بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || قران کریم میں حضرت فاطمہ زھراء (سلام اللہ علیہا) کی منزلت واضح طور سے بیان ہوئی ہے، 60 سے زیادہ آیتیں آپ کی فضیلت اور اپ کے بلند مقام پر اس طرح گواہ اور گویا ہے کہ ہر بالغ و عاقل کو اس پر ایمان لانا اور اسے ماننا ضروری و واجب ہے۔
ان کے علاوہ وہ ایات جس میں اپ دیگر ائمہ معصومین اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ شریک ہیں ۔
لہذا اپ کی فضلیت کے لئے کتاب خدا ہمارے لئے کافی ہے اور کیا خدا کی شھادت و گواہی سے بالاتر کسی کی گواہی ہے ؟ کیا اس تعریف سے بالاتر کسی کی تعریف ہے؟ پاکیزہ روح اور نفس کو، دائم الذکر یعنی خدا کی یاد میں رہنا، ہمیشہ خدا راستہ پر گامزن رہنا، اسے مبارک ہو ! خدا اسے بلند ترین مرتبہ عنایت کرے ۔ امین ۔ مزید علم و آگاہی کیلئے کتاب «ما نزل من القران فی شان فاطمہ الزھراء» کا مطالعہ کریئے ۔
ہم اس مقام پر بعض ایات کی جانب اشارہ کررہے ہیں:
۱: «وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا» ۔ (۱)
اور دیکھو قرابتداروں کو اور مسکین کو اور مسافر غربت زدہ کو اس کا حق دے دو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا .
مفسرین کہتے ہیں کہ اس ایت کریمہ میں «ذی القربی» سے مراد حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) ہیں، یعنی مسلمانوں خدا کا حکم ہے کہ وہ حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے حق کو ادا کریں اور چونکہ آیت میں صیغہ امر «وَآتِ» استعمال کیا گیا ہے لذا واجب پر دلالت کرتا ہے، یعنی ہر مسلمان کا اولین فریضۃ ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکات کی طرح حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے حقوق کو بھی ضرور ادا کرے ۔
مفسرین تحریر کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس ایت کریمہ کی تشریح میں ارشاد فرمایا: إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا کِتَابَ اللَّهِ عزّوجلّ وَ أَهْلَ بَیْتِی عِتْرَتِی أَیُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَ قَدْ بَلَّغْتُ إِنَّکُمْ سَتَرِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُکُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِی الثَّقَلَیْنِ وَ الثَّقَلَانِ کِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ أَهْلُ بَیْتِی فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ فَوَقَعَتِ الْحُجَّهًُْ بِقَوْلِ النَّبِیِّ (وَ بِالْکِتَابِ الَّذِی یَقْرَأُهُ النَّاسُ فَلَمْ یَزَلْ یُلْقِی فَضْلَ أَهْلِ بَیْتِهِ بِالْکَلَامِ وَ یُبَیِّنُ لَهُمْ بِالْقُرْآنِ إِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً وَ قَالَ عَزَّ ذِکْرُهُ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَأَنَّ للهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی الْقُرْبی ثُمَّ قَالَ: وَ آتِ ذَا الْقُرْبی حَقَّهُ فَکَانَ عَلِیٌّ (وَ کَانَ حَقُّهُ الْوَصِیَّهًَْ الَّتِی جُعِلَتْ لَهُ وَ الِاسْمَ الْأَکْبَرَ وَ مِیرَاثَ الْعِلْمِ وَ آثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّهْ. (۲)
یقینا میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر ان دونوں کی پیروی کروگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت، اے لوگو! غور سے سنو کہ میں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور اسلام تم تک پہنچایا، تم لوگ قیامت کے دن حوض کوثر کے کنارے مجھ سے ملاقات کروگے اور تم نے جو کچھ بھی ثقلین کے سلسلہ میں انجام دیا ہے تم سے جواب طلب کروں گا۔ ثقلین (دوگراں بہا چیز) ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میرے اہلبیت (علیہم السلام) ہیں، خود کو ان پر مقدم نہ کرنا کہ ہلاک ہوجاؤگے اور انہیں کسی چیز کی تعلیم دینے کی کوشش نہ کرنا کہ وہ تم سے زیادہ جانتے اور تعلیم یافتہ ہیں، لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی گفتگو اور قران کریم کہ جس کی لوگ خود تلاوت کرتے ہیں، کے بیان کے مطابق خدا کی حجت تمام ہوگئی کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنے بیان میں ہمیشہ اہلبیت اطھار علیہم السلام کے فضائل بیان کئے اور قران کے وسیلہ ان کی راہنمائی کی، جو ایات اہلبیت اطھار علیہم السلام کے فضائل کو کرتی ہیں وہ یہ ایات کہتی ہیں : خداوند متعال نے رجس اور گناہ کو اہلبیت علیہم السلام سے دور رکھ رکھا ہے اور انہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے، (۳) خداوند متعال نے دوسری جگہ پر فرمایا: ہر مال غنیمت جو تمہیں حاصل ہو، اس کا خمس خدا، رسول اور ذوالقربی کے لئے ہے، (۴) اور پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا: «وَ آتِ ذَالْقُرْبی حَقَّہ» میں ذوالقربی سے مراد علی اور ان کا گھرانا ہے، اور ان کا حق وہ سفارش ہے جو ان کے سلسلہ میں کی گئی ہے نیز اسم اعظم اور نبوت کا علم و اثار ان کی ورثہ ہے ۔
2: «وَ أْمُرْ اَہلَکَ بِالصَّلوةِ واصْطَبِرْ عَلَیْہا....» ۔ (۵)
اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں ہم آپ سے رزق کے طلبگار نہیں ہیں ہم تو خود ہی رزق دیتے ہیں اور عاقبت صرف صاحبانِ تقویٰ کیلئے ہے۔
مذکورہ ایت کریمہ میں رسول خدا(ص) کو حکم ہوا ہے کہ وہ اپنے اہل بیت کو نماز کا حکم دین ۔ مفسرین کے نزدیک ایت کریمہ چونکہ مکہ میں نازل ہوئی ہے یعنی اسلام کے ابتدائی دنوں میں اور رسول اسلام کے مدینہ ھجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئی ہے لہذا اس ایت میں، اہل بیت سے مراد فقط و فقط جناب خدیجہ، حضرت فاطمہ زہراء اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ (۶)
مذکورہ بالا ایت کریمہ میں حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) امام علی، امام حسن و امام حسین اور جناب خدیجہ کے ساتھ اور شریک ہیں ۔
عظیم راوی اور مفسر قران کریم علی ابن ابراھیم (رہ) اس ایت کی تفسیر میں حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا أَنْ یَخُصَّ أَهْلَهُ دُونَ النَّاسِ لِیَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ لِأَهْلِ مُحَمَّدٍ
وَ أْمُرْ أَهْلَکَ بِالصَّلاةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْها فَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَهُ أَنْ یَخُصَّ أَهْلَهُ دُونَ النَّاسِ لِیَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ لِأَهْلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله علیه و آله) عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَهْ خَاصَّهْ لَیْسَتْ لِلنَّاسِ إِذْ أَمَرَهُمْ مَعَ النَّاسِ عَامَّهْ ثُمَّ أَمَرَهُمْ خَاصَّهْ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی هَذِهِ الْآیَهْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله) یَجِیءُ کُلَّ یَوْمٍ عِنْدَ صَلَاهْ الْفَجْرِ حَتَّی یَأْتِیَ بَابَ عَلِیٍّ (علیه السلام) وَ فَاطِمَهْ (سلام الله علیها) وَ الْحَسَنِ (علیه السلام) وَ الْحُسَیْنِ (علیه السلام) فَیَقُولُ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَهْ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ فَیَقُولُ عَلِیٌّ (علیه السلام) وَ فَاطِمَهْ (سلام الله علیها) وَ الْحَسَنُ (علیه السلام) وَ الْحُسَیْنُ (علیه السلام) وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ یَا رَسُولَ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله) وَ رَحْمَهْ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ ثُمَّ یَأْخُذُ بِعِضَادَتَیِ الْبَابِ وَ یَقُولُ الصَّلَاهْ الصَّلَاهْ یَرْحَمُکُمُ اللَّهُ إِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً فَلَمْ یَزَلْ یَفْعَلُ ذَلِکَ کُلَّ یَوْمٍ إِذَا شَهِدَ الْمَدِینَهْ حَتَّی فَارَقَ الدُّنْیَا وَ قَالَ أَبُوالْحَمْرَاءِ خَادم النَّبِیِّ (صلی الله علیه وآله) أَنَا شَهِدْتُهُ یَفْعَلُ ذَلِکَ. (۷)
«وَ أْمُرْ أَہلَکَ بِالصَّلَاةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْہا» خداوند متعال نے رسول خد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ اس حکم کو اپنے اہلبیت سے مخصوص قرار دیں اور دوسروں کو اس میں شامل نہ کریں تاکہ لوگ خاندان رسالت کی اہمیت کو جان لیں کہ خدا کے نزدیک ان کی کیا اہمیت اور فضلیت ہے اور دوسرے ان کے برابر نہیں ہیں کیوں کہ خداوند متعال نے پہلے انہیں تمام لوگوں کے ساتھ خطاب کیا اور پھر اہلبیت سے خصوصی خطاب کیا ۔ اس ایت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہر روز نماز صبح کے وقت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب اور حضرت فاطمہ زہراء علیہما السلام کے گھر تشریف لے جاتے اور فرماتے : تم لوگوں پر میرا سلام اور خدا کی رحمت ہو ۔ پھر امام علی، حضرت فاطمہ زہراء، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام، کہتے «اپ پر بھی خدا کا سلام اور اس کی رحمت ہو اے خدا کے رسول » پھر انحضرت (ص) اپنی جوتیوں کو اٹھاتے اور کہتے کہ « نماز کا وقت ہے، نماز کا وقت ہے، خدا تم سب پر رحمت نازل کرے، خدا فقط و فقط یہ ارادہ ہے کہ اپ اہلبیت سے رجس کو دور اور اپ کو پاک و پاکیزہ رکھے »، (۸) انحضرت جس مدینہ پہونچے اس دن سے لیکر جب تک با حیات رہے مسلسل اس عمل کو انجام دیتے رہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے غلام ابوحمراء کہتے ہیں کہ «میں گواہی دیتا ہوں کہ انحضرت(ص) اس کام کو مسلسل انجام دیتے رہے ہیں » ۔
۳: « ..... وَ ہمْ فِیما اشْتَہتْ اَنْفُسُہمْ خالِدُونَ» (۹)
۔۔۔۔۔ اور اپنی حسب خواہش نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ آرام سے رہیں گے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس ایت کی تفسیر اور تشریح میں فرمایا: وَهُمْ فِی مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خالِدُونَ هِیَ وَ اللَّهِ فَاطِمَهْ (سلام الله علیها) وَ ذُرِّیَّتُهَا (وَ شِیعَتُهَا وَ مَنْ أَوْلَاهُمْ مَعْرُوفاً مِمَّنْ لَیْسَ هُوَمِنْ شِیعَتِهَا. (۱۰)
خدا کی قسم اس ایت کریمہ میں ہمیشہ جنت میں رہنے والوں میں فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)، ان کے بچے، ان کے شیعہ اور ان کے چاہنے والے ہیں ۔
ابن عباس، رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ: سَمِعْتُ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ (علیه السلام) یَقُول دَخَلَ رسول الله (صلی الله علیه و آله) ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی فَاطِمَهْ (سلام الله علیها) وَ هِیَ حَزِینَهْ فَقَالَ لَهَا مَا حَزَنَکِ یَا بُنَیَّهْ قَالَتْ یَا أَبَهْ ذَکَرْتُ الْمَحْشَرَ وَ وُقُوفَ النَّاسِ عُرَاهْ یَوْمَ الْقِیَامَهْ فَقَالَ یَا بُنَیَّهْ إِنَّهُ لَیَوْمٌ عَظِیمٌ وَ لَکِنْ قَدْ أَخْبَرَنِی جبرئیل عَنِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ أَنَّهُ قَال یَأْتِیکِ إِسْرَافِیلُ بِثَلَاثِ حُلَلٍ مِنْ نُورٍ فَیَقِفُ عِنْدَ رَأْسِکِ فَیُنَادِیکِ یَا فَاطِمَهْ (سلام الله علیها) بِنْتَ مُحَمَّدٍ قُومِی إِلَی مَحْشَرِکِ فَتَقُومِینَ آمِنَهْ رَوْعَتُکِ مَسْتُورَهْ عَوْرَتُکِ فَیُنَاوِلُکِ إِسْرَافِیلُ الْحُلَلَ فَتَلْبَسِینَهَا وَ یَأْتِیکِ رُوفَائِیلُ بِنَجِیبَهْ مِنْ نُورٍ زِمَامُهَا مِنْ لُؤْلُؤٍ رَطْبٍ عَلَیْهَا مِحَفَّهْ مِنْ ذَهَبٍ فَتَرْکَبِینَهَا وَ یَقُودُ رُوفَائِیلُ بِزِمَامِهَا وَ بَیْنَ یَدَیْکِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ بِأَیْدِیهِمْ أَلْوِیَهْ التَّسْبِیح فَإِذَا بَلَغْتِ بَابَ الْجَنَّهْ تَلَقَّتْکِ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ حَوْرَاءَ لَمْ یَتَلَقَّیْنَ أَحَداً قَبْلَکِ وَ لَا یَتَلَقَّیْنَ أَحَداً کَانَ بَعْدَکِ بِأَیْدِیهِمْ حِرَابٌ مِنْ نُورٍ عَلَی نَجَائِبَ مِنْ نُورٍ جِلَالُهَا مِنَ الذَّهَبِ الْأَصْفَرِ وَ الْیَاقُوتِ أَزِمَّتُهَا مِنْ لُؤْلُؤٍ رَطْبٍ عَلَی کُلِّ نَجِیبٍ نُمْرُقَهْ مِنْ سُنْدُسٍ فَإِذْ {فَإِذَا} دَخَلْتِ الْجَنَّهْ تَبَاشَرُ بِکِ أَهْلُهَا وَ وُضِعَ لِشِیعَتِکِ مَوَائِدُ مِنْ جَوْهَرٍ علی عمُدٍ مِنْ نُورٍ فَیَأْکُلُونَ مِنْهَا وَ النَّاسُ فِی الْحِسَابِ وَ هُمْ فِی مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خالِدُونَ. (۱۱)
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم، حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں پہنچے تو اپ کو غمگین پایا، انحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپ سے دریافت کیا کہ تمھارے غمگین ہونے کا سبب کیا ہے ؟ تو حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نے کہا کہ قیامت کے دن کے حالات اور اس لوگوں کا برہنہ ہونا یاد اگیا ؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! وہ دن نہایت ہی عظیم دن ہے لیکن جبرئیل امین نے خداوند متعال کی جانب سے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ جب اس دن زمین شگافتہ ہوگی اور لوگ قبروں سے نکلنا شروع ہوں گے تو سب سے پہلے من نکلوں گا اور میرے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ نکلیں گے اور اس کے تمھارے شوہر علی باہر ائیں گے، اس وقت خداوند متعال جبرئیل امین کو ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھارے قبر کے پاس بھیجے گا اور تمھاری قبر پر نور کے سات گنبد لگائے جائیں گے اور اسرافیل، نور کے تین لباس تمھارے لئے لائیں گے اور تمھارے سرہانے کھڑے ہوکر اواز دیں گے، اے محمد کی بیٹی ! صحرائے قیامت میں آیئے، تم اس حال میں قبر سے نکلو گی کہ تمھارا بدن ڈھکا ہوگا اور اس دن کی وحشت سے محفوظ ہوں گی، اسرافیل اس لباس کو تمھیں دیں گے اور تم اسے پہن لو گی پھر زوقائیل نامی ملک تمھارے لئے ناقہ لائے گا کہ جس کی مھار سچی موتیوں سے بنی ہوگی اور سونے کا کجاوہ اس کی پشت پر بندھا ہوگا، تم اس ناقہ پر سوار ہوں گی زوقائیل اس حال میں کہ تمھارے اگے اگے ستر ہزار فرشتے ہوں گے جن کے ہاتھوں میں تسبیح کا علم ہوگا، تمھارے ناقہ کی مہار کو تھامے ہوں گے ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام اپنے خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں : فَبَادِرُوا بِأَعْمَالِکُمْ تَکُونُوا مَعَ جِیرَانِ اللَّهِ فِی دَارِهِ رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَهُ وَ أَزَارَهُمْ مَلَائِکَتَهُ وَ أَکْرَمَ أَسْمَاعَهُمْ أَنْ تَسْمَعَ حَسِیسَ نَارٍ أَبَداً وَ صَانَ أَجْسَادَهُمْ أَنْ تَلْقَی لُغُوباً وَ نَصَباً (۱۲) ذلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیم. (۱۳) سورہ جمعہ ایت ۴
اپ کردار کو بہتر بنانے میں اگے بڑھو کہ تاکہ خدا کے گھر میں خدا کے پڑوسیوں کے ساتھ زندگی بسر کرسکو، اس نے رسولوں کو ان کا دوست بنا دیا، فرشتوں کو ان کی زیارت پر مامور کیا، ان کے کانوں کو محترم قرار دیا تاکہ جھنم کی اوازیں نہ سن سکیں، ان کے بدن کو محفوظ رکھا تاکہ سختیوں اور مصیتبوں سے دور رہیں، وہ خدا کی عنایت ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا کی قسم وہ بہت بڑا عطا کرنے والا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: سورہ اسراء، ایت ۲۶
۲: تفسیر اہل بیت علیہم السلام ج۸، ص۱۴۰ ؛ و الکافی، ج۱، ص۲۹۳
۳: احزاب، ایت۳۳
۴: سورہ انفال، ایت ۴۱
۵: سورہ طہ، ایت ۱۳۲
۶: تفسیرالمیزان، علامہ طباطبائی، ج 14، ص 334
۷: تفسیر اہل بیت علیہم السلام ج۹، ص۳۱۸؛ و بحار الأنوار، ج۳۵، ص۲۰۷ ؛ و بحار الأنوار، ج۲۵، ص ؛ و تأویل الآیات الظاہرہ؛ ص۳۱۶؛ و وسایل الشیعہ؛ ج۱۲، ص۷۲؛ و تفسیر نورالثقلین و تفسیر البرہان
۸: سورہ احزاب، ایت۳۳
۹: سورہ انبیاء، ایت ۱۰۲
۱۰: تفسیر اہل بیت علیہم السلام ج۹، ص۵۳۸ ؛ و بحارا لأنوار، ج۷، ص۳۳۵ ؛ و تفسیر فرات الکوفی، ص۲۶۹
۱۱: تفسیر اہل بیت علیہم السلام ج۹، ص۵۳۸ ؛ و بحارا لأنوار، ج۸، ص۵۳
۱۲: تفسیر اہل بیت علیہم السلام ج۹، ص۵۳۸ ؛ و نہج البلاغہ، ص۲۶۸
۱۳: سورہ جمعہ، ایت۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مولانا سید اشہد حسین نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ