23 مئی 2025 - 16:15
شام میں خانہ جنگی عنقریب، امریکی وزیر خارجہ کا سنجیدہ انتباہ! - 1

ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، نے خبردار کیا کہ شام کو عنقریب خانہ جنگی کے خطرے کا سامنا ہے، جس کے پہلو بہت تباہ کن ہیں، رای الیوم نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی سفارتی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عبوری حکومت بہت جلد وسیع البنیاد خانہ جنگی سے دوچار ہوسکتی ہے جس کے پہلو تباہ کن ہونگے اور اس کا نتیجہ اس ملک کی تقسیم کی صورت میں درآمد ہوگا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کےمطابق، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سینیٹ میں شام میں باغیوں کی حکومت کے بارے میں نئی چيزوں کا انکشاف کیا ہے: تزویراتی تذبذب، حکمت عملی میں حیرت زدگی، یہ اسد کے بعد کے شام کی حقیقت ہے جہاں عراق اور لیبیا کے منظرنامے کا اعادہ بھی باعث خوف و دہشت ہے۔

نکتہ: ٹرمپ نے ریاض میں شامی "دلکش لڑکے" (الجولانی) سے ملاقات کی اور اس کو مضبوط ماضی کا مالک قرار دیا اور اسے مضبوط رہنے کی تلقین کی جس سے ایسا لگتا تھا کہ گویا جولانی ابدتک شام میں اسرائیل اور امریکہ کی خدمت کرتا رہے گا، یا جب امیرقطر تمیم بن حمد جولانی سے رومال وصول کرتے ہوئے جس وجد و ہیجان اور جذباتیت کا مظاہرہ کیا اور عشق و معاشقے کا ریکارڈ قائم کیا، تو لگتا تھا کہ ٹرمپ بھی اور ٹرمپ کا میزبان ـ جس نے انہیں ڈیڑھ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری اور چار سو ملین ڈالر کا لگژری طیارہ بطور تحقہ پیش کیا تھا اور شام میں باغیوں کی حکمرانی کے قیام کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنے والا اور شام کے قبضے میں ترکیہ کے اردوغان کا ساتھ دینے والے بھی الجولانی سے بہت خوش ہیں اور اس کے مستقبل سے مطمئن ہیں۔ لیکن ۔۔۔

امریکی وزیرخارجہ، مارکو روبیو نے چند مہینوں میں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں ـ شام میں ترکیہ، اسرائیل اور امریکہ کی حمایت سے ابومحمد الجولانی کی سرکردگی میں قائم باغیوں کی ـ حکومت کے خاتمے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

مارکو روبیو نے امریکی سینیٹ کی سماعت کے دوران شام میں جولانی حکومت کی شکست و ریخت کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کے جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ شام کی موجودہ حکومت اگلے چنند ہی ہفتوں میں گر جائے گی۔

امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ شام کے تمام جاری امور کی قریب سے نگرانی کر رہا ہے، دوسری طرف سے ٹرمپ نے ریاض میں شامی "دلکش لڑکے" (الجولانی) سے ملاقات کی اور اس کو مضبوط ماضی کا مالک قرار دیا اور اسے مضبوط رہنے کی تلقین کی جس سے ایسا لگتا تھا کہ گویا جولانی ابدتک شام میں اسرائیل اور امریکہ کی خدمت کرتا رہے گا، یا جب امیرقطر تمیم بن حمد جولانی سے رومال وصول کرتے ہوئے جس وجد و ہیجان اور جذباتیت کا مظاہرہ کیا اور عشق و معاشقے کا ریکارڈ قائم کیا، تو لگتا تھا کہ ٹرمپ بھی اور ٹرمپ کا میزبان ـ جس نے انہیں ڈیڑھ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری اور چار سو ملین ڈالر کا لگژری طیارہ بطور تحقہ پیش کیا تھا اور شام میں باغیوں کی حکمرانی کے قیام کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنے والا اور شام کے قبضے میں ترکیہ کے اردوغان کا ساتھ دینے والے بھی اجلوالنی سے بہت خوش ہیں اور اس کے مستقبل سے مطمئن ہیں۔ لیکن روبیو نے سینیٹ میں شام میں باغیوں کی حکومت کے بارے میں نئی چيزوں کا انکشاف کیا ہے تزویراتی تذبذب، حکمت عملی میں حیرت زدگی، یہ اسد کے بعد کے شام کی حقیقت ہے جہاں عراق اور لیبیا کے منظرنامے کا اعادہ بھی باعث خوف و دہشت ہے۔

سوال: جولانی حکومت شکست و ریخت سے کیوں دوچار ہے؟ کیا اس کے اسباب ـ اسد حکومت کے بعد کے دور میں ـ باغیوں کی حکومت کے اندرونی عوامل ہیں یا بیرونی؟

الجولانی حکومت کی کمزوری اور زد پدیری

اسد حکومت عشروں سے قائم تھی  اور اس نے شام کا انتظامی ڈھانچہ مرتب  کیا تھا جو اسد کے جانے کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہؤا اور ایک خلا معرض وجود میں ہے جس کو غیر تجربہ کار اور اناڑی گروہوں ـ جیسے ہیئت تحریر الشام، اسد مخالف دھڑوں اور سابق حکومت کے کمزور سے باقیات (بطور ٹیکنوکریٹس) ـ نے پر کر دیا، یہ حکومت نہ صرف ایک "قومی عبوری حکومت" نہیں ہے بلکہ یہ مسلح دہشت گرد ٹولوں کا ملغوبہ ہے جنہوں نے سیاسی نقاب اوڑھ لیا ہے۔

ہیئت تحریر الشام نے چار اہم تزویراتی وزارت خانوں ـ یعنی وزارت دفاع، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور وزارت عدلیہ ـ کو اپنے انحصار میں لیا۔ ان وزارت خانوں کا قلمدان جن افراد کو سونپا گیا ان سب کا پس منظر دہشت گردانہ ہے اور ان کا ماضی داغدار ہے۔ یہ صرف سرکاری اداروں پر قبضہ ہی نہیں تھا بلکہ اس سے معلوم ہؤا کہ یہ حکومت ہیئت تحریر الشام کا "قانونی" تسلسل ہے جو نہ صرف بین الاقوامی لحاظ سے ناجائز (Illegitimate) ہے بلکہ چند ہی مہینے قبل تک امریکیوں کی دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں تھی اور شاید اب بھی ہے!

اندرونی دراڑیں

جولانی حکومت میں "مرکزیت پر مبنی سیاسی نظام" کا فقدان زد پذیری کے اہم اسباب میں سے ایک ہے جو اس حکومت کی حقیقت کو نمایاں کرتا ہے؛ جبکہ مرکزیت پر مبنی سیاسی نظام شامی ریاست کی شناخت کا تعین کرتا ہے اور اس کے تنوع اور تکثیریت کی ضمانت دیتا ہے۔ جولانی حکومت کی تشکیل کا عمل ـ جو ہنوز جاری ہے ـ ایک نئے شام کا تشخص اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے، کیونکہ یہاں اگر کوئی تشچص ہے بھی تو یہ سلفی-جہادی خصوصیات (یعنی تکفیری دہشت گردی) پر استوار ہے، اور اس صورت میں نہ صرف نیا تشخص نہیں ابھرے گا بلکہ یہ عمل شام کے ذاتی تشخص کو بھی نیست و نابود اور خطے کے ڈھانچے اور اس کی ترکیب کو متاثر کر ے گی۔

اس میراث کو ایک سرکاری ہدایت نامے یا حکومتی فصیلے سے منسوخ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ عبورت حکومت کو اندرونی اعتماد کے فقدان کا بھی سامنا ہے۔ تحریر الشام کی حکمرانی نے نہ صرف شامی اقلیتوں کو خوفزدہ کر دیا ہے بلکہ شامی یہ ہرگز قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ یہ تحریر الشام اور اس کے اتحادی گروپ حکومت میں نیز بین الاقوامی برادری میں ان کی ترجمانی کریں، چنانچہ صرف حصول اقتدار ہی ان کی بقاء کا سبب نہیں بن سکتا اور شہریوں کو امن و امان اور شراکت داری کا احساس نہیں دلا سکتا۔

"اطمینان بخش" تقرریاں ـ جیسے ایک عیسائی اور ایک علوی کو حکومت میں عہدہ دینا ـ بھی ایک سماجی قرارداد کی تاسیس کی کوشش سے زیادہ، ایک سیاسی فریب ہے۔ کیونکہ حقیقی اقتدار ـ حکم فرما حقائق کی رو سے ـ مساوی انداز سے تقسیم نہیں ہؤا ہے، اقتدار ایک گروہ کے ہاتھ میں مجتمع ہے جو در حقیقت انتہاپسند تکفیری دہشت گرد ٹولوں کا تسلسل ہے۔

دھڑے بندی: "قوم پرستی" کی آڑ میں افراتفری

جولانی حکومت نے اپنے خیال میں تمام دہشت گرد ٹولوں کو نئی وزارت دفاع میں ضم کرکے اس کو "شام کی نئی فوج" کا نام دیا، جو کاغذ کے اوپر ایک کامیابی ہے مگر متعلق ٹولوں کے درمیان اختلافات بدستور قائم ہے۔ گوکہ کہا جاتا ہے کہ 70 گروہوں کو ضم کر دیا گیا ہے لیکن ہر گروہ کا اپنا ڈھانچہ، اپنی سوچ، اپنی وفاداریاں ہیں جن کے وہ بدستور پابند ہیں اور مرکزی کمان صرف ایک عنوان (Title) ہے۔

نئی شامی فوج درحقیقت دو دہشت گرد جماعتوں ـ یعنی قومی محاذ برائے آزادی (National Front for Liberation) اور ہیئت تحریر الشام ـ پر مشتمل ہے جنہوں نے اعزاز کے سے ادلب تک اور شمالی حلب کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ اقتدار کے ایک متحدہ مرکز کی پیروی کے بجائے اپنے جماعتی مفادات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ "خفیہ وفاقیت" یا "مسلحانہ وفاقیت" آج کی شامی حکمرانی کی حقیقت ہے۔

"قسد" (شامی جمہوری فورسز Syrian Democratic Forces) غائب ہے مگر حاضر، نہ لڑ رہی ہے اور نہ ہی حکومت میں ضم ہوئی ہے، جس کا مطلب شام کا ٹکڑوں میں بٹ جانا۔ اسی بنا پر "شام میں ایک مکمل پیمانے پر جنگ" کے بارے میں روبیو کا بیان ایک انتباہ نہیں بلکہ اس ملک کے آنے والے ایام اور موجودہ صورت حال کی ایک حقیقت پسندانہ تشریح ہے [گوکہ اس کو ملک کی تقسیم کے لئے امریکی-اسرائیلی منصوبے کا اعلان بھی کہا جا سکتا ہے]۔

شامی پناہ گزینوں کی غیر یقینی صورت حال

مارکو روبیو نے بیرون ملک مقیم شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور شام کی تعمیر نو میں شراکت کے لئے مناسب ماحول کے فقدان کی طرف سے بھی اشارہ کیا، جو اگرچہ بظاہر ایک انسانی مسئلہ ہے لیکن اپنے اندر ایک سیاسی حقیقت بھی چھپائے ہوئے ہے: بیرون ملک مقیم شامی پناہ گزین ایسے وطن واپس نہیں جائیں گے جس کا انتظام ایک ایسے دہشت گردانہ پس منظر کے حامل مسلح ٹولے کے ہاتھ میں ہے ایسا ٹولہ جو شام کی مختلف قوموں اور مذہبی گروہوں کی نسبت دشمنی پر مبنی رویہ رکھتا ہے۔

پناہ گزینوں کی واپسی امن و امان کے قیام اور حکومت کے بین الاقوامی جواز سے مشروط ہے، چنانچہ پناہ گزینوں کا مسئلہ جولانی حکومت کے تاریک پہلو کے طور پر باقی رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha