بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ستمبر 2025 میں، ابو محمد الجولانی (جسے احمد الشرع کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کی قیادت میں شام ایک بڑی سفارتی تبدیلی کے دہانے پر ہے: صہیونی ریاست کے ساتھ ایک سکیورٹی معاہدے پر دستخط!
الجولانی، جو اس سے پہلے جبہۃ النصرہ (القاعدہ کی شاخ) کے جہادی راہنما تھے اور اب بظاہر ایک 'معتدل سیاستدان' بن گئے ہيں، اس معاہدے کو "ناگزیر ضرورت" قرار دیتے ہیں؛ اور ساتھ ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ 'یہ معاہدہ تعلقات کی مکمل معمول سازی یا ابراہیم معاہدے میں شمولیت کے مترادف نہیں ہے، بلکہ یہ 1974 کے معاہدے (یوم کپور جنگ کے بعد شامی اور اسرائیلی فوجوں کی علیحدگی) کے احترام کی بنیاد پر منعقد ہو رہا ہے؛ تاہم، اس معاہدے کا مستقبل غیر یقینی ہے اور یہ داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل پر منحصر ہے۔
شام ـ دسمبر 2024 میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد ـ سے ایک عبوری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، دہشت گرد گروہ ہیئت تحریر الشام غالب قوت کے طور پر، دمشق اور ملک کے بڑے حصوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ الجولانی، جن کی القاعدہ اور داعش میں ایک طویل پس منظر رکھتے ہیں ـ نے ایک "جامع" (اگرچہ زیادہ تر ان کے اپنے قریبی ساتھیوں پر مشتمل) کابینہ تشکیل دے کر اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند سیاستدان کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی پابندی کا ظاہری طور پر اظہار کرتے رہے ہیں، اگرچہ عملاً ایک ہزار سے زائد مرتبہ اپنے اس عہد و اعلان کی خلاف ورزی بھی کر چکے ہيں۔
الجولانی کے عناصر اور کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں شام میں وسیع پیمانے پر نسل کشی اور مختلف اقلیتوں سے وابستہ افراد کو وحشیانہ پھانسیاں دینے کے باوجود، اس دہشت گرد گروہ کا سرغنہ صہیونی ریاست اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی کو کم کرکے، کشیدگی اور تنازعات سے بھرے شام میں اپنے اور اپنی حکومت کے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔
الجولانی کے ذہن میں امریکہ کے ساتھ اپنے موجودہ تعاون اور صہیونی ریاست کو دی جانے والی رعایتوں سے کئی اہداف مقصود ہیں، جن میں سب سے اہم ان کی حکومت کی اقتصادی امداد تک رسائی اور شام پر سے پابندیوں کا خاتمہ اور دباؤ ہٹانا ہے۔ اس حوالے سے الجولانی نے ٹرمپ کو لکھے گئے خط میں وعدہ کیا ہے کہ وہ پابندیوں کے خاتمے اور عالمی معیشت میں داخلے کے بدلے 2026 کے آخر تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیں گے۔
اسی طرح سویدا میں قتل عام حالیہ جیسے فرقہ وارانہ تشدد اور غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی، نیز صہیونی ریاست کے حملے اور مداخلتیں، شام کو پہلے سے کہیں زیادہ کمزور بنا چکی ہیں۔ الجولانی کا تصور یہ ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ معاہدہ کرکے اسرائیلی فضائی حملوں (جو دسمبر 2024 سے سینکڑوں سے زائد مرتبہ دہرائے جا چکے ہیں) کو روک سکتے ہیں۔
دوسری طرف، صہیونی ریاست کے بھی اس سلسلے میں متعدد محرکات ہیں جو ضرورتاً الجولانی کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں۔ صہیونی ریاست نے دسمبر 2024 سے جنوبی شام کے علاقوں (بشمول کوہ ہرمون) پر قبضہ کر لیا ہے اور غیر فوجی زون اور نو فلائی زون کا مطالبہ کیا ہے۔ شام کے جنوب پر قبضہ صہیونی ریاست کے لئے کئی اسٹریٹجک فوائد کا حامل ہے۔
جنوبی شام پر قبضے سے صہیونیوں کا مقصد، الجولانی حکومت کے خلاف، ان علاقوں میں موجود مسلح گروپوں کی حمایت کرکے، مقبوضہ جولان میں اپنی سرحدوں کے لئے ایک حفاظتی ڈھال قائم کرنا ہے۔ درحقیقت صہیونی ریاست اپنی اور الجولانی حکومت کی سرحدوں کے درمیان دروزیوں پر مرکوز ایک چھوٹی سی مکمل خود مختار ریاست قائم کرنا چاہتی ہے، جو کہ صہیونیوں اور الجولانی حکومت کے درمیان موجود، اہم ترین چیلنجوں میں سے ایک ہے۔
صہیونیوں کا ایک اور مقصد ایسا راستہ قائم کرنا ہے تاکہ اس کے ذریعے صہیونی ریاست شام اور عراقی کردستان کے علاقوں اور ایران کے پڑوسی علاقوں تک رسائی حاصل کر سکے اور اس طرح خطے میں ایک اسٹراٹیجک راہداری قائم کر سکے۔
صہیونیوں کے مد نظر ایک مسئلہ شام میں ترکی کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش ہے۔ صہیونی فوجی حملے، نیز الجولانی کے ساتھ سیاسی و سکیورٹی معاہدات کرکے جیسے مختلف اقدامات کے ذریعے، شام میں ترکیہ کا کردار زیادہ سے زیادہ محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو بذات خود الجولانی اور اس کی حکومت کے لئے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔
ماہرین کی رائے میں، الجولانی حکومت کے خلاف صہیونی ریاست کی یہ کارروائیاں "طاقت کے ذریعے قیام امن" کی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جو شام کو ابراہیم معاہدے کے قریب لے جا رہی ہیں۔
کچھ رپورٹس اور جائزوں کے مطابق، صہیونی ریاست اور الجولانی کے درمیان ہونے والا سکیورٹی معاہدہ 1974 کے ماڈل جیسا ہوگا، لیکن اس میں کچھ نئے عناصر شامل ہونگے، جیسے:
• سکیورٹی زونز: جنوب مغربی دمشق کو تین مختلف زونز میں تقسیم کیا جائے گا (غیر فوجی زون، نو فلائی زون، اور مشترکہ نگرانی)۔
• تدریجی انخلا: صہیونی ریاست 8 دسمبر 2024 کے بعد مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹے گی، لیکن مقبوضہ جولان "امن کا باغ" کے طور پر برقرار رہے گا۔
• ایران اور محور مقاومت کے خلاف تعاون: شام صہیونی ریاست کے سامنے محور مقاومت سے وابستہ مراکز اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور مقاومتی افواج کا مقابلہ کرنے کا پابند ہوگا۔
• ممکنہ شیڈولنگ: کچھ جائزوں کے مطابق، اس معاہدے پر دستخط کی ممکنہ تاریخ ستمبر 2025 کے آخر تک اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں الجولانی کی تقریر کے بعد، ہو سکتی ہے۔
صہیونیوں کی مقبوضہ شامی علاقوں میں موجودگی
اگرچہ صہیونی ریاست اور الجولانی حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیشرفت کی اطلاعات ہیں، لیکن اس معاہدے اور خاص طور پر الجولانی کے راستے میں سنگین رکاوٹیں موجود ہیں۔
اس وقت دمشق اور حمص میں شام کے اعلیٰ مفادات کے ساتھ خیانت کے خلاف ـ خاص طور پر روایتی اسلام پسندوں اور علویوں، اور یہاں تک کہ الجولانی کی حامی جماعتوں کی طرف سے ـ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، اور یوں الجولانی کے لئے تحرک پذیری کی فضا محدود ہو رہی ہے، کیونکہ موجودہ شامی حکومت کے حوالے سے شام کے مختلف دھاروں کی وسیع پیمانے پر ناراضگی اور حکومت کے ساتھ عدم تعاون ایک بار پھر اندرونی تنازعات اور ان [الجولانی] کی حکومت کے خلاف ـ داعش کے زمانے کی طرح، ـ بغاوت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا پر شامی علاقائی صارفین نے اس معاملے پر تند و تیز رد عمل کا اظہار کیا ہے: الجولانی پر "غداری" کا الزام لگانے سے لے کر مقبوضہ جولان کی حوالگی کے الجولانی کی "سیاسی حیات کے خاتمے" کی پیشین گوئی تک۔
دروزیوں کی آزادی کی خواہشوں یا کردوں کے ساتھ مسلسل تناؤ کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو الجولانی حکومت کو مصروف کئے ہوئے ہے اور اب تک اس ملک میں متعدد تصادمات اور وسیع پیمانے پر خونریزی کا باعث بنا ہے۔
ایک اور مسئلہ صہیونی ریاست ـ اور تحریر الشام کے دہشت گرد ٹولے کے بنیادی حامی ـ ترکیہ کے درمیان بڑھتا ہؤا تناؤ ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران، صہیونی ریاست کے لڑاکا طیاروں نے شام میں ترکیہ سے متعلقہ اہداف کو بار بار اپنی شدید بمباریوں کا نشانہ بنایا ہے، اور تل ابیب اور انقرہ کے درمیان اختلافات براہ راست زبانی دھمکیوں کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ مسئلہ صہیونی ریاست کے ساتھ الجولانی کے تعاون پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے یا حتی تھوڑے سے عرصے کے بعد معاہدے کے خاتمے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
شام میں صہیونیت مخالف مظاہرے
نیز خطے میں صہیونی ریاست کی جارحانہ پالیسیوں ـ جیسے کہ قطر پر حملے اور خطے کے دیگر ممالک پر حملوں کے تسلسل کے امکان نے اس ریاست کی طرف سے معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی کے خدشے میں اضآفہ کیا ہے؛ (جیسے شامی وزارت دفاع پر حالیہ حملہ)، اور ایک ایسا مسئلہ ہے جو پہلے ہی اس معاہدے کی درستگی پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں صہیونی ریاست کے چینل i13 نے خبر دی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان طے پانے والے سکیورٹی معاہدے میں تل ابیب اور دمشق کے درمیان اختلاف کا بنیادی نکتہ شام کی فضائی حدود کے خلاف صہیونی ریاست کی فضائیہ کی جارحیت کا تسلسل ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ صہیونی نیٹ ورک نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سکیورٹی معاہدے کی بیشتر شقوں پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ دمشق نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ شام کے جنوب مغربی علاقوں کو غیر فوجی اور اسلحے سے خالی بنا دیا جائے گا اور تل ابیب اپنے فوجیوں کو کوہ حرمون یا جبل الشیخ کی بلندیوں کے علاوہ زیادہ تر مقبوضہ علاقوں سے نکال لے گا۔ یہ اس وقت ہے جب صہیونی ریاست شام کی فضائی حدود کو اپنے لڑاکا طیاروں کے لئے کھلا رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مذکورہ مسائل کو دیکھتے ہوئے، دہشت گرد گروہ تحریر الشام اور صہیونی ریاست کے درمیان جاری مذاکرات اور ممکنہ سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے کئی منظر ناموں کا امکان پایا جاتا ہے:
• خوش فہمی مگر بعید از قیاس منظر نامہ:
معاہدے پر 2025 کے آخر تک دستخط ہوں گے، صہیونی ریاست جنوبی شام سے پسپا ہوگی (= ناممکن امر)، شام ابراہیم معاہدے میں شامل ہوگا؛ جاتا ہے اور شام ایسا ملک بنے گا جہاں امریکہ موجود ہوگا اور یہ ملک واشنگٹن اور تل ابیب کی پالیسیوں کا تابع ملک بنے گا۔
• حالیہ واقعات کے تناظر میں حقیقت پسندانہ منظر نامہ:
ایک جزوی معاہدہ (صرف سرحدی معاملات تک محدود) تشکیل پائے گا، شام کے مختلف علاقوں پر صہیونی ریاست کے حملے جاری رہیں گے۔ الجولانی بقا کے لئے ترکی اور روس سے قریب ہو جائیں گے، اور شام میں فرقہ وارانہ تناؤ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ مزید پھیل جائے گا۔
• ناامیدی پر مبنی منظر نامہ (جو بعید از قیاس نہیں ہے):
داخلی مسائل یا صہیونی ریاست کی زیادتیوں کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہونگے، جس کے نتیجے میں بغیر کسی سرکاری اعلان کے شام کردوں، تحریر الشام اور دروزیوں میں تقسیم ہو جائے گا اور صہیونی ریاست جنوبی شام پر قبضہ جاری رکھے گی۔
بائیکاٹ اسرائیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
https://www.mashreghnews.ir/news/1750838
آپ کا تبصرہ