھی کوئی فرد یا حکومت خود کو برتر سمجھتی ہے لیکن دوسروں کے مفادات میں مداخلت نہیں کرتی، تو اس سے دشمنی پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن کسی زمانے میں برطانوی حکومت، اور موجود دور میں امریکہ کی طرح، خود کو حق دیتے ہیں [اور حق بجانب قرار دیتے ہیں] کہ دوسری قوموں کے اہم مفادات کی طرف دست درازی کرکے ان کے ذمہ داریاں متعین کریں [اور ان کی قسمت کے فیصلے کریں]، یا ایسے ملک جہاں مضبوط حکومت اور بیدار عوام نہ ہوں، وہاں فوجی اڈے قائم کریں، یا عوام کے تیل اور وسائل کو لوٹیں؛ یہی وہ استکبار ہے جس سے ہماری دشمنی ہے اور جس کے خلاف ہم نعرے لگاتے اور آواز اٹھاتے ہیں۔"
آپ نے امریکہ کی ایران دشمنی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "آئینی تحریک کے بعد تقریباً 40 سال تک ایران یا تو افراتفری اور انتشار کا شکار رہا یا پھر غیرملکی حکومتوں کی مداخلت اور رضاخان کی سخت آمریت اور بے رحم استبدادیت کا سامنا کرتا رہا، یہاں تک کہ تقریباً 1952ع میں خدا کے فضل سے ملک میں ڈاکٹر مصدق کی قومی حکومت قائم ہوئی جنہوں نے انگریزوں کے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ملک کے تیل کو ـ جو تقریباً مفت میں، انگریزوں کے ہاتھ میں تھا، قومیایا۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے ڈاکٹر مصدق کی حکومت کو ناکام بنانے کی غرض سے انگلستان اور اس کے ساتھیوں کی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ان کی سادہ لوحی اور غفلت کی طرف اشارہ کیا کہ انھوں نے انگلستان کے شر سے نجات پانے کے لئے امریکہ سے مدد مانگی۔
آپ نے فرمایا: "امریکیوں نے مصدق کو مسکراہٹوں کا وعدہ دیا لیکن پیٹھ پیچھے انگریزوں کے ساتھ مل کر بغاوت کرائی اور قومی حکومت کو گرا کر مفرور شاہ کو ایران واپس لائے۔"
آپ نے مصدق کی قومی حکومت کے گرائے جانے کو ایرانی قوم پر ایک سخت ضرب قرار دیا اور فرمایا: "ہمارے عوام نے 19اگست 1953ع کی بغاوت کے ذریعے امریکہ اور اس کے استکباری رویے اور خطرے کو پہچان لیا۔ بغاوت اور شاہ کی واپسی کے بعد، محمدرضا کی سخت مطلق العنانیت، 25 سال تک امریکی حمایت اور مدد سے جاری رہی۔"
امریکی سفارت خانہ انقلاب کے خلاف سازشوں کا اڈا تھا
رہبر انقلاب نے امریکی سینیٹ کی جانب سے ایک معاندانہ قرارداد کی منظوری کو اسلامی انقلاب سے امریکہ کا پہلی مڈبھیڑ قرار دیا اور محمدرضا (شاہ) کو امریکہ میں داخلے کی اجازت پر ایرانی عوامی غم و غصے کے اظہار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "ایرانی عوام کو محسوس ہؤا کہ امریکی محمدرضا کو وہاں ٹھہرا کر 19 اگست 1953ع کی بغاوت دہرانے اور اسے ایران واپس لانے کے لئے ماحول سازی کر رہے ہیں۔ اسی لئے لوگ غصے کے مارے سڑکوں پر نکل آئے، جس کے نتیجے میں طلبہ کی شمولیت سے ہونے والے کچھ مظاہرے اور عوامی تحریک امریکی سفارت خانے پر قبضے پر منتج ہوئی۔"
آپ نے فرمایا: "طلبہ کا ابتدائی ارادہ سفارت خانے میں صرف دو تین دن تک قیام اور دنیا کے سامنے ایرانی عوام کے غم و غصے کا اظہار کرنا تھا۔ لیکن طلبہ کو سفارت خانے میں ایسی دستاویزات ملیں جن سے ظاہر ہؤا کہ معاملہ تصورات سے کہیں زیادہ گہرا ہے اور امریکی سفارت خانہ انقلاب کو تباہ کرنے کے لئے ہونے والی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا مرکز ہے۔"
رہبر انقلاب نے دنیا بھر میں سفارت خانوں کے معمول کے کام ـ یعنی معلومات جمع کرنے اور اپنے ملکوں کو بھیجنے ـ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "امریکی سفارت خانے کا مسئلہ صرف معلومات جمع کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ سازشوں کے ایک کمرے کے طور پر سابقہ حکومت کے بچے کھچے کارندوں، فوج کے بعض افراد اور دوسروں کو انقلاب کے خلاف کارروائی کے لئے منظم کر رہا تھا۔ طلبہ نے اس حقیقت کو سمجھ کر سفارت خانے پر اپنا قبضہ قائم رکھا۔"
ہمارے ساتھ امریکی دشمنی کا آغاز 1953ع سے ہؤا
آپ نے فرمایا: "سفارت خانے پر قبضے کے واقعے کو ایران اور امریکہ کے مسائل کا آغاز، قرار دینے کا خیال درست قرار نہیں دیا جا سکتا؛ امریکہ کے ساتھ ہمارا مسئلہ 19 اگست 1953ع سے شروع ہؤا، نہ کہ 4 نومبر 1979ع سے۔ مزید برآں، سفارت خانے پر قبضے نے ایک بڑی سازش اور خطرے کو بے نقاب کیا، اور طلبہ نے اس اہم دستاویزات کو یکجا کرکے اس سازش کو عیاں کیا۔
اسلامی جمہوریہ اور امریکہ کا اختلاف ٹیکٹیکل (اور وقتی) نہیں، بلکہ بنیادی ہے
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے امریکہ کے گلے سے ایک میٹھا شکار نکل جانے اور ایران کے وسائل پر امریکی تسلط ختم ہونے کو انقلاب اسلام کے ساتھ دشمنیوں اور اس کے خلاف سازشوں کی بنیادی وجہ قرار دیا اور فرمایا: "وہ آسانی سے ایران کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھے، اسی لئے شروع ہی سے نہ صرف اسلامی جمہوریہ بلکہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی اشتعال انگیزیاں شروع کر دیں۔"
آپ نے انقلاب کے بعد کے سالوں میں ایرانی قوم کے خلاف امریکہ کی مسلسل دشمنی کو عظیم الشان امام (رضوان اللہ علیہ) کے اس قول کی سچائی کا ثبوت قرار دیا کہ "تمہارے پاس جو بھی فریاد ہے، امریکہ کے خلاف اٹھا دو"۔
آپ نے فرمایا: "ان کی دشمنی محض زبانی نہیں تھی، بلکہ انہوں نے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ـ پابندیاں، سازشیں، اسلامی جمہوریہ کے حقیقی دشمنوں کی مدد، صدام کو ایران پر حملے کی ترغیب و اشتعال دلانا اور اس کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنا، 300 مسافروں کے حامل ایرانی مسافر طیارہ گرانا، تشہیری جنگ، اور ایران کے عوامی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے براہ راست فوجی حملہ کرنا ـ کیونکہ امریکہ کی استکباری ذات اسلامی انقلاب کی آزادی پسندانہ حقیقت کے ساتھ سازگار نہیں تھی، اور امریکہ اور اسلامی جمہوریہ کا اختلاف کوئی وقتی یا جزوی اختلاف نہیں، بلکہ ایک بنیادی اختلاف ہے۔"
کچھ لوگوں کی الٹی تاریخ نویسی!
رہبر انقلاب نے ان لوگوں کے بیانات کو ـ جو ایرانیوں کے "مرگ بر آمریکہ (مردہ باد امریکہ)" کے نعرے کو ایران کے ساتھ امریکی دشمنی کا سبب گردانتے ہیں ـ الٹی تاریخ نویسی قرار دیا؛ اور فرمایا: "یہ نعرہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے امریکہ اس انداز سے ہماری قوم سے ٹکرا رہا ہے؛ بلکہ اسلامی جمہوریہ امریکہ کا مسئلہ ایک بنیادی اختلاف اور بنیادی مفادات کا ٹکراؤ ہے۔"
آپ نے کچھ لوگوں کے اس سوال کی طرف اشارہ کیا کہ "ہم نے امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، لیکن کیا ہم ابد تک اس سے تعلق نہیں رکھیں گے؟" اور فرمایا:: "اولاً، امریکہ کی استکباری فطرت ہتھیار ڈالنے سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرتی۔ امریکہ کے تمام صدور یہی چاہتے تھے لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے، مگر موجودہ صدر نے اسے زبان پر لایا اور درحقیقت امریکہ کے باطنی عزائم کو بے نقاب کرکے رکھ دیا۔"
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے ایرانی قوم کی صلاحیتوں کی بلند سطح، دولت، فکری و علمی تاریخ اور بیدار اور پرجوش نوجوانوں کے باوجود ایران سے ہتھیار ڈالنے کی توقع کو بے معنی اور مہمل قرار دیا؛ اور فرمایا: "مستقبل بعید کا اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا لیکن فی الحال سب کو جان لینا چاہئے کہ بہت سی مشکلات کا حل طاقتور بننے میں ہے۔"
بہت سے 'مسائل و مشکلات کا حل' 'طاقتور بننا' ہے
آپ نے زور دیا کہ 'ملک کو طاقتور بنانا چاہئے'، اور فرمایا: "حکومت کو اپنے مختلف شعبوں میں، مسلح افواج فوجی معاملات میں، اور نوجوان تعلیم اور سائنسی کاوشوں میں میں پوری طاقت سے محنت کریں۔ کیونکہ اگر ملک طاقتور ہو جائے اور دشمن محسوس کرے کہ اس طاقتور قوم سے ٹکراؤ میں نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہوگا، تو یقیناً ملک محفوظ ہو جائے گا۔ لہٰذا فوجی، سائنسی، انتظامی اور عزم و ہمت اور خاص طور پر نوجوانوں کی قوت حوصلہ کو مضبوظ کرنے کی ضرورت ہے۔"
اسرائیلی ریاست کی حمایت جاری رکھنے والے امریکہ کا ایران کے ساتھ تعاون ناممکن
رہبر انقلاب نے امریکی حکومت کے ایران کے ساتھ تعاون کی خواہش کے بعض بیانات کے بارے میں فرمایا: "ایران کے ساتھ تعاون، امریکہ کے ملعون صہیونی ریاست کے ساتھ تعاون اور مدد کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔"
رہبر معظم نے فرمایا: "دنیا کی رائے عامہ میں صہیونی ریاست کی بدنامی اور اس کی عالمی مذمت کے باوجود، امریکہ کی طرف سے اس بدنام اور قابل نفرت ریاست کی مسلسل مدد و حمایت کے عین موقع پر اس کی طرف سے [واشنگٹن کی] ایران سے تعاون کی درخواست مہمل اور ناقابل قبول ہے۔"
آپ نے فرمایا: "اگر امریکہ صہیونی ریاست کی حمایت بالکل ختم کر دے، اپنے فوجی اڈے خطے سے ہٹا لے، اور [خطے میں] مداخلت بند کرے، تو یہ معاملہ زیر غور آ سکتا ہے ـ البتہ یہ بات موجودہ دور یا مستقبل قریب سے تعلق نہیں رکھتی۔
اپنی دانش و معرفت اور آگاہی بڑھائیں؛ علمی تحریک کو تیز ہونا چاہئے
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں نوجوانوں کو نصیحت کی کہ وہ دانش و معرفت کے حلقے بنا کر ملک کے آج، کل اور آنے والے کل کے بنیادی سیاسی مسائل کے بارے میں اپنی معلومات اور آگاہی کی سطح میں اضافہ کریں، اور خوشگوار اور تلخ واقعات کا جائزہ لیں۔
آپ نے فرمایا: "علم و سائنس کو ملک میں فروغ دینا چاہئے۔ کچھ سال پہلے ہماری علمی ترقی اور تحریک بہت اچھی تھی، لیکن اب اس میں کچھ کمی آئی ہے۔ یونیورسٹیوں کے ذمہ داران، محققین اور طلبہ کو ملک کی علمی اور سائنسی رفتار کو سست نہیں پڑنے دینا چاہئے۔"
رہبر انقلاب نے ملک کی فوجی طاقت میں ترقی پر زور دیتے ہوئے فرمایا: "فوجی شعبہ، خدا کے فضل سے رات دن کام اور ترقی میں مصروف ہے اور ہماری افواج اس بھی کہیں زیادہ ترقی کریں گی، تاکہ ثابت کر سکیں کہ ایرانی قوم ایک طاقتور قوم ہے جسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔"
رہبر انقلاب کا خواتین اور لڑکیوں کو زہرائی و زینبی حجاب پر مبنی مشورہ
رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا: "چونکہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کا نام مبارک، اور حضرت (سلام اللہ علیہا) کا نام لیا گیا، چنانچہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ نوجوانوں سے عرض کروں کہ قلبی طور پر نام لینے اور یاد کرنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ حقیقی شیعہ کے طور پر، عملی طور پر بھی ان کی پیروی کریں۔"
آپ نے فرمایا: "سب سے پہلا قدم ان دو بزرگوار ہستیوں اور دیگر معصومین (علیہم السلام) کے بارگاہ خدائے متعال میں حاضری کی کیفیت ہے۔ آپ جہاں بھی ہیں، اپنے آس پاس کے مجموعوں کو بھی راغب کریں، اس بات پر کہ نماز کو اسی طرح بجا لائیں جیسا کہ اللہ کے صالح بندے چاہتے ہیں۔ میں اپنی پیاری بیٹیوں [اور] اجتماع میں حاضر محترمہ خواتین سے عرض کرتا ہوں کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو توجہ دیں، کہ حجاب کے مسئلے کو ایک دینی اور اسلامی اور زہرائی اور زینبی مسئلہ سمجھیں۔"
رہبر انقلاب نے فرمایا: "سب کو مشورہ دیتا ہوں کہ قرآن کے ساتھ اُنسیت کو نہ بھولیں۔ میں بارہا کہا ہے کہ قرآن کو ہر روز پڑھیں، خواہ قرآن کے کسی بھی حصے سے، صرف نصف صفحہ ہی کیوں نہ ہو، نصف صفحہ قرآن پڑھیں، ایک صفحہ قرآن پڑھیں، جتنا کہ آپ راغب ہوں، جتنا کہ آپ چاہیں، قرآن پڑھیں۔ معنویات اور روحانیات سے اپنا تعلق محفوظ رکھیں۔"
آپ نے فرمایا: "مسائل سے بھرپور اس دور میں، ہمارا نوجوان صرف اسی وقت حقیقی معنوں میں "مردہ باد امریکہ" کہہ سکتا ہے کہ باطنی لحاظ سے، دینی لحاظ سے، اعتقاد کے لحاظ سے اور اللہ پر توکل اور اللہ کی قدرت پر بھروسہ کرنے میں "قوی" ہو۔ صرف وہ نوجوان زمانے کے فرعونوں کی سطوت و طاقت اور دھونس دھمکیوں کے سامنے جم کر کھڑا ہو سکتا ہے جس کا دل خدا کے ساتھ ہو، وہ خدا سے جڑا ہؤا ہو۔ اس [تعلق اور ارتباط] کو محفوظ رکھیں۔ آپ، نوجوانوں کا ایک مجموعہ جو یہاں حاضر ہے، یہ چند ہزار نوجوان، آپ سب اور ملک کے تمام تر نوجوان، اگر اس نکتے کی طرف توجہ کریں تو میرے خیال میں، ہم اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی بہتر انداز سے ـ اپنے دنیاوی معاملات میں بھی، ملک کے انتظام کے معاملے بھی اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں بھی ـ ترقی کر سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
            
            
                                        
                                        
                                        
                                        
آپ کا تبصرہ