12 نومبر 2025 - 15:22
شام ابو محمد الجولانی کے بعد کے دور میں داخل

الیکٹرانک اخبار "رأیُ الیوم" نے شام کے امور کے ماہر ڈاکٹر "حسن مرہج" کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ بحران زدہ شام کے قومی منظر نامے پر سیاسی اور معاشی الجھن کا راج ہے جس نے 'خطے کے اتحادوں میں دیرینہ خلیج' جنم لیا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || الیکٹرانک اخبار "رأیُ الیوم" نے شام کے امور کے ماہر ڈاکٹر "حسن مرہج" کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:

سابق نظام حکومت کی کایا پلٹ کے بعد الجولانی کے قائم کردہ انتظامی ڈھانچے کی کمزوری نمایاں ہے۔ یہ پیچیدہ صورت حال جبری طور پر مسلط کردہ قیادت کی ' قانونیت' کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان اس بات پر اختلافات بڑھ رہے ہیں کہ وہ شخص کون ہے جو شام کا انتظآم چلانے اور حقیقی استحکام لانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ شام کے حالیہ واقعات ترکیہ، قطر اور سعودی عرب کے درمیان انتظامی اختلافات سے آگے بڑھ کر شام میں 'اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے کھلی جنگ' پہنچ گئے ہیں۔

ان محاذوں کے درمیان کشیدگی مختلف ذرائع ابلاغ اور مختلف اسٹیجوں سے کے ذریعے سامنے آئی ہے، جہاں قطری میڈیا، خاص طور پر "الجزیرہ"، نے دمشق میں الجولانی کی حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور اسے 'انقلاب!' کے اصولوں کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔ اس کے جواب میں، الجولانی اور اس کے حلقہ اثر سے وابستہ ذرائع نے جوابی حملے کیے ہیں اور مخالف میڈیا کو 'انقلاب!' اور اس کی 'قانونیت' کے دشمنوں کا آلہ کار قرار دیا ہے۔ یہ حملے اور جوابی حملے ثابت کرتے ہیں کہ میڈیا کی یہ لڑائی  'اثر و رسوخ بڑھانے کی لڑائی' ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مختلف اداکار شام کی الجولانی حکومت کی قانونیت پر جو زور دے رہے تھے، وہ شام کے معاملے کے نگرانوں کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے کمزور ختم ہو رہی ہے۔

معاشی میدان میں الجولانی کے اربوں ڈالر کے سرمایہ کاری کے وعدے بھی کچھ خاص کارآمد ثابت نہیں ہوئے اور اس کا علامتی نتیجہ 200 ملین ڈالر سے تجاوز نہیں کر سکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری الجولانی کی حکومت کی قانونیت پر اعتماد نہیں کرتی، بلکہ اسے معاشی استحکام اور سرمایہ کاری کی ضمانت سے عاری، عسکری آلہ کار سمجھتی ہے۔ الجولانی نے معاشی صورت حال کو تیزی سے بگاڑ دیا ہے، یہاں تک کہ الجولانی کے بیرونی دورے کے بعد بھی شامی کرنسی کی قدر میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کو معاشی حمایت دینے کے بیرونی وعدے پورے نہیں ہوئے۔

سیاسی طور پر، شامی جمہوری قوتوں کے رہنماؤں اور لبنانی فوج کے درمیان غیر معمولی ملاقات بھی خطے کے تعلقات کی شکل میں بڑی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتی ہے؛ اور ثابت کرتی ہے کہ ہمسایہ ممالک ـ بلا شبہ ـ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے شام کے عبوری نظام کو نظر انداز کر رہے ہیں اور ان نسلی اور قومی گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے ہیں جن کے ساتھ شام کے مختلف علاقوں میں اثر و رسوخ اور موجودگی کے نئے منصوبوں پر بات چیت ممکن ہو۔ یہ تمام تبدیلیاں معاملات کو علاقائی مذاکرات کے ایک نئے مرحلے میں منتقل کر رہی ہیں جو سیاسی سرحدوں اور مقامی طاقتوں کو ازسرنو منظم کرے گا اور نتیجتاً، گذشتہ دہائیوں کے دوران قائم رہنے والے مرکزی اختیار کے ماڈل کو نظر انداز کیا جائے گا۔

عمومی جائزے بتاتے ہیں کہ الجولانی اب علاقائی حمایت ـ اور سعودی عرب یا مجموعی طور پر بین الاقوامی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کی صلاحیت ـ کھو چکے ہیں۔  اس کا اظہار "بن سلمان" کا الجولانی سے ملاقات نہ کرنے اور صرف اس اجلاس میں موجود رہنے سے ہؤا جس میں الجولانی نے خطاب کیا تھا۔ مزید برآں، ان کی معاشی ساکھ بھی سخت متاثر ہوئی ہے؛ یہاں تک کہ یہ صورت حال ان کے اپنے حلقہ اثر میں بھی اختلافات کی وجہ بن گئی ہے۔

ان تمام تمام مسائل سے معلوم ہوتا ہے کہ الجولانی کے بعد کا دور شروع ہو چکا ہے اور ان کا برسر اقتدار ہونا  نہ تو قانونیت پر مبنی ہے اور نہ ہی حقیقی عوامی حمایت پر، بلکہ اس لئے ہے کہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے جو عوام کو متحرک کر سکے اور خود کو مسلط کر سکے۔ مختصراً، شام اثر و رسوخ کے مراکز کی شکست و ریخت اور بیرونی تعلقات کے ٹوٹنے کے دہانے پر ہے؛ اور یہ سب ایسے حالات میں رونما ہو رہا ہے کہ عوام مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور الجولانی اندرونی یا بیرونی قانونیت کے حامل نہیں رہے ہیں۔ اب وہ ایک ایسے رہنما ہیں جو ایک روز بروز بڑھتے ہوئے خلا میں حکومت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھی بھی درختوں سے گرتے ہوئے خزاں کے پتوں کی طرح ان کے اطراف سے، گر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha