1 ستمبر 2025 - 11:10
انہوں نے اسد کا تختہ الٹ دیا اور الجولانی کو شام کا حکمران بنایا، لیکن کیوں؟ 

بشار الاسد کی حکومت کا تخت الٹ دیا گیا اور جولانی کو ان کی جگہ بٹھایا گیا اس لئے کہ 'ٹرمپ نیتن یاہو کا جوڑا' لبنان، عراق اور پھر ایران کے خلاف اپنے علاقائی منصوبوں پر عملدرآمد کر سکیں۔ 

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || علاقائی مسائل کے تجزیہ کار "حسن محلی" نے رأیُ الیوم اخبار میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں شام کے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور ملک کے نئے حکمرانوں کے برسراقتدار آنے سے پہلے اور اس کے بعد کی صورت حال اور مغرب بالخصوص امریکہ اور صہیونی ریاست کی الجولانی کی حمایت اور ان کے اہداف و مقاصد کے بارے میں لکھا ہے:

امپریلسٹ اور نوآبادیاتی طاقتوں اور خطے میں ان کے اتحادیوں نے بشار الاسد کی حکومت کو اپنے زعم میں "آمرانہ اور مطلق العنان" قرار دیا۔ یہ تمام طاقتیں اور ممالک بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے متحرک ہوئیں اور مارچ 2011 سے کم از کم دو لاکھ غیر ملکی دہشت گرد اور اتنے ہی تعداد میں ان کے اندرونی حلیف اس حکومت کے خلاف میدان میں اترے۔

13 سالہ جنگ کے بعد، جس سے صہیونی ریاست نے داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر فائدہ اٹھایا، بشار الاسد کی حکومت 8 دسمبر 2024 کو گر گئی اور اس کی جگہ ایک نئی حکومت نے لے لی جسے فوری طور پر ان تمام ممالک اور طاقتوں نے تسلیم کر لیا اور حمایت دی جنہوں نے اس کے برسراقتدار آنے میں مدد کی تھی۔ نئی شامی حکومت کو خاص طور پر اس وقت تسلیم کیا گیا جب جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 14 مئی 2025 کو ریاض میں شام کی عبوری حکومت کے سربراہ ابو محمد الجولانی المعروف احمد الشرع سے ملاقات کی، اور یہ جعلی اسرائیلی ریاست کے قیام کی ستترویں سالگرہ کا دن تھا۔ یہ تمام ممالک اور طاقتیں اسرائیلی ریاست کی خدمت میں مگن تھیں اور ہیں تاکہ بشار الاسد کی حکومت کے گرنے اور دمشق میں انتہا پسند بنیاد پرستوں کے برسراقتدار آنے کا واحد فائدہ صرف اسی (صہیونی ریاست) کو حاصل ہو۔

دمشق کے نئے حکمران، جو سب کے سب امریکہ، یورپ اور بین الاقوامی برادری کی دہشت گردی کی فہرستوں میں شامل تھے، یکایک علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی اور ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کر گئے تاکہ ایک نام نہاد "آزاد، جمہوری، پاک اور شفاف" حکومت قائم کی جا سکے۔

سب نے تسلیم کیا کہ شام بشار الاسد کے دور میں سیاسی اور جمہوری اعتبار سے صحیح سمت میں جا رہا تھا لیکن اس ملک کے خلاف عربی بہار کے پردے میں ایک سازش تیار کی گئی۔ بشار الاسد کے نظام نے سب سے بڑے امپریلسٹ، نوآبادیاتی اور صیہونی حملے کا مقابلہ کیا؛ ایک ایسا حملہ جس کی حمایت خطے کے بعض عرب ممالک نے کی جو خفیہ اور اعلانیہ طور پر شام کے خلاف سازش کر رہے تھے۔

بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اس حکومت کو گرانے کا واحد مقصد شام کے حماس، حزب اللہ، انصار اللہ تحریک اور ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنا اور نتیجتاً دمشق کو صہیونی ریاست کا تزویراتی شریک (Strategic partner) بنانا تھا۔

13 مارچ کو، الجولانی نے ایک نیا آئین منظور کیا جو اس کے کچھ ساتھیوں نے تیار کیا تھا اور جس میں اس کی مطلق اختیارات کو تسلیم کیا گیا تھا۔ وہ عوامی ریفرنڈم یا انتخابات کے بغیر، صدر، وزیر اعظم، قومی سلامتی کونسل کا سربراہ، اور فوج اور مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف بن گیا۔ الجولانی وزراء، چیف آف جنرل اسٹاف، فوجی کمانڈروں، قومی سلامتی کونسل کے اراکین، نام نہاد عوامی مجلس (اسمبلی) کے ایک تہائی اراکین، سپریم کورٹ کے سربراہ اور اراکین، نیز تمام اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور مسلح گروپوں کے کنٹرول میں مختلف سرکاری اداروں اور تنظیموں کی تقرری کے ذمہ دار ہوگا۔

مخالف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مخالف میڈیا کی غیر موجودگی میں، نئے حکمرانوں نے تمام سرکاری تنصیبات، اداروں اور میڈیا کا کنٹرول سنبھال لیا اور کسی میں ان حکمرانوں یا ان کے اقدامات کی تنقید کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

الجولانی کی سربراہی میں نئی شامی حکومت نے نہ صرف ملکی سالمیت کے دفاع میں کوئی قومی موقف اختیار نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے علویوں اور پھر دروزیوں کے قتل عام کا ارتکاب کیا ہے۔

صہیونی ریاست نے شام میں نئے حکمرانوں کے برسراقتدار آنے کے سائے میں، ملک کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا اور حتیٰ کہ دمشق کے مضافات (ریف دمشق) تک بھی پیش قدمی کی ہے۔ تاہم، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ الجولانی کے ایجنڈے میں ایک زیادہ اہم موضوع پر بات کر رہے ہیں، یعنی اس کی اسرائیلی ریاست کے وزیر اعظم "بنیامین نیتن یاہو" سے ہونے والی قریبی ملاقات، جس سے خطے کے تمام ممالک اور قوموں کے قومی اور علاقائی معاملات پر شدید ضرب لگے گی۔

الجولانی کی حکومت اس لئے برسراقتدار لائی گئی تاکہ 'ٹرمپ-نیتن یاہو جوڑا' اس کو اپنے تمام علاقائی منصوبوں اور پروجیکٹس میں خاص طور پر لبنان، عراق اور پھر ایران کے خلاف استعمال کر سکے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر بشار الاسد کی حکومت کو گرایا گیا اور اس کی جگہ الجولانی کی حکومت نے لے لی، اور اسے برسراقتدار لانے والوں کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ الجولانی "آمر، ڈکٹیٹر، دہشت گرد، القاعدہ کا سابق سرغنہ، اپنے عوام کا قاتل یا بدعنوان" ہے۔

حالانکہ سلامتی کونسل نے اپنے 14 مئی 2013 کے قرارداد میں ابو محمد الجولانی کی دہشت گرد جماعت 'جبہۃ النصرہ' اور بعد میں اس کی نئی جماعت 'ہیئت تحریر الشام' کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اس کے سربراہ الجولانی کو بین الاقوامی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا، لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک اور ان کے علاقائی حلیفوں نے الجولانی کا خیرمقدم کیا اور اس کی حمایت کی، جو آج پوری طرح صہیونی ریاست کے پراجیکٹ کا حصہ بن کر علاقائی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha