بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا : اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) نے آج صبح مختلف کھیلوں کے سینکڑوں چیمپئنز اور عالمی سائنسی اولمپیاڈ میں تمغے جیتنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے، ان قابل فخر افراد کو قومی ترقی اور طاقت کا مظہر قرار دیا اور فرمایا: آپ نے ثابت کیا کہ پیارے ایران کا امید آفرین نوجوان "قوم کی علامت" کے طور پر، یہ طاقت و صلاحیت رکھتا ہے کہ چوٹیوں پر کھڑے ہوں اور دنیا کے ذہنوں اور آنکھوں کو ایران کی روشن فضا کی طرف متوجہ کریں۔
کھیلوں کے چیمپئنز اور عالمی سائنسی اولمپیاڈ کے تمغے جیتنے والوں نوجوانوں سے انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) کا خطاب:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد وآلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
آپ سب کو بہت خیر مقدم پیش کرتا ہوں اور خوش ہوں کہ اس محفل میں شریک ہؤا ہوں جو قومی ترقی اور نوجوانوں کی طاقت کا مظہر ہے۔ تمغہ جیتنے والوں ـ خواہ کھیل کے میدان میں ہوں یا سائنسی میدانوں میں ـ نے عوام کو خوش کر دیا۔ آپ نے اپنی لگن اور اپنی محنت سے ایرانی قوم کو خوش کیا، نوجوانوں کو جوش و ولولہ دلایا؛ یہ بہت بڑی قدر ہے۔ یہ تمغہ جو آپ نے اس سال، ان گذشتہ چند مہینوں میں، اپنی محنت کے نتیجے میں حاصل کیا، میرے خیال میں عام تمغوں کے مقابلے میں ایک اضافی خوبی رکھتا ہے؛ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نرم جنگ کے دَور سے گذر رہے ہیں۔ نرم جنگ میں، دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ قوم کو افسردہ اور اداس کر دے، مایوس کر دے، انہیں ان کی اپنی صلاحیتوں سے مایوس کر دے؛ آپ نے اپنے تمغے جیت کر دشمن کے حرکت کے مقابل (برعکس) اقدام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور عملی طور پر، ایرانی نوجوان کی صلاحیت اور ایرانی قوم کی طاقت، ـ جو اس کے نوجوانوں میں ظہور پذیر ہوتی ہے، ـ کا مظاہرہ کیا۔ لہٰذا شاید کہا جا سکے اس تمغے کی قدر کئی گنا ہے؛ یہ جواب، سب سے مضبوط جواب ہے جو دشمن کو دیا جا سکتا تھا اور آپ نے یہ جواب دے دیا۔
پیارا ایران امید کی علامت ہے؛ امید کا مظہر ہے۔ جو وسوسے بعض لوگ نوجوانوں، نئی نسل وغیرہ کی مایوسی کے بارے میں پھیلاتے ہیں، یہ بلا تحقیق کی باتیں ہیں۔ ایران امید کا مظہر ہے۔ ایرانی نوجوان مستعد با صلاحیت اور لائق ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ ہم ایرانی نوجوانوں کی صلاحیتوں، مہارتوں، اہلیتوں اور طاقتوں کو پہچان لیں اور سمجھ لیں۔ ایرانی نوجوان میں وہ خصوصیت ہے کہ وہ بلندیوں چوٹیوں پر کھڑا ہو سکتا ہے، جیسا کہ آپ لوگ چوٹیوں پر پہنچے ہیں: کسی کھیل میں یا کسی سائنسی کام میں "عالمی چیمپئن"۔ آپ چوٹیوں پر پہنچے۔ ایرانی نوجوان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود کو بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ ارادہ کرے۔ یہ صلاحیت اس میں موجود ہے؛ جو چیز درکار ہے وہ عزم و ارادہ ہے، محنت ہے، حرکت ہے۔
ہمارے ملک میں، انقلاب کے بعد کچھ شعبے جست لگا کر آگے بڑھے۔ ترقی جست لگا کر حاصل ہوئی جن میں سے ایک کھیلوں کے میدانوں میں ہمارے نوجوانوں کا اس سال کا کارنامہ ہے؛ کُشتی، والی بال اور کچھ دوسرے کھیلوں میں وہ اپنا لوہا منوا سکے۔ ہماری حالت یہ نہیں تھی؛ ہمارے پاس یہ صلاحیتیں نہیں تھیں۔ شاید اس سال مجموعی طور پر جو کچھ دکھائی دیا، وہ ملک کے کھیلوں کی تاریخ میں عدیم المثال ہے۔ اولمپیاڈزمیں بھی یہی بات ہے؛ سائنسی اولمپیاڈ میں، ہمارے نوجوان چوٹیوں پر پہنچ سکے، ایک حقیقی مقابلے میں اپنے حریفوں پر غالب آ سکے؛ یعنی ایران ایک بین الاقوامی مقابلے میں سرفہرست رہا۔ آپ جو بھی کام کرتے ہیں، درحقیقت وہ ایران کے کھاتے میں جاتا ہے؛ آپ جو بھی کام کرتے ہیں وہ قوم کے کھاتے میں جاتا ہے۔ یہ جھنڈا جو ان حضرات نے دکھایا، بہت قابل قدر ہے۔ یہ سجدہ جو وہ کرتے ہیں، یہ دعا جو ہمارا کھلاڑی فتح کے بعد کرتا ہے، بہت قیمتی ہے؛ یہ ایرانی قوم کی علامت ہے۔
یہ اولمپیاڈ میں شریک نوجوان آج ایک چمکتا ہؤا ستارہ ہیں؛ اور دس سال بعد وہ ایک سورج بن جائیں گے، اگر وہ محنت کریں۔ میرا اصرار یہ ہے؛ میں ذمہ داروں پر زور دیتا ہوں کہ ان نوجوانوں کو مت چھوڑیں۔ جو کچھ اب تک حاصل کیا ہے اس پر اکتفا نہ کریں؛ آگے بڑھیں۔ یہ "ستارہ" اگر آگے بڑھا تو دس سال بعد "سورج" ہے۔ بڑے بڑے کام کئے جا سکتے ہیں۔ ہم نے البتہ انقلاب کے شروع سے ہی یہ کردار اپنے نوجوانوں میں دیکھا ہے۔ آپ جانتے ہیں ـ البتہ ہمارے نوجوانوں نے اگر کتابوں میں پڑھا ہو [تو وہ جانتے ہیں کہ]ـ انقلاب کے شروع میں، انقلاب کی فتح کے دو سال بعد، [دشمنوں] نے ملک پر ایک جنگ مسلط کی جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ یہ آٹھ سالہ جنگ انقلاب کے آغاز میں بہت سی کمیوں کے باوجود، خالی ہاتھوں، ایران کی فتح پر منتج ہوئی؛ یعنی ایران اپنے دشمن، صدام کو، جس کی ہر طرف سے تائید و حمایت کی جا رہی تھی، شکست دینے میں کامیاب ہؤا؛ یہ کام کس نے کیا؟ نوجوانوں نے۔ ایجادات نوجوانوں نے کیں۔
ہم نے قریب سے دیکھا۔ ان نوجوانوں نے اس دن فوجی تخلیقات کو اس انداز سے منظم کیا کہ دشمن کی لامحدود صلاحیتوں پر غالب آ گئے۔ یہ میدان جنگ کا حال تھا۔ سائنس میں بھی یہی حال ہے؛ سائنس کے میدان جنگ میں بھی یہی حال ہے۔ آج ہمارے نوجوان، برسوں گذرنے کے بعد، بہت سے تحقیقی مراکز میں عالمی تحقیقات میں پہلے درجے پر ہیں؛ پہلے درجے پر؛ یعنی کم از کم دنیا کے دس پہلے رتبوں پر فائز ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے نینو، لیزر، ایٹمی صنعت، مختلف فوجی صنعتوں، اہم طبی تحقیق میں بڑے کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ اسی طرح کل ہی مجھے خبر ملی کہ ہمارے ایک اہم تحقیقی مرکز نے ایک لاعلاج بیماری کا ـ جو اب تک لاعلاج سمجھی جاتی تھی ـ علاج دریافت کرلیا ہے؛ یہ بہت اہم ہے۔ نوجوان کام کر رہے ہیں، ملک چل رہا ہے، ملک کام کر رہا ہے؛ کام کی علامت آپ ہی لوگ ہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں کا حال ہے۔
دشمن یہ صورت حال نہیں دیکھنا چاہتا [اور برداشت نہیں کرتا]؛ اولاً نہیں دیکھنا چاہتا۔ [بلکہ] چاہتا ہے کہ اگر ہو سکے تو اس صورت حال کو روک دیا جائے۔ سائنسی ترقی، تکنیکی ترقی، خدمات کے میدانوں میں ترقی اور کھیل کے میدان میں ترقی کو دشمن برداشت نہیں کر سکتا؛ لیکن جو کچھ موجود ہے اور وہ اسے روک نہیں سکتا، تو سچ اور جھوٹ کے ذریعے وہ اسے درہم برہم اور ابتر کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے؛ دشمن کا کام یہی ہے؛ وہ بعض خامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، بعض واضح حقائق کو چھپا دیتے ہیں، ان حقائق کے برعکس بات کرتے ہیں۔ آپ جو کھیل یا سائنس کی بلندیوں پر جا کر کھڑے ہوگئے، تو آپ نے درحقیقت یہ اس حقیقت کو نمایاں کیا کہ ایران کا ماحول روشن ماحول ہے؛ دشمن کے اس پروپیگنڈے کے برعکس، جو کہنا چاہتا ہے کہ ایران کا ماحول گھٹا ہؤا اور تاریک ہے۔ آپ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ایران کا ماحول روشن ماحول ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ ایرانی نوجوان خود ہی اپنی خوداعتمادی کھو دے؛ یہ وہ کام ہے جو دشمن کرنا چاہتا ہے۔
بلاشبہ نوجوانوں کو اپنی محنت میں اضافہ کرنا چاہئے۔ نوجوانوں میں لازوال طاقت ہوتی ہے۔ "جوانی" ایک غیر معمولی طاقت ہے، ختم ہونے والی نہیں ہے؛ آپ جو بھی کام کریں، جو بھی محنت کریں اور اس طاقت کو استعمال کریں، یہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ جوانی کی طاقت ایسی ہے کہ آپ جتنا کام کریں یہ بڑھتی ہے، مضبوط ہوتی ہے۔ وہ اپنی محنت میں اضافہ کریں، اپنی صلاحیت اپنی قوم پر صرف کریں؛ اہم بات یہ ہے۔ اب ہو سکتا ہے کچھ لوگ کسی دوسرے ملک میں رہنا پسند کریں، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہاں وہ اجنبی [اور پرائے] ہیں؛ آپ جو کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں، چاہے آپ کچھ بھی کریں، کسی بھی مقام پر پہنچ جائیں، وہاں آپ ایک اجنبی انسان ہیں۔ [لیکن] یہاں آپ کا اپنا گھر ہے، یہاں آپ کی اپنی سرزمین ہے، یہ ملک آپ کا اپنا ہے، یہ سرزمین آپ کے اپنے بچوں اور آپ کی نسل کی ہے؛ ایرانی نوجوان ان باتوں پر توجہ دے۔ اور ایک اجنبی کسی دوسرے ملک میں پُر سکون زندگی نہیں گذار سکتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ آج کل امریکہ میں اور دوسری جگہوں پر مہاجرین کے ساتھ ـ ان ہی کے الفاظ میں ـ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؛ اس لئے کہ وہ اجنبی ہیں۔ چونکہ وہ اجنبی ہیں، ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؛ ان کے ساتھ سختی، تلخی، بے اعتنائی اور بے رخی اور پوری بے رحمی پر مبنی برتاؤ روا رکھا جاتا ہے۔ خیر یہ بات آپ اولمپیاڈ والوں اور میرے ان عزیزوں کے بارے میں تھی جنہوں نے اچھے پروگرام بھی پیش کئے۔
امریکی صدر (1) نے مقبوضہ فلسطین میں چند کھوکھلی اور مہمل باتوں اور مسخرہ پن کے ذریعے مایوس صہیونیوں کو امید دلانے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ امریکی صدر کے مقبوضہ فلسطین کے اندر جانے اور ان کرتبوں اور ان باتوں کے بارے میں میرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ لوگ مایوس ہیں؛ وہ 12 روزہ جنگ میں ایسا زوردار تھپڑ کھا چکے ہیں جس پر انہیں یقین نہیں آ رہا تھا، جس کی انہیں توقع نہیں تھی، اور مایوس ہو گئے ہیں۔ وہ وہاں ان کا حوصلہ بڑھانے گئے، وہ انہیں مایوسی سے نکالنے گئے؛ اس قسم کی باتیں جو انھوں کہیں، وہ باتيں ہیں جو [عام طور پر] مایوس ذمہ داران سے کہی جاتی ہیں۔
انہیں توقع نہیں تھی کہ ایرانی میزائل، جو ایرانی نوجوانوں کے ہاتھ کا بنا ہؤا ہے، اپنے آتشیں شعلوں سے، اپنی آگ سے، ان کے بعض حساس تحقیقی مراکز کی گہرائیوں کو خاکستر میں بدل سکتا ہے؛ انہیں اس کی توقع نہیں تھی اور یہ واقعہ پیش آیا؛ یہ میزائل صہیونی ریاست کے بعض اہم مراکز کی گہرائیوں میں داخل ہونے اور انہیں تباہ کرنے اور برباد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان میزائلوں کو ایرانی نوجوانوں نے بنایا؛ ہم نے یہ کہیں سے نہیں خریدے، ہم نے یہ کہیں سے کرائے پر نہیں لئے؛ یہ ایرانی نوجوان کے بنائے ہوئے ہیں، یہ ایرانی نوجوان کا شناختی کارڈ ہیں۔
جب ایرانی نوجوان کسی میدان میں داخل ہؤا اور محنت کی، ارادہ کیا، کوشش کی، اپنے لئے سائنسی بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا، تو وہ اس قسم کے کام کر دیتا ہے، کارہائے عظیم انجام دیتا ہے۔ ان میزائلوں کو ہماری مسلح افواج اور فوجی صنعت نے تیار کیا، استعمال کیا، بروئے کار لایا اور ان کے پاس مزید بھی ؛ اگر ضرورت پڑی تو کسی دوسرے وقت بھی انہیں استعمال کریں گے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا، میری بات کا خلاصہ یہ ہے: یہ بیہودہ باتیں جو اس صاحب نے وہاں کہہ دیں، یہ فضول، بے ڈھنگی حرکتيں، اس لئے تھیں کہ وہ مخالف فریق کا حوصلہ بڑھائے، ان کا حوصلہ بڑھائے؛ ان کا حوصلہ ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن کچھ نکات ہیں:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ امریکہ غزہ کی جنگ میں اصل شریک ہے؛ بلا شک و شبہہ۔ انھوں نے خود بھی اپنی باتوں میں اس کا اعتراف کیا، کہا کہ ہم نے غزہ میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا؛ البتہ اگر وہ یہ نہ بھی کہتے تو معلوم تھا؛ ان کے ہتھیار، ان کے وسائل بڑی تعداد میں صہیونی ریاست کے حوالے کئے گئے تاکہ غزہ کے بے بس عوام پر برسائے جائیں۔ امریکہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'ہم دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں'؛ ان حملوں میں بیس ہزار سے زیادہ بچے، شیر خوار اور ننھے بچے شہید ہوئے؛ کیا یہ دہشت گرد تھے؟ چار سالہ، پانچ سالہ بچے، نومولود بچے، ان میں سے 20000 بیس ہزار کو تم نے مارا! کیا یہ دہشت گرد تھے؟ دہشت گرد تم ہو! دہشت گرد تم ہو جو داعش کو جنم دیتے ہو اور خطے میں بکھیر دیتے ہو، پھر انہیں اپنے پاس رکھتے ہو تاکہ کسی دن [پھر] انہیں استعمال کر سکو ـ اب بھی یہی حال ہے؛ داعش کے کچھ افراد امریکہ کے قبضے میں ہیں، اس نے انہیں کہیں رکھا ہؤا ہے تاکہ جب چاہیں کہیں بھی انہیں استعمال کریں ـ دہشت گرد تم ہو! دہشت گرد امریکہ ہے! انہوں نے غزہ کی دو سالہ جنگ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 70000 افراد قتل ہوئے۔
بارہ روزہ جنگ کے دوران ایران میں، ان کا اندھادھند قتل عام اور بم جو انہوں نے ایک ہزار سے زیادہ آبادی پر گرائے اور انہیں شہید کر دیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے ہمارے سائنسدانوں کو بھی شہید کیا۔ وہ [ٹرمپ / نیتن یاہو] اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس نے ایک ایرانی سائنسدان کو شہید کیا؛ ہاں، تم نے سائنسدان کو شہید کیا، طہرانچی (2) اور عباسی (2) جیسے سائنسدانوں کو شہید کیا، لیکن تم ان کے علم [اور ان کی سائنس] کو قتل نہیں کر سکتے ہو۔ وہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ ہم نے ایرانی ایٹمی صنعت پر بمباری کی اور اسے تباہ کر دیا۔ بہت اچھے، اسی خیال میں رہو! لیکن آخر تم [یہ کہتے ہوئے] ہوتے کون ہو کہ اگر کسی ملک کے پاس ایٹمی صنعت ہے تو تم مداخلت کرو اور "ہونا چاہئے' یا 'نہیں ہونا چاہئے' کہہ دو؟ تم 'دنیا کے کیا' ہو؟ امریکہ سے اس بات کیا تعلق کہ ایران کے پاس ایٹمی سہولیات اور ایٹمی صنعت ہے یا نہیں ہے؟ یہ مداخلتیں، نا مناسب، ناہنجار، غلط، اور جابرانہ ہیں۔
میں نے سنا ہے کہ امریکہ کی تمام ریاستوں میں اسی وقت لوگ سڑکوں پر ان کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں؛ (۴) موصولہ رپورٹ کے مطابق جو آپ نے بھی سنی، امریکہ کے مختلف شہروں میں، امریکہ کی مختلف ریاستوں میں 70 لاکھ آبادی اس شخص کے خلاف نعرے لگا رہی ہے۔ اگر تم میں اتنی صلاحیت ہے تو جاؤ انہیں پرسکون کرو! جاؤ انہیں خاموش کرا دو اور ان کے گھروں میں واپس بھیج دو۔ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، فوجی اڈے بناتے ہیں۔ دہشت گرد امریکہ ہے؛ درحقیقت، 'دہشت گرد' کا حقیقی مظہر 'امریکہ' ہے۔
وہ کہتے ہیں "میں ایرانی عوام کا حامی ہوں"؛ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ یہ ثانوی پابندیاں جو کئی سالوں سے امریکہ نافذ کر رہا ہے اور بہت سے ممالک خوف کے مارے اس کے زیر اثر آ گئے ہیں، یہ پابندیاں کس کے خلاف ہیں؟ ایرانی قوم کے خلاف۔ تم ایرانی قوم کے دشمن ہو، ملت ایران کے دوست نہیں ہو۔
وہ کہتے ہیں "میں لیکن دین کا قائل ہوں، میں لین دین کرنا چاہتا ہوں، ایران کے ساتھ لین دین اور سودا کرنا چاہتا ہوں"! [جبکہ] وہ سودے بازی جس کا نتیجہ جبر و زبردستی کے ساتھ پہلے سے ہی طے شدہ ہو، یہ لین دین یا سودا نہیں بلکہ جبر اور زبردستی ہے؛ اور ایرانی قوم زبردستی قبول نہیں کرے گی؛ ایرانی قوم جبر اور زبردستی قبول نہیں کرتی۔ اس کا نام لین دین نہیں ہے۔ [کہتے ہیں کہ آؤ] "بیٹھیں بات کریں اور نتیجہ یہ نکلے"! وہ نتیجہ پہلے سے طے کرتے ہیں؛ یہ زبردستی ہے۔ ایران کو کچھ دوسرے ممالک کی طرح ان زبردستیوں سے متاثر نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کا تبصرہ