5 دسمبر 2025 - 22:16

مفاتیح الجنان میں منقولہ مرثیوں کے ایک حصے میں، جناب اُم البنین (سلام اللہ علیہا) واقعۂ کربلا میں اپنے چار جواں سال بیٹوں ـ عباس بن علی، جعفر بن علی، عثمان بن علی اور عبداللہ بن علی (علیہم السلام) ـ کی شہادت کا دکھ بھرا مرثیہ مندرج ہے؛ [۔۔۔]

مفاتیح الجنان میں منقولہ مرثیوں کے ایک حصے میں، جناب اُم البنین (سلام اللہ علیہا) واقعۂ کربلا میں اپنے چار جواں سال بیٹوں ـ عباس بن علی، جعفر بن علی، عثمان بن علی اور عبداللہ بن علی (علیہم السلام) ـ کی شہادت کا دکھ بھرا مرثیہ مندرج ہے؛ یہ مرثیہ حضرت عباس (علیہ السلام) کی مظلومیت اور اولاد حیدر (علیہ السلام) کی بے مثال شجاعت کو جنگ اور شہادت کی دل دہلا دینی والی تصویر کشی کے ساتھ بیان کرتی ہے اور ایک دکھی ماں کے غم کی گہرائی کو عیاں کر دیتی ہیں:

يَا مَنْ رَأَي الْعَبَّاسَ كَرَّ عَلَي جَمَاهِيرِ النَّقَدِ

اے وہ جس نے عباس کو وہ پست فطرت کمینوں کے گروہوں پر حملہ کرتا دیکھا ہے

وَ وَرَاهُ مِنْ أَبْنَاءِ حَيْدَرَ كُلُّ لَيْثٍ ذِي لَبَدٍ

جبکہ اس کی پشت پر حیدر کی اولاد میں سے ہر بہادر شیر ہوتا تھا

أُنْبِئْتُ أَنَّ ابْنِي أُصِيبَ بِرَأْسِهِ مَقْطُوعَ يَدٍ

مجھے خبر پہنچی کہ میرے بیٹے کے سر پر ضرب لگی حالانکہ اس کا ہاتھ کٹا ہؤا تھا

وَيْلِي عَلَي شِبْلِي أَمَالَ بِرَأْسِهِ ضَرْبُ الْعَمَدِ

افسوس ہے میرے شیر کے بچے پر کہ جس کے سر کو عمود (لاٹھی) کے وار نے مائل کر دیا تھا

لَوْ كَانَ سَيْفُكَ فِي يَدِيْكَ لَمَا دَنَا مِنْهُ أَحَدٌ

واى بر تو مرا ديگر مادر پسران مخوان كه مرا به ياد شيران بيشه‌ ام می ‌اندازى

اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو یقینا ان میں سے کوئی بھی تیرے قریب آنے کی جرات نہ کرتا

لا تَدْعُوِنِّي وَيْكِ أُمَّ الْبَنِينَ تُذَكِّرِينِي بِلِيُوثِ الْعَرِينِ

وائے ہو تم پر، مجھے مزید ام البنین (بیٹوں کی ماں) مت کہنا، کہ تم مجھے جنگل کے شیروں کی یاد دلا رہی ہو

كَانَتْ بَنُونَ لِي أُدْعَى بِهِمْ وَ الْيَوْمَ أَصْبَحْتُ وَ لا مِنْ بَنِينَ

میرے کچھ بیٹے تھے جن کی خاطر مجھے اُم البنین (بیٹوں کی ماں) کہا جاتا تھا لیکن آج میرا کوئی بیٹا نہیں ہے

أَرْبَعَةٌ مِثْلُ نُسُورِ الرُّبَى قَدْ وَاصَلُوا الْمَوْتَ بِقَطْعِ الْوَتِينِ

چار بیٹے جو پہاڑی عقابوں کی طرح تھے اور یکے بعد دیگرے، رگ حیات کٹنے کی وجہ سے موت کو گلے لگا گئے

تَنَازَعَ الْخِرْصَانُ أَشْلاءَهُمْ فَكُلُّهُمْ أَمْسَى صَرِيعا طَعِينَ

ان کی لاشوں پر نیزے آپس میں جھگڑ پڑے اور وہ سب نیزوں کے زخموں سے خاک پر گر پڑے

يَا لَيْتَ شِعْرِي أَ كَمَا أَخْبَرُوا بِأَنَّ عَبَّاسا قَطِيعُ الْيَمِينِ

کاش! میں جانتی کہ ـ جیسا کہ مجھے خبر دی گئی ہے، ـ کیا میرے عباس کا دایاں ہاتھ واقعی کٹا ہؤا تھا؟!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha