10 دسمبر 2025 - 06:18
مغربی کنارے کی عوامی جدوجہد پر ایک نظر/ یاسر عرفات قبضہ روکنے میں کیوں ناکام رہے؟ +تصاویر

 یاسر عرفات ـ جو ایک فلسطینی تھے جو مصر میں پیدا ہوئے تھے اور جن کے والد غزہ سے اور والدہ شہر قدس سے تھیں، ـ کی قیادت میں 'تحریک فتح'، چھ روزہ جنگ کے بعد فلسطینی سیاسی منظر نامے پر سنجیدگی سے ابھری۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || غزہ کی جنگ کے مسئلے اور مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی ریاست کے بے شمار جرائم کے ساتھ ساتھ، اس خطے پر فوجی قبضے میں ان کی ناکامی اور غزہ کی دلدل سے صہیونیوں کو نکالنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کے علاوہ، نیتن یاہو کابینہ کے انتہا پسند دھڑوں کی مغربی کنارے پرمغربی کنارے کے علاقے اور ـ جس کو جسے وہ "یہودا اور سامرہ" کہتے ہیں، ـ کو قانونی حیثیت دینے کی کوششوں نے گذشتہ مہینوں میں ایک بڑا سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔

عام خیال کے برعکس، صہیونیوں کا مغربی کنارے کو اپنے زیر قبضہ علاقوں میں شامل کرنے کی کوشش کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی تاریخ اس جعلی ریاست کے سنہ 1948 میں قیام سے بھی پرانی ہے؛ یہ ایسا خطہ ہے جس کی تاریخی، مذہبی اور نظریاتی اہمیت صہیونیوں کے لیے تل ابیب اور حیفا سے بھی زیادہ ہے اور صرف بیت المقدس کے ساتھ قابل موازنہ ہے۔

نگاهی به تاریخچه مبارزات مردم کرانه باختری/ چرا یاسر عرفات در جلوگیری از اشغال کرانه باختری شکست خورد؟  +تصاویر

اسی بنا پر ہم 4 تجزیاتی رپورٹوں میں، مغربی کنارے کے صہیونی ریاست کے لیے تاریخی پس منظر اور اہمیت کی وجوہات اور اس کے قبضے کو قانونی شکل دینے کی صہیونی کوششوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تحریک فتح کا عروج اور الکرامہ کی شاندار فتح

یاسر عرفات کی قیادت میں تحریک فتح، جو ایک فلسطینی تھے جن کا مصر میں پیدائش ہوئی تھی اور جن کے والد غزہ سے اور والدہ یروشلم سے تھیں، چھ روزہ جنگ کے بعد فلسطینی سیاسی منظر نامے پر سنجیدگی سے ابھری۔

نگاهی به تاریخچه مبارزات مردم کرانه باختری/ چرا یاسر عرفات در جلوگیری از اشغال کرانه باختری شکست خورد؟  +تصاویر

تحریک فتح کی بنیاد سنہ 1959ع‍ میں عرب ممالک میں مقیم کچھ فلسطینی سیاسی کارکنوں نے رکھی تھی اور اپنی فلسطینی قوم پرست نظریے کی بنیاد پر، اس نے فلسطینیوں میں بڑی مقبولیت حاصل کر لی۔ چھ روزہ جنگ کے اختتام پر، فتح، ـ جو اب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے وسیع تر اتحاد کا حصہ تھی، ـ اردن کی حکومت کی حمایت سے اردن کی سرزمین پر کیمپ اور فوجی تربیت گاہیں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی اور ایک مختصر مدت میں PLO کے عسکری ونگ میں کافی افرادی قوت شامل ہوئی۔

فلسطین کی مقاومتی افواج، جنہیں فدائی کہا جاتا تھا، نے چھ روزہ جنگ ختم ہونے کے فوراً بعد اردن کی سرزمین سے مقبوضہ علاقوں اور مغربی کنارے میں صہیونی افواج پر اپنے حملے شروع کر دیے اور قابضوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن گئے۔

وہ تاریخی موڑ جس نے فتح اور عرفات کا نام عالمی سیاسی منظر نامے پر نمایاں کیا، وہ مختصر سا "معرکۂ الکرامہ" تھا، جس کا نام اردن کے مغرب میں ایک گاؤں سے لیا گیا ہے۔

الکرامہ کا گاؤں، جو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا مرکزی ہیڈکوارٹر بن گیا تھا، 15 مارچ سنہ 1968 کو، مصر، شام اور اردن کی فوجوں اور صہیونی ریاست کے درمیان طویل اور تھکا دینے والی جنگ (attrition warfare حرب الإستنزاف) کے دوران، PLO  کو 15 گھنٹے تک جاری رہنے والی شدید جنگ لڑنا پڑی۔ صہیونی افواج، ـ جن میں ایک آرمرڈ بریگیڈ، ایک انفنٹری بریگیڈ، ایک خصوصی فورس بٹالین، ایک انجینئر بٹالین اور 5 آرٹلری بٹالینز شامل تھیں، ـ نے PLO کے کیمپوں کو تباہ کرنے اور یاسر عرفات کو ہلاک یا گرفتار کرنے کے مقصد سے اپنا حملہ شروع کیا۔ اگرچہ وہ چند گھنٹوں کے لئے گاؤں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن ـ اردن کی فوج کی موثر آرٹلری اور انفنٹری فائر اور فلسطینی فدائیوں کے دفاعی مورچوں کی وجہ سے، ـ انہیں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا، ایک فرانسیسی اوریگن بمبار طیارہ مار گرایا گیا، اور یہ واقعہ چھ روزہ جنگ کے مقابلے میں ان کے لئے بہت حیرت انگیز تھا، اور انہیں اسی دن کے اختتام پر پیچھے ہٹنے اور علاقے کو خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

نگاهی به تاریخچه مبارزات مردم کرانه باختری/ چرا یاسر عرفات در جلوگیری از اشغال کرانه باختری شکست خورد؟  +تصاویر

صہیونی فورسز الکرامہ گاؤں پر حملہ کرتے ہوئے

الکرامہ کی جنگ کے بعد PLO تحریک نے عرب دنیا میں وسیع شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور نئے رضاکاروں اور مختلف عرب ممالک کی مالی حمایت کا سیلاب اس کی طرف امڈ پڑا۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے اپنے بنیادی نظریے ـ یعنی فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور فلسطینی سرزمین پر [صرف] ایک ریاست کے قیام ـ کا اعلان کیا اور اس بنیاد پر اپنی سیاسی-فوجی کارروائیاں جاری رکھیں۔

یاسر عرفات مغربی کنارے پر قبضہ روکنے میں ناکام کیوں رہے؟

مغربی کنارے میں اردن کی سرزمین کے راستے فدائی فلسطینیوں کے قبضہ کاروں پر حملے سنہ 1967 سے سنہ 1970 تک کی فرسودہ کر دینے والی جنگ (attrition warfare) کے دوران جاری رہے، لیکن ستمبر سنہ 1970 میں اردنی فوج اور اس ملک میں موجود فلسطینی مسلح گروپوں کے درمیان بلیک ستمبر کے نام سے مشہور خونریز تصادم کے آغاز نے مغربی کنارے میں PLO اور جدوجہد کرنے والے دوسرے گروپوں کی زیادہ مؤثر کارروائیوں کے منصوبوں کو بہت زیادہ محدود کر دیا۔

نگاهی به تاریخچه مبارزات مردم کرانه باختری/ چرا یاسر عرفات در جلوگیری از اشغال کرانه باختری شکست خورد؟  +تصاویر

اردن کے اس وقت کے بادشاہ شاہ حسین نے امریکہ کے حکم پر اور صہیونی ریاست کی خوشنودی اور ـ نام نہاد ـ امن حاصل کرنے کے لئے اردن کی سرزمین میں فلسطینی جنگجوؤں کو کچل دیا۔ بڑی تعداد میں فلسطینی فدائیوں کا قتل عام ہؤا، اور باقیماندہ کو اردن کی حکومت نے  ملک بدر کر دیا جس کے بعد، لبنان ان افواج کا اگلا مرکز بن گیا، اور سنہ 1970 کی دہائی سے سنہ 1982 تک اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی کوئی سنجیدہ سیاسی-فوجی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں۔

اردن سے فلسطینی مسلح افواج کے انخلاء کے بعد، اب شام اور مصر تھے جنہوں نے ان افواج کی حمایت کی ذمہ داری سنبھالی۔ سنہ 1973 کے موسم خزاں میں جنگِ یوم کیپور (Yom Kippur چھ اکتوبر) نے ابتدائی طور پر اور عرب افواج کی ابتدائی کامیابیوں کے ساتھ فلسطینیوں کے دلوں میں اپنے مقصد تک پہنچنے کی امید کی ایک چنگاری سلگا دی، لیکن [کھودا پہاڑ نکلا ۔۔۔] آخر کار اس کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ مصر صحرائے سینا پر اپنا اقتدار بحال کرنے کے لئے صہیونیوں کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہؤا۔ سنہ 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کے ساتھ، ہی مصر، جو فلسطینیوں کی حمایت کے محاذ پر سب سے مؤثر عرب ملک تھا، اس دائرے سے باہر ہو گیا، جو فلسطینیوں کی ـ بنیادی حقوق کے حصول کی ـ جدوجہد پر ایک اہم ضرب تھی۔

نگاهی به تاریخچه مبارزات مردم کرانه باختری/ چرا یاسر عرفات در جلوگیری از اشغال کرانه باختری شکست خورد؟  +تصاویر

شرمناک کیمپ ڈیوڈ معاہدہ مصری صدر انور السادات،

صہیونی مناحیم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما یاسر عرفات، جنہیں اب مغربی کنارے میں اردن کی سرزمین کے راستے براہ راست کارروائیوں کی کوئی امید نہیں تھی، مجبوراً اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے کسی دوسرے ملک کا انتخاب کرنے پر مجبور تھے: لبنان۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha