بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || خدا ہمارے دلوں کے ایمان کا امتحان لیتا ہے۔ ہمارے جسموں کو مختلف طریقوں سے جانچا جاتا ہے تاکہ 'قلب' (دل) کی کمزوریاں ظاہر ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے کام میں خامیاں کہاں ہیں اور یوں ہم بہتری اور اصلاح کا آغاز کریں۔
اگر خدا ہمارا امتحان نہیں لیتا تو ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ گویا ہم کامل ہیں اور ہم مزید آگے نہیں بڑھتے۔ ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے۔
جب خدا ہمارا امتحان لیتا ہے اور ہم پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہم میں کتنی کمزوریاں ہیں تو ہم میں سے کچھ بھاگ جاتے ہیں۔ گھبرا جاتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ خدا کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں؛ زیادہ توبہ کرتے ہیں۔
اسلامی انقلاب حالیہ صدیوں کا سب سے بڑا امتحان تھا اللہ کے خالص ترین بندوں کی تلاش کے لئے، پوری تاریخ کے عظیم ترین واقعے یعنی 'ظہور' کے لئے۔
خدا تو ہمت نہیں ہارتا، چنانچہ اگر اس نے ہماری چھپی ہوئی بدیوں کو عیاں کیا اور ہر قسم کی سختیوں اور راحتوں اور محرومیوں اور نعمتوں کے ساتھ ہماری کمزوریوں کو ظاہر کیا تو ہمیں رک جانا چاہئے اور خدا کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور توبہ اور اصلاح کرنی چاہئے۔ ہمیں زیادہ مؤمن بننا چاہئے۔
لیکن ہم میں سے بہت سے، جب بے نقاب ہوتے ہیں، بھاگ جاتے ہیں. دور ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاملہ خدا کے ہاتھ سے نکل گیا ہے! معلوم ہوتا ہے کہ وہ شروع سے ہی نہیں مانتے تھے کہ معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور حکومت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپؐ کے ساتھیوں کو اس قدر آزمایا کہ آپؐ نے فرمایا اس آیت نے میرے بال سفید کر دیئے۔
"فَاسْتَقِمْ" کا مطلب ہے خود کو مضبوطی سے تھام لینا؛ میں تاریخ کے شدید ترین طوفانوں کو اٹھانا چاہتا ہوں۔
جب خدائے متعال ہمیں اسلامی حکومت کی اجتماعی عبادت کی توفیق دینا چاہتا ہے تو وہ سخت ترین معیارات کو سامنے رکھتا ہے۔ کوئی مذاق نہیں خدا کے نام پر حکومت۔
سب سے بے تکلفانہ بات یہ ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ اس پیغام کا مصنف اگلے مہینے تک، اگلے سال تک، یا دس سال بعد بھی، 'انقلابی' رہا ہو یا 'مومن' رہا ہو۔
خدا کی سب سے بڑی آزمائشوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کے دوست اس سے منہ موڑ لیں اور اس کے راستے سے منحرف ہو جائیں۔ وہ لوگ منصرف ہوکر ہٹ جائیں جن کے ساتھ آپ انسیت رکھتے تھے اور آپ کے قریب تھے۔ آپ نے مؤمنین کی ایک جماعت بنائی تھی۔ آپ نے ایک راستہ طے کیا تھا۔ آپ نے مسئلہ حل کر دیا تھا۔ آپ نے ان پر بھروسہ کیا تھا۔ آپ نے ان سے 'مؤمن بننا، 'مؤمن ہونا' اور 'مؤمن رہنا' سیکھا تھا: یہ قاعدہ: "وفاداری بشرط استواری" قابل قدر ہے۔"
خدا آپ کا امتحان لے رہا ہے کہ آیا آپ کا دل مؤمن ہے یا نہیں بلکہ آپ کا ایمان دوسری چیزوں پر منحصر ہے اور مشکلات آئيں گی تو زائل ہو جائے گا؟!
جب کارخانے کسی اہم پیداوار کو مارکیٹ میں لانا چاہتے ہیں، تو وہ اسے انتہائی سخت ٹیسٹوں سے گذارتے ہیں تاکہ خدا نخواستہ یہ کام کے حالات میں تباہی اور المیے کا کا باعث نہ بنے۔
فرض کریں کہ ایک کارخانے میں ایک 'بس' کو انتہائی عجیب و غریب تجربات سے گذرنا پڑتا ہے کیونکہ طے یہ ہوتا ہے کہ اسے 40 افراد کو سڑک پر لے جانا ہے۔ ٹرینوں کے لئے مزید ٹیسٹ ہیں۔ بحری جہازوں کے لئے اس سے بھی زیادہ ٹیسٹ ہیں۔ ہوائی جہازوں کے لئے اس بھی زیادہ ٹیسٹ ہیں۔
جتنا مشن بڑا ہوگا، جتنی امانت بڑی ہے، امتحان اتنا ہی مشکل ہوگا
کیا کسی قوم کے لئے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہے کہ وہ خدا کے دین کو زندہ کرنا چاہتی ہے، اور ظہور کے لئے ماحول سازی کرنا چاہتی ہے، اور امت کی قیادت سنبھالنا چاہتی ہے، لیکن وہ سخت ترین امتحانات سے نہیں گذرنا چاہتی؟!
کیا یہ ممکن ہے کہ خدا ان کے ایمان کو سخت ترین طریقوں سے نہ آزمائے اور زمین کے کونے کونے میں اپنے بندوں کو ایسی قوم کی پیروی کرنے کی اجازت نہ دے؟!
اللہ ہمیشہ اماموں کو بارہا، بارہا اور بارہا، دوسروں سے کہیں زیادہ آزماتا ہے۔ یہ بہت فطری بات ہے کہ ایسے لوگ سامنے آئیں جو ہماری دولت اور ہماری ہر چیز کے لئے خطرہ ہیں۔
اللہ ہی حاکم ہیں، یہ سب وسیلہ ہیں۔
کیا اس نے خود نہیں فرمایا کہ مؤمن نے خدا کے ساتھ ہر چیز کا سودا کر لیا ہے، اور اسے جہاد کرنا ہے؟؛
خدا کے ساتھ اس عہد کی نوعیت اگلے مورچوں (Front line) پر جینے سے عبارت ہے۔ فرنٹ لائن پر جینے کا نتیجہ مسلسل اور مستقل چیلنج، تناؤ، تنازع اور جنگ ہے، دشمن کی طرف سے دھونس دھمکی ہے، نقصان اور خطرہ ہے، بلا اور مصیبت ہے۔ یہ ایک منطقی عمل کی تمہید ہے۔
یہ امتحان و آزمائش کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی دعویٰ کریں گے ہمیں قبول کر لیا جائے گا؟!
معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے دل آسمان سے جُڑے ہوئے ہیں یا نہیں۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے دل زمین سے سیراب ہوتے ہیں یا آسمان سے؟ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے یا اللہ کی مخلوق پر۔
ہمیں اپنے ایمان کی جڑ کو پرکھنا چاہئے؛ لیکن کس کسوٹی پر؟!
اس کے پھلوں سے۔ خوشیاں اور راحتیں دونوں، ہمارے ایمان کے ثمرات کو جانچتی ہیں۔ ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ آسانی کے دن آئیں گے۔ لیکن وہ دن ان دنوں سے زیادہ خطرناک ہوں گے۔ اگر ہم مشکل دنوں کا امتحان کامیابی سے پاس کر گئے تو آسانی کے دن کے امتحان شروع ہو جائیں گے جو کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔
ہم سوچ لیں گے کہ کام بس مکمل ہو چکا ہے اور ہم اسی فارغ البالی کے پیچھے بھاگیں گے جس کا ہمیں جنت میں وعدہ دیا گیا تھا اور یوں ہم غافل اور برباد ہو جائیں گے۔
یہ وہی بربادی ہے جس سے بہت ساری قومیں دوچار ہو گئیں؛ اگر ایمان ظاہری اور سطحی ہو تو ہم بھی اس سے دوچار ہو جائیں گے۔
دنیا میں کوئی جنت نہیں۔ دنیا بس دنیا ہے اور جب تک یہ موجود ہے، آزمائش اور مصیبت ہے۔ اس کی تمام شکلیں امتحان و ابتلاء کا مرقع ہیں۔
آج دنیا والے ہمیں، ایسے جہاد کی مشقتوں سے آزما رہے ہیں، جنہیں ہم نے نہیں چاہا ہے، اور کل ہم رضاکارانہ اور شعوری جہاد و مشقت کے ذریعے امتحان سے آزمائیں جائیں گے اور اس امتحان کو پاس کرنا ہوگا، یہ البتہ ایک اعلیٰ سطحی جہاد ہوگا۔
آج ہم مسئلے کے ایک حصے کی ذمہ داری امریکہ، اسرائیل، حکومت، پارلیمنٹ، اور ادھر ادھر کے لوگوں اور اداروں پر عائد کرتے ہیں لیکن کل مجرم کی تلاش نہیں کر پائیں گے۔ امتحان کئی گنا زیادہ مشکل ہوگا۔
ہم دیکھیں گے کہ کن لوگوں کو کس طرح انحراف کی کھائی میں پھینکا جائے گا۔ وہ دن خوشائند نہیں ہے، لیکن عنقریب ضرور ہے۔
ہمیں گویا اس حقیقت میں شک ہے کہ حکومت صرف اللہ کی ہے۔ یا ہم اپنی عزت بچانے کے لئے محسوس نہیں ہونے دیتے کہ ہم اس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے۔ لیکن خدا نہ شرماتا اور نہ ہی پروا کرتا کہ ہمیں رسوا کر دے، اور ہماری رسوائی سے ایک قوم کو آزما لے، اور ایک نسل کا امتحان لے، اور اس عظیم آزمائش و امتحان پر ایک طویل وقت لگا دے، اور ـ ان ہی میں سے ـ اپنے دوسرے بندوں کو اپنے مشن کے لئے منتخب کر لے۔
ہماری صورت حال کی نوعیت، جہاد ہے۔ آج، مرکب جنگ (Hybrid Warfare) میں، اللہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم ہائی برڈ جہاد کو سنبھالنے کے قابل ہوں گے۔ جب آزمائشیں کثیر جہتی ہو جاتے ہیں تو بڑی خوشخبری کی آمد ہوتی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم واقعات کے مرکز کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ جہاں ہم پر ہر طرف سے یلغار ہوتی ہے، وہیں خدا کا امتحان اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ جب ہمارے تمام بیرونی اور اندرونی وابستگیوں کو خطرہ لاحق ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ بہت عظیم واقعہ رونما ہونے والا ہے۔
ایک اہم موڑ۔ ایک زبردست تبدیلی۔ ایک چوٹی۔ ڈھلوان کی تبدیلی۔ ایک کامیابی اور پھر امتحانات کا نیا دور۔ اور اس بار شاید ہماری حالت فاتحانہ ہو۔
بہت سے مشکل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھی تھے۔ جب فتح کا وقت آیا تو وہ دور ہو گئے۔ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھوک اور پیاس اور بے پناہ صعوبتیں جھیل لیں۔ جب کچھ خوشحالی اور پیٹ بھر کھانے کا وقت آیا تو وہ وہاں دور ہوگئے، جان کر۔ بھرے پیٹ کا امتحان بھوک کے امتحان سے کہیں زیادہ سخت تھا۔
جب ان کے پاس ایک سکہ بھی نہیں تھا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دوست تھے۔ جس دن ان کے پاس لاکھوں سکے تھے، اٹھ کر چلے گئے۔ اللہ کی حکومت چھوڑ کر اور وقار و عزت ترک کرکے، بھول گئے کہ یہ جنت نہیں بلکہ یہ تو بس دنیا ہے۔ وہ آسانی میں پہنچ کر دنیا کے اندر جنت کی سی کیفیت اختیار کر گئے۔ کچھ لوگ مشکل دنوں میں بھول گئے کہ یہ دنیا ہے اور مشکلات کو جہنم سمجھ کر الگ ہو گئے۔
جی ہاں چھوٹے لوگ نہیں تھے وہ جو تلخ دنوں کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گذرے لیکن خوشی کے ایام میں جنت کے وہم میں مبتلا ہوگئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اس دنیا میں جہنم اور جنت سے چشم پوشی کرنا پڑے گی، قبولیت پانے کے لئے۔
ہم انسان ایسے ہی ہیں۔ اللہ کی طرف کے امتحانات میں ہم دکھاتے ہیں کہ ہمارا جہنم اور ہماری جنت کیا ہو اور کتنی ہو۔
کچھ لوگ ایسے ہیں کہ کم از کم درد اور تکلیف سے دوچار ہوتے ہی ان کے جہنم کا نصاب پورا ہوجاتا ہے، وہ اپنی آخرت کو یہیں مجسم کرکے ظاہر کرتے ہیں اور اپنے چھوٹے پن کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔
آپ کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں جو دکھ درد کو خوب برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن نعمتیں دیکھتے ہی، جنت کے تخیل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ وہیں گرتے اور سقوط کر جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اللہ حکمرانی کر رہا ہے اور اسی دوران کچھ طے پا رہا ہے۔ عام طور پر، جو کمزور اور ضعیف النفس ہیں وہ بے نقاب ہونے سے بچنے کے لئے، اپنی علیحدکی اور انحراف کے گناہ کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ تمام لوگوں کو ایک ساتھ، آزمایا جا رہا ہے۔ اگر تمام سوالات حل ہو جائیں تو نیا سوالنامہ تیار ہے اور نئے امتحان کا آغاز ہے۔
الغرض، طے یہ نہیں ہے کہ امتحانات کی سطح نہیں بالاتر نہیں جائے گی۔ ابھی بھی بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے امتحان نہیں دیا ہے۔
ہاں، اگر سب متحد ہو کر امتحان کو مکمل کرتے تو مرحلہ تیزی سے بدل جاتا اور اگلے مرحلے کا امتحان شروع ہو جاتا؛ لیکن ہم آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ اسی جگہ میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ مُذَبذَب اور ڈانواں ڈول ہیں۔
جب معاشرہ امتحان سے گذرنے کے لئے متحد نہیں ہوگا تو ادوار طویل تر ہوں گے
یہ وہی کام ہے جو شیطان ہمارے ساتھ : مشکلات سے گذرنے کے وقت، اختلاف پیدا کرنا۔
شیطان جانتا ہے کہ کہانی کیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ کی مرضی اور ارادے کے گرد اکٹھے ہو گئے تو ان کی مشکلات سے عبور جلد میسر آئے گا، اور مؤمنین کو شکار کرنے کا موقع اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا؛ اور شیطان اور اس کے چیلے اپنی ظاہری حکمرانی سے کھو جائیں گے۔
چنانچہ وہ لوگوں میں تفرقہ ڈال دیتا ہے۔ بلاشبہ، یہ سب شیطان کا قصور نہیں ہے اس کا تو یہ مشن ہے۔ اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ شیطان کے ساتھ ہمارا تعاون اور شیطانی افعال کی طرف ہماری رغبت بھی ہے۔ ہم میں شیطان سے بھی زیادہ شریر بننے کی استعداد ہے۔
شیطان ہماری مدد کرتا ہے کہ گناہ کو زیادہ اثر انگیزی اور مضبوطی کے ساتھ، تصور کریں۔ گناہ کی خوشی کو، خوشی کی حالت، گناہ کی لذت اورنکھٹو پن کی خوشی کو، غیر ذمہ داری کی خوشی اور مواقع ضائع کرنے اور کچھ نہ کرنے کی لذت۔ شیطان لذت کے اس کھوکھلے احساس کو کئی گنا بڑھا کر ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ وہ ہمارے ذہنی کو متحرک کرنے کی کوشش کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، ایک چھوٹی سی خوشی، ایک چھوٹی سی نعمت کے ساتھ، ہم جنت کا وہم پیدا کرتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ "ما تشتهی الأنفس" (جو چی چاہے وہ) یہیں ہے.
دوسری طرف، جب کوئی چھوٹی سی مصیبت آتی ہے تو شیطان ہمارے تصور میں اس کو ضرب دے کر کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور اس وہم کو اس قدر اوپر لے جاتا ہے کہ ہم تصور کرتے ہیں کہ یہ جہنم ہے اور اہل جہنم والی مایوسی، اداسی اور نا امیدی پیدا ہو جاتی ہے اور ہم مکمل طور پر ہار جاتے ہیں۔ خاص کر جب سے ہمیں اس میں "خالدین فیها" (اس میں ہمیشہ رہنے والوں) کا احساس بھی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب قنوط (اور مایوسی) کا غلبہ ہو جاتا ہے، اور پوری طرح ہار مان کر، ہر قسم کی کوشش اور کام کاج سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں، اور یوں اور شیطان کی مطلق مرضی کے دائرے چلے جاتے ہیں۔
جب معاشرہ شیطان کے خلاف اور اللہ کی بندگی کے لئے متحد نہ ہو تو امتحان کا مرحلہ طویل ہو جاتا ہے۔ الٰہی راہنماؤں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو جمع کرتے ہیں، ان کو متحد کرتے ہیں اور ان سب کو ایک ساتھ بلا اور آزمائش کے ایک لمبے دور سے گذررنا پڑتا ہے۔ ولیِ خدا کے ساتھ سفر کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ اچانک بہت ساری مسافت طے ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آزمائشوں کی نوعیت یہ ہے کہ وہ مجتمع اور تہہ در تہہ اور تيز رفتار ہوتے ہیں۔
اگر لوگ ساتھ رہیں تو امتحان کا یہ دور تیزی سے گذر جاتا ہے۔ لیکن وہ جتنی زیادہ خدا کے ولی سے دور ہوکر منتشر ہوتے ہیں، وقت کی وسعت اور آزمائش کا مرحلہ اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ یہ زمین پر جہنمیوں اور شیاطین کی حکمرانی کا دور ہوتا ہے۔
اس لئے یہ بات واضح ہے کہ جب خدا کا ولی اقتدار میں آتا ہے تو ہمارے لئے مشکل اور شدید حالات کیوں ہوتے ہیں؟ بالفرض، آپ 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو آپ کو زیادہ دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے اور زیادہ فاصلہ طے کر لیتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اگر 50 کلومیٹر کی رفتار سے چلیں گے تو وقت زیادہ لگے گا اور فاصلہ دیر سے طے ہوگا۔
قرآن پاک ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر سب مل کر صحیح طریقے سے امتحان دے دیں تو خوشی اور سعادت کے دنوں میں پہنچ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک ساتھ دو امتحانات دینا پڑتے ہیں۔
اچھا ہونا اور اچھا رہنا، اور مل کر اچھا ہونا اور ایک ساتھ اچھا رہنا۔
پھر معاملات بہت جلد حل ہو کر منظم ہو جائیں گے۔ جتنے زیادہ لوگ ولیِ خدا کے ساتھ متحد ہوں گے اور یہ اتحاد جتنا مضبوط ہوگا حالات اتنی ہی تیزی سے چیزیں بہتر ہوں گے۔
ورنہ اچھے اور برے واقعات کا تنوع اتنا وسیع اور پیچیدہ ہو جائے گا کہ ہزاروں منحرف طور طریقے بھی میدان میں آ جائیں گے اور راستے کی پیچیدگیاں اور دلدلیں بڑھ جائیں گی۔
شیطان چاہتا ہے کہ سب اس کے گرد جمع ہو جائیں تاکہ کام جلد مکمل ہو اور انسان جہنم سے دوچار ہوجائے۔ لیکن خدا کا دوست بھی چاہتا ہے کہ سب اس کے گرد اکٹھے اور متحد ہو جائیں تاکہ کام جلد مکمل ہو اور انسان جنت جانے میں کامیاب ہو سکے۔
لیکن لوگ برزخ میں رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ائمہ ہدایت اور ائمۂ ضلالت کے درمیان [کا برزخ]۔
ایک وسیع و عریض میدان، جس میں بہت سی پیچیدگیاں اور بے ضابطگیاں ہیں۔ ہر چیز اضافی (Relative) ہے اور کثرتیت (Multiplicity)، تنوع اور تغیُّر ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ نسلیں گذر جاتی ہیں اور اللہ کے امتحان میں سے ایک بھی سوال کا جواب نہیں ملا ہوتا ہے۔ بہت سے مؤمن مرتے اور چلے جاتے ہیں، اور کچھ ابھی باقی ہیں جنہیں جواب دینا ہوتا ہے۔ بہت سے کافروں نے اپنے راستے کا انتخاب کیا اور چلے گئے اور کچھ اب بھی باقی ہیں؛ بھٹکتے ہوئے، کسی انتخاب کے بغیر۔
اب غور کرو اور دیکھو کہ کہ کون ہے جو اللہ کے ولی کے گرد اتحاد کا خواہاں ہے اور کون ہے جو شیطان کے پیروکاروں کے گرد جمع ہونے کا خواہاں ہے؟
آیئے صحیح وجوہات تلاش کریں؛ آیئے اپنے آپ کو دھوکہ نہ دیں اور خود کو دھوکے میں نہ رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[ویڈیو]
رہبر معظم امام خامنہ ای نے فرمایا:
ایک بنیادی نکتہ، 'انقلابی رہنا' ہے۔ بہت سے لوگ تھے جو مثال کے طور پر، 80-1979 میں آکر ہمارے پاس بیٹھتے تھے، بات کرتے تھے 'تند و تیز بہت گرم اور آتشیں'، یوں کہ ہماری آنکھیں تکتی رہ جاتی تھیں؛ کہ پھر کون ہیں؟ مغرب زدہ لوگوں کے بقول، "سوپر انقلابی"، تاہم بعد میں وہ پلٹ گئے، انقلابی نہیں رہے، اس طرز کے برتاؤ اور اس طرز نگاہ کے ساتھ، مشن کو جاری نہيں رکھ سکے، برداشت نہیں کر سکے۔
دیکھئے اس مسئلے کی حقیقت یہ ہے، کہ "وہ برداشت نہ کرسکے"، ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سعید توتونکار
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ