بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || چینی وزیر دفاع نے آج بروز جمعرات (18 ستمبر 2025) کو کہا کہ چین دوسری عالمی جنگ کے نتائج اور اس کے بعد کے نظام کے تحفظ کے لئے "تمام امن پسند قوتوں" کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔
چینی وزیر دفاع نے بیجنگ میں شیانگشان فورم برائے سلامتی کے افتتاحی اجلاس میں ایک ایسی دنیا کے بارے میں خبردار کیا جو تیزی سے تقسیم ہو رہی ہے اور اسے "جنگل کے قانون سے تعبیرکیا جاتا ہے۔"
انہوں نے کہا: "دنیا سرد جنگ کی سوچ، ہیجیمونزم اور تحفظ پسندی (Protectionism) سے متاثر ہے، اور غیر ملکی فوجی مداخلت، اثر و رسوخ کے دائروں کی تلاش اور دوسروں کو طرفداری پر مجبور کرنے کا موجودہ رویہ بین الاقوامی برادری کو انتشار سے دوچار کر رہا ہے۔"
چینی وزیر دفاع کے خیال میں، دنیا ایک اور "دو راہے" پر ہے اور اسے تصادم کے بجائے بات چیت کا انتخاب کرنا چاہئے۔
ڈونگ نے اس تقریر میں کئی بار بالواسطہ طور پر امریکی موقف کی مذمت کی، اگرچہ انھوں نے براہ راست اس ملک کا نام نہیں لیا۔
چینی وزیر دفاع نے کہا: "فوجی طاقت میں ممکنہ برتری کا جنون اور 'طاقت ہی حق ہے' کا نقطہ نظر ایک تقسیم شدہ دنیا کو جنم دے گا، جو کہ "جنگل کا قانون" اور "انتشار" کہلائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ چین کی مضبوط فوج دنیا میں امن کی طاقت ہوگی۔
چینی وزیر دفاع کا یہ بیان "بالادستی اور طاقت پر مبنی سیاست" کے خلاف چین کے صدر شی جن پنگ کی حالیہ تقاریر اور دارالحکومت بیجنگ میں اس ملک کی حالیہ فوجی پریڈ کے بعد سامنے آیا ہے۔
یہ بیانات چین اور امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے درمیان تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین سمیت دیگر مسائل پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے ساتھ ساتھ بیجنگ-ٹرمپ انتظامیہ کی محاصل کی جنگ کے موقع پر سامنے آئے ہیں۔
ڈونگ نے کہا کہ چین بین الاقوامی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی خاطر اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہے اور اس کی فوج تائیوان میں کسی بھی "علیحدگی پسند" کی کوشش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
انھوں نے کہا کہ "تائیوان کی چین کو واپسی جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے" اور یہ کہ "چین کسی بھی وقت غیر ملکی فوجی مداخلت کو روکنے کی مکمل آمادگی رکھتا ہے۔"
چین تائیوان کو اپنی سرزمین کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اور اس نے بارہا مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کو جزیرے کے معاملات میں مداخلت سے خبردار کیا ہے۔
چین کی سرکاری شنہوا نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ بیجنگ میں تین روزہ شیانگشان فورم میں 100 ممالک کے تقریباً 1800 مندوبین بشمول فوجی اہلکار شرکت کر رہے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق، "زیادہ تر مغربی ممالک نے نسبتاً کم درجے کے سفارتی نمائندے فورم پر بھیجے ہیں، اور کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی مندوبین چین کی جاری فوجی ترتیب اور مبہم فوجی قیادت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے درپے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ