24 اکتوبر 2025 - 00:17
سید علی خامنہ ای اور میرزا محمد حسین نائینی

ان کی جامعیت اور روحانی پہلوؤں، شاگرد پروری، فقہی-اصولی نظام فکر، سیاسی فکر، دانشمندانه سماجی سیاسی عمل (یہ کہ بسا اوقات آپ کی 'مضبوط فقہی بات' کا فروغ مغرب کے فائدے میں ہو سکتا ہے اور اس لئے وہ بات کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے اور اسے روک لینا چاہئے، یہ سیاسی دانشمندی ہے جو بہت سوں کے پاس نہیں ہے)، علمی اور فلسفیانہ بنیاوں (Epistemological and philosophical foundations) کا حامل ہونا، علاور فلسفی بنیادوں کا حامل ہونا، یہ وہ نکات ہیں جن کا جمع ہونا (اور یکجا ہونا، نہ صرف بعض دینی طلبہ کے ہاں نہیں بلکہ) ہمارے دینی حوزات و مدارس اور حلقوں کی بنیادی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
• مرحوم آیت اللہ محمد حسین نائینی (رحمہ اللہ) کے بارے میں رہبرِ حکیم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے حالیہ بیانات کے حوالے سے چند مختصر نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

• پہلی بات یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی موجودہ حالات میں وہ واحد شخص جو جنگ کو تہذیبی سطح پر دیکھتا ہے اور اسی سطح پر طاقت اور سکون کے ساتھ لڑتا ہے، وہ خود رہبر انقلاب کی ذات ہے۔ آپ جنگ کو محض معاشی، عسکری، سیکیورٹی، شناختی و ادراکی (Cognitive) یا یہاں تک کہ ہائی برڈ (Hybrid) جنگ کے طور پر بھی نہیں دیکھتے، بلکہ آپ کی جدوجہد کی سطح تہذیبی ہے۔

• آپ کا پچھلا خطاب دیکھئے جو کھلاڑیوں سے تھا، یہ بھی ویسا ہی ہے، "طاقت اور روحانیت" کو اکٹھا کرنے، اور "علم و ایمان" پیدا کرنے کے بارے میں آپ کے متعدد پیغامات، اور حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کی کی سوسالہ تقریب کے لئے آپ کے پیغام اور دیگر تمام چیزیں، خود آّپ کی اس بات پر تاکید کہ "یہ جنگ ایک تہذیبی جنگ ہے"، ان سب کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔

• دوسرا نکتہ: ایسے حال میں کہ علامہ نائینی کو کافی عرصے سے مغرب نواز دانشوروں نے اپنے حق میں 'ضبط' کرلیا ہے، یہ قم المشرفہ کے دینی حلقے کی تیز فہمی ہے جو اب ان کی تشریح کر رہا ہے، لیکن یہ رہبر معظم ہی ہیں جو ان کے وجود کے بعض پہلوؤں کی سب سے بہتر تشریح کر سکتے تھے۔ ایک تو سیاسی فکر رکھنا، دوسرا دانشمندانه سیاسی عمل کرنا۔

بدقسمتی سے ہمارے علماء میں دینی حلقے کے فقہی-اصولی نظامِ فکر سے سیاسی فکر کا امڈ آنا (اور جنم لینا)، کم ہے۔ دانشمندانه اور زيرکانہ سیاسی عمل بھی ایسا ہی ہے۔

• ان کی جامعیت اور روحانی پہلوؤں، شاگرد پروری، فقہی-اصولی نظام فکر، سیاسی فکر، دانشمندانه سماجی سیاسی عمل (یہ کہ بسا اوقات آپ کی 'مضبوط فقہی بات' کا فروغ مغرب کے فائدے میں ہو سکتا ہے اور اس لئے وہ بات کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے اور اسے روک لینا چاہئے، یہ سیاسی دانشمندی ہے جو بہت سوں کے پاس نہیں ہے)، علمی اور فلسفیانہ بنیاوں (Epistemological and philosophical foundations) کا حامل ہونا، علاور فلسفی بنیادوں کا حامل ہونا، یہ وہ نکات ہیں جن کا جمع ہونا (اور یکجا ہونا، نہ صرف بعض دینی طلبہ کے ہاں نہیں بلکہ) ہمارے دینی حوزات و مدارس اور حلقوں کی بنیادی ضرورت ہے۔

• تیسری بات بھی نائینی کی فکر کا خلاصہ بیان کرتی ہے، وہ اہم شخصیت ہیں کیونکہ ان کی سیاسی فکر میں عوام، ولایت اور شریعت کے مجموعے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

"تنبیہ الامۃ و تنزیہ الملۃ" جو نجف کے دینی حلقے کا ثمرہ اور شیعی دینی حلقوں کی مجموعی فکری کوششوں کا مَا حَصَل ہے اور ایک اہم تاریخی واقعے کا احاطہ کرتی ہے، اس وجہ سے اہم ہے۔

• صفویہ دور سے قاجاریہ دور تک شیعہ علماء کی ہمارے حکمرانوں کی باگ ڈور سنبھالنے کی کوشش ان ادوار میں مغرب سے تصادم نے بتدریج انہیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ اسلام کے کام کی گرہ (اور الجھن کی جڑ) سلاطین کی استبدادیت اور مطلق العانیت ہے۔ صفویہ اور قاجاریہ ادوار میں میں پہلے دو قطبی ڈھانچے کے بعد علامہ نائینی کا تجویز کردہ سیاسی ڈھانچہ ایک اہم ارتقاء کے ساتھ، سامنے آیا۔

• اس ارتقاء نے فقہ کی پوری تاریخ کو شریعت اور ولایت کے کردار پر توجہ کو بھی سنجیدہ اور مضبوط کر دیا' نیز یقیناً یہ "الناس مسلطون" (لوگوں کا اپنی جان و مال پر اختیار) اور "نفی ولایت احد علی احد" (کسی فرد کا دوسرے فرد پر ولایت نہ ہونا) اور "عدم تولی سلطان جائر" (ظالم حکمران کی اطاعت نہ کرنا) پر مبنی فقہی سوچ تھی جو عوامی کردار اور میدان میں آنے کی صورت میں ظہور پذیر ہو سکتی تھی۔

• نجف میں شہید صدر کی کوششیں اور "لوگوں کی خلافت الٰہیہ" کے پہلو پر توجہ، فقیہ کی حاکمیت کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگی اور ایک ہم آہنگ فقہی نظام کے سانچے میں ـ شریعت میں، ان کی ـ زمان و مکان (Time and Space) کے کردار کی تعریف؛ اور قم کے مفکرین اور فقہا، شیخ عبدالکریم اور مرحوم بروجردی سے لے کر مرحوم شاہ آبادی نیز دوسروں تک کی کاوشوں نے آخرکار ایک مکمل مربوط، عملی، توحیدی، فقہی اور سیاسی ڈھانچے کی ظہورپذیری کے لئے راستہ ہموار (اور ماحول تیار) کر دیا۔ یہ واقعہ امام خمینی (قَدَّسَ اللہُ نَفسَہُ الزَّکِیَّہ) اور امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) کے ہاتھوں رونما ہؤا اور ان کے شاگردوں نے اس کو فروغ دیا۔

• اسلامی جمہوریہ کا خاکہ اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ آج پوری انسانیت کے لئے ایک خالص، عمیق بُنیاد (Deep-rooted)، پختہ، مضبوط اور معقول ہے۔ مشروطیت (آئینیت) کی تحریک (یا صحیح تر لفظوں میں 'استبدادیت کے خلاف عدل پسندانہ تحریک) کے حصے کا، حوزہ علمیہ نجف کی تمام فکری کوششوں کے ساتھ ملا کر، پرکھنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: علی مہدیان

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha