اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، عبدالباری عطوان نے رای الیوم میں لکھا:
- خانہ جنگی الجولانی سرکار کی شکست و ریخت کا سبب بن سکتی ہے۔
- یہ جنگ شام کی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے۔
- مارکو روبیو ٹرمپ کے قریبی شخص ہیں جن کی باتیں سنجیدہ ہو سکتی ہیں۔ ان کی باتیں مغربی ایشیا کے حقائق کے تجزیہ کاروں پر مبنی ہیں۔
- اس سے قبل شام میں سابق امریکی سفیر رابرت فورد نے کہا تھا کہ: "ایک انگلستانی ادارے کو ابو محمد الجولانی (احمد الشرع) دہشت گردی کے میدان سے نکال کر سیاسی کے میدان میں لانے کا مشن سونپا گیا تھا"۔ فورڈ نے مزید کہا ہے کہ "لندن، واشنگٹن، انقرہ اور دوسرے دارالحکومتوں میں دمشق اور شام کے لئے مختلف قسم کے نقشے اور منصوبے بنائے گئے تھے"۔
- یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکہ، انگلستان اور ترکیہ الجولانی اور تحریر الشام کو دمشق پر مسلط کرنے کے لئے ہونے والی کاروائیوں میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اس میں کچھ عرب ریاستیں بھی شامل ہیں۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے شام پر صہیونی جارحیتوں اور شام کے جنوبی علاقوں پر قبضے کو توجہ نہ دینے کی الجولانی کی پالیسی سمجھ میں آتی ہے۔
- الجولانی نے حافظ اسد کے دور میں شام میں پھانسی پانے والے اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کے بارے میں معلومات و دستاویزات صہیونیوں کے سپرد کی ہیں، ریاض میں ٹرمپ سے ملاقات کی اور وعدہ دیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔
خانہ جنگی یا الٹی بغاوت کے چھ بنیادی اسباب:
1۔ الجولانی سرکار خود کو شامی عوام کی غالب اکثریت کے ترجمان کے طور پر متعارف کرانے میں ناکام رہی ہے۔
2۔ الجولانی سرکار تمام شامی باشندوں کی سلامتی کو یقینی نہیں بنا سکی ہے جس کا ایک مظاہرہ شام کے ساحلی اور جنوبی علاقوں میں عوام کا قتل عام اور انتقامی کاروائیاں ہیں۔
3۔ مختلف اقوام و ممالک سے تعلق رکھنے والے 17 مسلح دہشت گرد ٹولے شام میں موجود ہیں جو اپنے انتہاپسندانہ نظریات سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں اور ان ٹولوں کی موجودگی ایک مستقل مصیبت اور خانہ جنگی کا سبب بن سکتی ہے۔
4۔ الجولانی سرکار نے مختلف ٹولوں اور تحریکوں ـ بشمول "قومی محاذ برائے آزادی"، "فری سیرین آرمی"، اور "اخوان المسلمین" ـ کو نظرانداز کر دیا ہے اور انہیں کلینی عہدوں سے دور رکھا ہے۔
5۔ الجولانی سرکار نے امریکی شرطوں اور اسرائیل کے دباؤ کے سامنے بہت جلد سر جھکا لیا ہے اور صہیونی ریاست کے تسلیم کرنے کے عمل میں بہت جلد شامل ہو گئی ہے۔
6۔ الجولانی نے خود ہی شامی فوج کی تحلیل کے ساتھ ہی الٹی بغاوت کا راستہ اپنا لیا ہے، وہ بھی ایسی فوج جو بشار الاسد حکومت کی وفادار نہيں رہی تھی اور الجولانی ٹولے کے خلاف لڑنے سے دستبردار ہوئی تھی۔ نیز الجولانی نے شام کی خفیہ ایجنسیوں کو تحلیل کیا اور اس کے ڈیڑھ لاکھ کارکنوں کو برخاست کر دیا۔ نیز اس نے 200 لاکھ سرکاری ملازمین کو "سابق حکومت سے وفاداری" کے بہانے نکال باہر کیا۔ یہ وہ اقدامات ہيں جنہیں الٹی بغاوت کا اہم سبب گرداننا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ حکومت سے وابستہ (ماہر) افراد بے روزگاری، بھوک اور افلاس اور معاشی مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں۔ موجودہ صورت حال بہرحال انہیں باغیوں کی موجودہ سرکار کے خلاف نئے مورچوں کی طرف راغب کر سکتی ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ الجولانی سرکار صرف چھ مہینوں سے برسراقتدار ہے اور اس کے پاس زیادہ فرصت اور وسائل نہیں تھے کہ ایک طاقتور فوج اور مستحکم سرکاری اداروں کوقائم کر سکے؛ تاہم یہ بھی ایک بہانے سوا کچھ نہیں ہے۔ "وقت" سیاسیات کی فیصلہ کن عنصر ہے اور فرض یہ ہے کہ بڑی مغربی طاقتیں اور صاحب ثروت علاقائی ریاستیں اس کی حمایت کرتی ہیں۔
شام اسلحے کا جنگل ہے اور ایک انتہائی گرم اور دھماکہ خیز ہے، جن لوگوں کو الجولانی کے گماشتوں نے سڑکوں پر گھسیٹا، بالخصوص فوجی اور سیکیورٹی اہل کاروں، نے اسلحہ تحویل میں نہیں دیا ہے، اور اسلحہ کے استعمال کے لئے تربیت کے محتاج نہیں بلکہ مکمل تربیت یافتہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سیکولرزم کی آغوش میں پلے ہیں، مذہبی اور قومی انتہاپسندی سے دور رہے ہیں، ان کی رگوں میں یہ اصول رچا بسا ہے کہ "اسرائیل دشمن ہے"، وہ فلسطین کی مکمل آزادی، صہیونی دشمن سے تعلقات کے عدم قیام کو شام کے قومی نظریئے کا اصول سمجھتے ہیں، اور یہ نظریہ باقی سارے نظریات پر فوقیت رکھتا ہے۔
نکتہ:
شاید مارکو روبیو کا انتباہ معتبر معلومات پر استوار ہو لیکن گوکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ امریکی اور اسرائیلی منصوبہ ہو اور ٹرمپ کا الجولانی سے محبت آمیز رویہ اس بات کی علامت ہو کہ خانہ جنگی کی صورت میں الجولانی کو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل رہے گی!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ