10 اکتوبر 2025 - 15:07
غزہ میں اعلانِ جنگ بندی پر عالمی ردعمل / ایران کا انتباہ: یہ ایک فریب ہو سکتا ہے / امن منصوبے کو درپیش بڑا چیلنج

فلسطینی مزاحمت اور صہیونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے باقاعدہ اعلان کے بعد، دنیا بھر کے رہنماوں نے اس خبر پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے غزہ میں جنگ ختم کرنے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے باقاعدہ حصول کا اعلان کیا۔

طوفان الاقصی؛ زلزله‌ای که افسانه شکست‌ناپذیری صهیونیست‌ها را باطل کرد/ هفت اکتبر؛ ضربه‌ای که جهان را بیدار کرد

فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے اپنے بیان میں کہا: "ذمہ دارانہ اور سنجیدہ مذاکرات کے بعد، جو تحریک اور فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے شرم الشیخ میں امریکی صدر کے اس تجویز پر کیے جس کا مقصد فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ کو ختم کرنا اور غزہ کی پٹی سے قبضہ ختم کرنا تھا، فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) ایک ایسے معاہدے کا اعلان کرتی ہے جس میں غزہ کے خلاف جنگ کا خاتمہ، قابض فوجوں کا انخلا، امدادی سامان کی فراہمی اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔"

The Israel-Hamas war: No matter who loses, Iran wins • Rhode Island Current

Did Hamas win Israel-Islamic Jihad war in Gaza? - AL-Monitor: The Middle  Eastʼs leading independent news source since 2012

وہ ضرب جس نے صہیونی شَکِست ناپذیری کا افسانہ باطل کر دیا  / وہ بھونچال جس نے دنیا کو جگا دیا - 3

بیان میں مزید کہا گیا: "ہم غزہ کی پٹی، قدس شریف، مغربی کنارے، 1948 کے مقبوضہ علاقوں اور فلسطین سے باہر اپنی عظیم قوم کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے بے مثال بہادری، جرأت اور عزت پر مبنی عدیم المثال تاریخ موقف اختیار کئے رکھا اور فاشسٹ قابضوں کے ان منصوبوں کے سامنے ڈٹ گئے جو ان کے حقوق اور وجود کو نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ ان قربانیوں اور عظیم موقف نے فلسطینی عوام کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے اور انہیں بے گھر کرنے کے اسرائیلی قابضوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔"

طوفان الاقصی؛ زلزله‌ای که افسانه شکست‌ناپذیری صهیونیست‌ها را باطل کرد/ هفت اکتبر؛ ضربه‌ای که جهان را بیدار کرد

بیانیے کے اختتام پر کہا گیا ہے: "ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارے عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ہم اپنے عہد پر قائم رہیں گے۔ ہم آزادی، خودمختاری اور حق خود ارادیت کے حصول تک اپنے عوام کے قومی حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔"

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

آتش بس کے ابتدائی معاہدے کے اعلان کے بعد، دنیا بھر کے رہنماؤں نے فوری طور پر کل رات ہوئے معاہدے کا  خیرمقدم کیا اور غزہ میں مستقل جنگ بندی کی امید ظاہر کی۔

طوفان الاقصی؛ زلزله‌ای که افسانه شکست‌ناپذیری صهیونیست‌ها را باطل کرد/ هفت اکتبر؛ ضربه‌ای که جهان را بیدار کرد

انٹونیو گوٹیرس

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے جمعرات کے روز غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ مدد کے لئے تیار ہے!

انھوں نے کہا: "اقوام متحدہ اپنی مکمل حمایت فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم اور ہمارے شراکت دار اقدام کے لئے تیار ہیں - ابھی، اسی وقت۔"

گوٹیرس نے غزہ میں انسانی امداد کی مکمل اور مستقل ترسیل کا مطالبہ کیا۔

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

ایمانوئل میکرون

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے عبرانی زبان میں ایک ٹویٹ میں لکھا: "قیدیوں اور ان کے خاندانوں کے لئے، غزہ کے فلسطینیوں کے لئے اور پورے خطے کے لئے ایک بڑی امید۔" انھوں نے قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی پر مشتمل معاہدے کا خیرمقدم کیا، اور اس معاہدے کے جصول کے لئے ٹرمپ اور ثالث ممالک قطر، مصر اور ترکیہ کی کوششوں کو سراہا۔

میکرون نے زور دے کر کہا کہ تمام فریقوں کو معاہدے کی شرائط کا سختی سے پابند رہنا چاہئے۔

انھوں نے مزید کہا: "اس معاہدے کو جنگ کے خاتمے اور دو ریاستی حل پر مبنی سیاسی عمل کا نقطۂ آغاز ہونا ہونا چاہئے۔"

انھوں نے وعدہ کیا کہ "فرانس اس مقصد کی تکمیل میں مدد کے لئے تیار ہے اور ہم آج شام کو پیرس میں اس سلسلے میں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کریں گے۔"

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

ولادیمیر پوتن

صدر روس ولادیمیر پوتن نے معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "روس غزہ میں خونریزی روکنے والے کسی بھی امن منصوبے کی حمایت کے لئے تیار ہے۔"

درخواست نتانیاهو از روسیه درباره ایران/ پوتین: امیدواریم طرح ترامپ واقعاً اجرا شود

جارجیا میلونی

اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ٹویٹ پر اپنے پیغام میں لکھا: "صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر عملدرآمد کے لئے مصر میں حاصل ہونے والا معاہدہ ایک زبردست خبر ہے جو غزہ میں جنگ بندی، تمام قیدیوں کی رہائی اور معاہدے کی شرائط کے مطابق اسرائیلی فوجوں کے انخلاء کا راستہ ہموار کرتی ہے۔"

انھوں نے ٹرمپ اور ثالث ممالک مصر، قطر اور ترکیہ کی مسلسل کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا: "یہ معاہدہ اور ٹرمپ منصوبے سے جنم والا وسیع تر راستہ، اس تنازع کے خاتمے کا ایک منفرد موقع ہے جس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔"

میلونی نے زور دے کر کہا: "اٹلی ثالثوں کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا اور غزہ کے استحکام، تعمیر نو اور ترقی میں مدد کے لئے تیار ہے۔"

ادھر اٹلی کے نائب وزیر خارجہ انٹونیو تائیانی نے اعلان کیا کہ "اٹلی معاہدے کے نفاذ کے لئے فوجی دستے بھیجنے کے لئے بھی تیار ہے۔"

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

پیدرو سانچیز

اسپین کے وزیر ا‏عظم پیدرو سانچیز، ـ جو یورپ کے اسرائیل مخالف رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں، ـ نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا: "ہسپانوی حکومت مشرق وسطیٰ کی خبروں کا خیرمقدم کرتی ہے اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یہ منصفانہ اور پائیدار امن کا آغاز ہے۔"

انھوں نے مزید کہا: "اب بات چیت کا، شہریوں کی مدد کا اور امید، انصاف اور یاد رکھنے کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھنے کا وقت ہے تاکہ جو المئے رونما ہوئے ہیں وہ دوبارہ نہ دہرائے جائیں۔"

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

رجب طیب اردوان

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا: "میں بہت خوش ہوں کہ شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات، جن میں ترکیہ نے بھی مدد کی، غزہ میں جنگ بندی کا باعث بنے۔"

انھوں نے ٹرمپ اور ممالک قطر و مصر کا ان کی قابل ذکر حمایت پر شکریہ ادا کیا اور کہا: "ترکیہ قریب سے معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کرے گا اور 1967 کی سرحدوں پر مبنی مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کے ساتھ ایک خودمختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مربوط فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔"

اردوان نے فلسطینی عوام پر سلام بھیجتے ہوئے کہا: "میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں پر سلام بھیجتا ہوں جنہوں نے دو سال ناقابل بیان مصائب برداشت کئے، غیر انسانی حالات میں زندگی بسر کی اور عزت کے لئے لڑے اور تمام سانحات کے باوجود اپنے باعزت موقف پر کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔"

دستور ترامپ به اردوغان در خصوص ایران

ڈک سخوف

نیدرلینڈز کے وزیر اعظم ڈک سخوف (Dick Schoof) نے ٹویٹ کیا: "غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان ایک انتہائی متوقع قدم ہے جو بہت سے لوگوں کے دکھ ختم کر سکتا ہے: قیدیوں، ان کے خاندانوں اور غزہ کے رہائشیوں کا۔"

سخوف ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کی حمایت کی تھی۔

انھوں نے مزید کہا: "اس معاہدے پر فوری عملدرآمد ہونا چاہئے تاکہ تمام قیدی رہا ہو سکیں اور غزہ کو بھیجی جانے والی انسانی امداد میں نمایاں اضافہ ہو سکے۔"

انھوں نے ٹرمپ، مصر، قطر اور ترکی کی سفارتی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

کیئر اسٹارمر

برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی اس گہرے سکون کے لمحے کے بارے میں بات کی جسے پوری دنیا میں محسوس کیا جائے گا، اور زور دے کر کہا: "اس معاہدے پر اب فوری اور مکمل طور پر عملدرآمد ہونا چاہئے؛ ساتھ ہی غزہ کی پٹی کو درپیش انتہائی اہم انسانی امداد کی تمام پابندیوں کو فوری طور پر ختم ہونا چاہئے۔"

لندن خواستار توقف حملات رژیم صهیونیستی به غزه شد

گیرت وائلڈرز یا گیرٹ ولڈرز

گیرٹ ولڈرز، جو اسلامی دشمنی کے حوالے سے بہت بدنام اور اسرائیل کا کٹر حامی ڈچ سیاستدان ہے، نے بھی ٹویٹ کیا: "پہلے مرحلے کی جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی پر معاہدہ بہترین خبر ہے۔ امن سے سب کو فائدہ ہوتا ہے۔"

ناکامی نامزد اسلام ستیز هلند از عهده داری مسئولیت نخست وزیری

اورزولا فن دیر لاین

یورپی کمیشن کی سربراہ اورزولا فن دیر لاین، جنہیں اسرائیل کا ساتھ دینے اور امریکہ کے سامنے معذرتخواہان پالیسیوں کی وجہ سے یورپ میں شدید تنقید کا سامنا ہے، نے ٹویٹ کیا: "میں غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے اعلان کا خیرمقدم کرتی ہوں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر مبنی ہے۔"

انھوں نے امریکہ، قطر، مصر اور ترکی کی سفارتی کوششوں کی تعریف کی اور کہا: "تمام فریقوں کو معاہدے کی شرائط کا مکمل طور پر پابند ہونا چاہئے۔ تمام قیدیوں کو رہا ہونا چاہئے، مستقل جنگ بندی قائم ہونی چاہئے، اور غزہ میں جاری مصائب کا خاتمہ ہونا چاہئے۔"

اختلافات با اتحادیه اروپا/

کیا کلاس

یورپی یونین کی وزیر خارجہ کایا کلاس (Kaja Kallas)، نے بھی ٹویٹ کیا: "غزہ کے ساتھ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر معاہدہ ایک اہم قدم اور تباہ کن جنگ کے خاتمے اور تمام قیدیوں کی رہائی کا حقیقی موقع ہے۔ یورپی یونین اس کے نفاذ کی حمایت کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔"

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

انتھونی البانیز

وزیر اعظم آسٹریلیا انتھونی البانیز (Anthony Albanese) نے اپنے پارلیمانی خطاب میں معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: "آسٹریلیا اسرائیل اور حماس کے درمیان صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر معاہدے کی خبر کا خیرمقدم کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پچھلے دو سال تاریک دنوں سے مالامال تھے، لیکن آج ہم امید کی ایک کرن دیکھ رہے ہیں۔ آج دنیا کے پاس حقیقی امید کی ایک وجہ ہے۔"

سفر نخست‌وزیر استرالیا آنتونی آلبانیزی به چین

فریڈرک مرز

جرمن چانسلر فریڈرک مرز (Friedrich Merz) نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو اس ہفتے ایک حل کی امید افزا علامت قرار دیا۔ انھوں نے کہا: "اسرائیل میں ہونے والی تحقیقات ہمیں پرامید کرتی ہیں۔ واضح ہے کہ اگلے چند گھنٹوں میں حماس کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کی بہت زیادہ امید ہے۔"

تاہم، انھوں نے خبردار کیا کہ "یہ معاہدہ ابھی واقعی حتمی اور نافذ نہیں ہؤا ہے؛ لہٰذا، ہم اس پر قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اس ہفتے ہم ایک حل تک پہنچ جائیں گے۔"

واکنش‌های جهانی به خبر اعلام آتش‌بس در غزه/ از هشدار ایران نسبت به فریبکاری صهیونیست‌ها تا نارضایتی از توافق در سرزمین‌های اشغالی

وزارت خارجہ اسلامی جمہوریہ ایران

اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کے جواب میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا: "غزہ میں نسل کشی ختم کرنے کے حوالے سے 6 اکتوبر 2025ع‍ کے بیان کے نکات کی یاددہانی کراتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ کسی بھی ایسے اقدام یا پہل کی حمایت کرتا رہا ہے جس میں نسل کشی کی جنگ کا خاتمہ، قابض فوجیوں کا انخلا، انسانی امداد کی ترسیل، فلسطینی اسیروں کی رہائی اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی بحالی شامل ہو۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے: "اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ مقاومت کے عظیم شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، قابض ریاست کو عہد شکنی سے روکنے کے لئے عالمی برادری کی ذمہ داری پر زور دیتی ہے اور تمام فریقوں کو صہیونی ریاست کی فریب کاری اور بدعہدی کے خلاف چوکنا اور ہوشیار رہنے کی دعوت دیتی ہے۔"

خرید پرچم ایران سایز بزرگ + انواع پرچم ایران در سایز بزرگ

صہیونی ریاست میں ناراضگیاں

بہرصورت جو کچھ اب تک ہؤا ہے اس کے باوجود یہ جنگ بندی کام مسئلے کا اختتام نہیں ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں صہیونی آبادکار غزہ میں حالیہ جنگ بندی کے معاہدے سے شدید ناراض ہیں اور اسے اپنے 'امن' کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک حماس غزہ میں موجود رہتی ہے اور اپنی طاقت برقرار رکھتی ہے، یہ جنگ بندی نہ صرف اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک تزویراتی شکست ہے۔

گسترش قتل و خشونت؛ رهاورد مسلح سازی شهرک نشینان صهیونیست - تسنیم

اسرائیل کے دائیں بازو کے رہنما، ـ جن میں ایتامار بن گویر اور بزالل اسموترچ شامل ہیں، ـ نے اس معاہدے کو "خطرناک" قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ حماس کا زندہ رہنا اس گروپ کی فوجی صلاحیت کی بحالی اور مستقبل کے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔

درخواست وقیحانه رئیس کنست اسرائیل: فلسطین را در پاریس و لندن تشکیل دهید! -  تسنیم

یہ ناراضگی کچھ قیدیوں کے اہل خانہ اور بعض کارکنوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جن کا کہنا ہے کہ موجودہ معاہدہ، ـ حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے یا اس کے ڈھانچے کی مکمل تباہی کی ضمانت کے بغیر، ـ اسرائیل کی طویل المدت سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ عارضی جنگ بندی صرف حماس کو خود کو بحال کرنے اور غزہ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کا موقع دے گی۔

اسموتریچ: به تحریم‌های انگلیس و سایر کشورها علیه خودم و بن‌گویر پاسخ عملی  خواهیم داد - ایرنا

سابق ٹویٹر اور موجودہ X جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، عبرانی (یہودی) صارفین نے اس معاہدے کو "کمزور" اور "ناکافی" قرار دیا ہے اور مصالحت کے بجائے حماس پر فیصلہ کن فتح کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ رد عمل صہیونی ریاست کے آبادکار معاشرے میں اس معاہدے کے حوالے سے گہری تقسیم کو عیاں کرتا ہے۔

علاوہ ازیں، امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی نیوز نے اعلان کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی کے منصوبے کے ابتدائی طور پر وسیع پیمانے پر خیرمقدم کے باوجود، اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

خشونت شهرک نشینان افراطی باید متوقف شود

اس امریکی نیٹ ورک کے مطابق، اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کے ٹرمپ کے اعلان کو جمعرات کے روز دنیا بھر کے رہنماؤں، صہیونی قیدیوں کے خاندانوں اور ان فلسطینیوں نے سراہا جنہوں نے دو سال سے زیادہ عرصے تک جنگ جھیلی ہے، تاہم ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے مسائل کے کامیاب حل اور طویل مدتی میں غزہ کی پٹی کے مستقبل کے بارے میں بہت سے سوالات موجود ہیں، جن میں حماس کے مستقبل اور اس علاقے کے انتظام کے طریقہ کار کے بارے میں شکوک و شبہات شامل ہیں۔

این بی سی نیوز نے مزید کہا: "اگرچہ حماس فلسطینی اور صہیونی قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں شرکت پر راضی ہو گئی ہے، لیکن اس نے ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز میں بنیادی شرط کے طور پر، اس تحریک کو غیرمسلح کرنے اور تحلیل کرنے کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا ہے۔"

نیز جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ غزہ میں درپیش درمیانی اور طویل مدتی خدشات کو دور نہیں کرتا۔ ٹرمپ کے منصوبے میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو عارضی طور پر ایک " فلسطینی ماہرین کی ایک ٹکنوکریٹ اور غیرسیاسی کمیٹی" چلائے گی۔ یہ کمیٹی ٹرمپ اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سربراہی میں "امن کونسل" کے زیر نگرانی ہوگی۔ یہ صورت حال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات نہیں کی جائیں گی۔

گارڈین نے بھی لکھا: ٹرمپ کے اس امن منصوبے کی تفصیلات اہم ہیں اور پائیدار امن قائم کرنے کے لئے مشکل سوالات اب بھی موجود ہیں۔

اس برطانوی اخبار نے مزید لکھا: "غزہ میں اسرائیلی جنگ ختم کرنے کے معاہدے کی تفصیلات اور ترتیب اب بھی مبہم ہے۔ عرب ممالک اور خطے کی دیگر طاقتوں کی اس منصوبے کی سیاسی حمایت کو دیکھتے ہوئے، مارچ میں جنگ بندی کی ناکامی کے بعد سے جنگ ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے، جس کے بعد غزہ میں ایک سخت جنگ پھر سے شروع ہوئی جس میں ہزاروں مزید افراد قتل ہوئے جن میں سے زیادہ تر غیر فوجی تھے۔

گارڈین کے مطابق، امن منصوبے کے پہلے مرحلے کا مقصد، جیسا کہ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بیان کیا، سادہ ہے: صہیونی قیدیوں کو واپس لانا۔ تاہم، ان سب کو ڈھونڈنا اور اسرائیلی فوجی دستوں کی واپسی کو منظم کرنا پیچیدہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اخبار نے زور دے کر کہا کہ ٹرمپ کے تمام صہیونی قیدیوں کی واپسی اور اسرائیلی فوج کی واپسی کے بیانات کے باوجود، ابھی بہت سے مسائل باقی ہیں جن پر بحث نہیں ہوئی ہے۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے نے مستقبل میں حماس کے غیرمسلح ہونے، اس (منصوبے) کی کامیابی کے امکانات اور غزہ کے مستقبل کے بارے میں تل ابیب کے نقطہ نظر کے حوالے سے مشکل سوالات کو جنم دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha