بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سات اکتوبر کے تاریخی معرکۂ طوفان الاقصیٰ کی دوسری سالگرہ کے موقع پر، اس معرکے کے سات اسباق صارفین و قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے اب تک دو سال گذرے ہیں؛ دنیا نے ان دو سالوں میں کئی ایسے واقعات دیکھے جو دوبارہ پڑھنے، بولنے اور سننے کے کے لائق ہیں:
1۔ طالوت آج بھی جالوت پر غلبہ پا سکتا ہے
ایک خالی ہاتھ اقلیت سپر پاورز کا سامنا کر رہی ہے دنیا نے دیکھا کہ تہران کے آدھے رقبے پر جس میں نہ کوئی پہاڑی ہے اور نہ پہاڑی علاقے میں امریکہ کے ماتحت سب سے لیس فوج کے خلاف کھڑا ہونا اور دو سال کے بعد ہر روز ان کو قتل کرنا، اور اس کا کوئی فوجی جواز نہیں ہے اور اس کی وجہ ایمان ہے؛ جو اس آیت کریمہ کا مصداق کامل ہے: "كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ؛ بارہا ایسا ہوتا آیا ہے کہ چھوٹی جماعتیں اللہ کے اذن سے بڑی جماعتوں پر غالب ہوئی ہے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"
2۔ فلسطین کی مضبوط شناخت
فلسطینی عوام کی مضبوط شناخت کو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح نہ صرف مجاہدین بلکہ غزہ کے عام لوگ بھی اپنے مقصد اور اپنے قومی اور مذہبی تشخص کے لئے قربانی دینے اور جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہیں۔ ان کی مزاحمت نے پوری دنیا کو متحرک کر دیا اور حوصلہ دیا۔
3۔ بے مقصد عالمی ادارے
دنیا کے بین الاقوامی اداروں کی بے مقصدیت دنیا نے واضح طور پر دیکھا کہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے نام سے مشہور ادارے قحط سالی اور 20 لاکھ لوگوں کے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے دور میں کوئی افادیت نہیں رکھتے تھے اور ان اداروں کا یہ شرمناک امتحان ان دو سالوں میں انجام کو پہنچا۔
4۔ مسلمانوں کی غداری
مسلم سیاستدانوں کی غداری، اسلامی ممالک خصوصاً غاصب ریاست کے پڑوسیوں کی غداری سب پر عیاں ہو گئی۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی سنجیدہ اور موثر کارروائی اس جنگ پر براہ راست اثر انداز ہو سکتی تھی، لیکن ان میں سے اکثر خوفزدہ تھے اور صرف ایک بیان لکھا! سوائے مقاومت کے فرزندوں کے، جنہوں نے اپنی مسلم اور عرب حکمرانوں کی غیر حاضری میں، مردانگی کا مظاہرہ کیا۔
5۔ بیداری کا روشن راستہ
کمیونسٹ، عیسائی اور ملحد دنیا سمیت حریت پسندوں کی دنیا اپنی وسعتوں کے ساتھ، اس ظلم کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی انسانیت کو ایک بڑی کسوٹی پر پرکھا۔ یہ وہی نورانی راستہ ہے جو ظہور کے وقت بھی طے کیا جائے گا۔
6۔ اسرائیل پورے مغرب کا نقطۂ اشتراک
سب نے دیکھا کہ دائیں اور بائیں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ، بادشاہت یا جمہوریت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، بالخصوص اس خاص معاملے میں ـ یعنی غاصب ریاست کی حمایت ـ میں سب ایک ہیں۔ آزآدی صرف اس وقت بامعنی اور بامقصد ہو سکتی ہے جب وہ اس مغرب کی اس سرخ لکیر ـ یعنی صہیونی ریاست ـ کے قریب نہیں آتی۔ مغرب کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کا اس سے بڑا کون سا موقع ہو سکتا تھا؟ اس موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟
7۔ صہیونی بربریت خطے اور پوری دنیا کے لئے خطرہ
صہیونی ریاست کی بربریت اور کو پوری دنیا ـ بالخصوص مغربی ایشیا ـ اور بقولے مشرق وسطیٰ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا؛ سب نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں کہ چاہے ٹرمپ امن منصوبہ پیش کرے، چاہے جنگ بندی کا اعلان کیا جائے، چاہے صہیونی ریاست غزہ جنگ کے مقاصد کو ترک کر دے، چاہے عرب حکمران خاموش رہیں اور پھر بھی خوش فہمی میں رہنے کو ترجیح دیں اور اپنا سر ریت میں دبائے رکھیں؛ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہؤا ہے اور اس مسئلے کی طرف نہ امریکہ کوئی اشارہ کر رہا ہے اور نہ ہی صہیونی حکام نے کوئی اشارہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے سے دستبردار ہوئے ہیں اور وہ مسئلہ ہے "گریٹر اسرائیل"! گریٹر اسرائیل مذاق نہیں ہے اور یہ خونخوار اخبوط (آکٹوپس = Octopus) خطے میں کسی بھی قسم کے جرم کے لئے تیار ہے اور اس کا ہدف فلسطین تک محدود نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ