18 دسمبر 2025 - 23:57
غزہ میں صہیونی جرائم کے عالمی اثرات؛ صہیونیت سے نفرت کی لہر اور سڈنی کا المناک واقعہ + ایک سوال

دنیا میں کسی کو بھی شک نہیں ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد سے، غزہ میں اسرائیلی ریاست کی مجرمانہ پالیسیوں کے خلاف عالمی نفرت میں اضافہ ہؤا ہے، کیونکہ ان صہیونی پالیسیوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہری قتل ہوئے ہیں، اور اسی صورت حال میں ہی سڈنی میں یہودیوں پر دہشت گرد حملے جیسے واقعات کی راہ ہموار ہوئی ہے؛ جبکہ یہودیت کو آسمانی مذہب کے طور پر احترام حاصل ہے اور دنیا کے بہت سے یہودی صہیونیت کے مخالف ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | سوموار 14 دسمبر 2025 کی رپورٹوں کے مطابق؛ آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے مشہور بانڈی بیچ پر ایک المناک دہشت گرد واقعہ پیش آیا جس میں دو مسلح افراد نے 'حنوکاہ' (یا 'حانوکاہ' نامی یہودی تہوار) کے جشن میں شریک افراد پر فائرنگ کردی۔

یہ حملہ، ـ جسے پولیس نے آسٹریلیائی یہودی برادری کے خلاف ایک ٹارگیٹڈ دہشت گرد عمل کے طور پر درجہ بند کیا ہے، ـ کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے۔

متاثرین میں بے گناہ افراد ـ بشمول بچے، خواتین اور بزرگ بھی ـ شامل تھے جو حنوکاہ کے پہلے دن کے جشن کے لئے جمع ہوئے تھے۔ یہ واقعہ آسٹریلیا کی حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز مسلح حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس نے پوری دنیا میں صدمے اور غم کی لہر دوڑا دی۔

پیامدهای جنایات غزه؛ موج نفرت از صهیونیسم و حادثه تلخ سیدنی

صہیونیت سے نفرت کی لہر اور سڈنی کا المناک واقعہ

سب سے پہلے اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ یہودیوں کو ایک آسمانی مذہب کے پیروکاروں کے طور پر ہمیشہ احترام حاصل رہا ہے اور ان کا صہیونی ریاست کی سیاسی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہودیت ایک الٰہی مذہب ہے، جو سیاسی صہیونیت سے بالکل الگ ہے جو مذہب نہیں بلکہ ایک 'استعماری اور نسل پرستانہ سیاسی نظریہ' سمجھا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے بہت سے آرتھوڈوکس یہودی اور صہیونیت مخالف گروپ، ـ بشمول نیطوری کارتا (Neturei Karta) اور صہیونیت مخالف یہودی، ـ اسرائیلی ریاست کے قیام اور اس کی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور انہیں توریت کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ بنیادی تفریق اس واقعے کو صحیح طور پر سمجھنے کی کنجی ہے۔ صہیونی ریاست کے بہیمانہ اقدامات سڈنی میں بے گناہ یہودیوں پر حملے کا جواز نہیں بن سکتے، اور اس کو مغرب میں رائج حقیقی یہود دشمنی کے ساتھ خلط ملط بھی نہیں ہونا چاہئے۔

دوسری طرف، 7 اکتوبر 2023 (15 مہر 1402) کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، پوری دنیا میں اسرائیلی ریاست کی پالیسیوں کے خلاف نفرت کی ایک وسیع لہر اٹھی۔ یہ نفرت یہودیوں کے خلاف نہیں بلکہ اس حکومت کے غزہ پٹی میں وسیع پیمانے پر جرائم کے خلاف تھی جو دو سال اور چند مہینوں سے ـ ٹرمپ کے نام نہاد امن منصوبے کے بعد بھی ـ جاری ہیں اور جن کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں افراد شہید اور زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں، اور بنیادی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔

اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں نے ان اقدامات کو جنگی جرائم اور یہاں تک کہ نسل کشی قرار دیا ہے۔ یورپی ممالک، امریکہ اور یہاں تک کہ آسٹریلیا میں ان جرائم کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور رائے عامہ واضح طور پر صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف ہوگئی۔

ادھر آسٹریلوی یہودی انتظامی کونسل کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد سے یہود مخالف واقعات میں نمایاں اضافہ ہؤا ہے، لیکن اس اضافے کا زیادہ تر تعلق غزہ کے جرائم پر غصے سے بتایا جاتا ہے۔

سڈنی میں اس دہشت گرد واقعے کو اس تہہ در تہہ جمع ہونے والے غصے کا براہ راست نتیجہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ غزہ میں صہیونی ریاست کے جرائم، جن میں اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں پر جان بوجھ کر بمباریاں بھی شامل ہیں، نے پوری دنیا میں پریشان کن تصاویر کی اشاعت کے اسباب فراہم کئے ہیں اور تمام تر انسانوں کے جذبات کو مجروح کر دیا ہے۔

پیامدهای جنایات غزه؛ موج نفرت از صهیونیسم و حادثه تلخ سیدنی

صہیونیت سے نفرت کی لہر اور سڈنی کا المناک واقعہ

ڈیجیٹل میڈیا اور ورچوئل اسپیس کے اس دور میں کوئی جرم پوشیدہ نہیں رہتا۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد، براہ راست ویڈیوز اور رپورٹوں کے ذریعے، غزہ کے بچوں کے قتل عام، انسانی محاصرے اور منظم نسل کشی کے عینی شاہد رہے ہیں۔ اس شفافیت کی وجہ سے اسرائیلی ریاست کا مظلومیت کا ڈرامہ اب کارگر نہیں رہا؛ زمانہ بدل گیا اور آج کے زمانے میں مزید ہر تنقید کو یہود دشمنی سے جوڑنے کی کوشش کامیابی نہیں ہؤا کرتی اور غزہ میں ہونے والے صریح جرائم کا جواز نہیں فراہم کرسکتی۔

اس اثناء میں، کچھ اسرائیلی اور مغربی عہدیداروں نے فوراً ہی لبنان کی حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران پر انگلی اٹھا کر یہ دعویٰ کیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حملہ ان کی حمایت سے کیا گیا ہو؛ لیکن یہ الزامات، شواہد پر مبنی ہونے کے بجائے، صریح الزام تراشی اور حقائق سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔

صہیونیت سے نفرت کی لہر اور سڈنی کا المناک واقعہ

اس واقعے کا الزام ایران یا حزب اللہ پر لگانا، عوام کا دھیان اس حقیقی مسئلے کی جڑ یعنی صہیونی ریاست کے جرائم سے ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے؛ کیونکہ پوری دنیا غزہ میں روزانہ ہونے والے قتل عام کو براہ راست دیکھ رہی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے بھونڈے الزامات فلسطینیوں پر جبر و تسلط جاری رکھنے کے لئے بہانہ بنانے کی غرض سے لگائے جاتے ہیں۔

حقیقی اور مذہبی یہودی، جو صہیونیت کے خلاف ہیں، خود ان انتہاپسندانہ پالیسیوں اور جبر و تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور یہاں تک کہ اسرائیل میں صہیونیت مخالف یہودی گروپوں نے بارہا کہا ہے کہ اسرائیل نامی ریاست کے قیام اور نیتن یاہو جیسے سفاک نفسیاتی مریضوں کے وحشیانہ اقدامات نے پوری دنیا میں یہودیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

وہ اس باتپر زور دیتے ہیں کہ "یہودیت امن اور انصاف کا مذہب ہے اور صہیونیت نے اسے استعمار کا اوزار بنا دیا ہے۔" سڈنی کے اس دردناک واقعے کو تناؤ بڑھانے اور دوسروں کے خلاف دھمکیوں کے بہانے کے طور پر نہیں بلکہ تشدد کی حقیقی جڑوں پر غور کرنے کے لئے ایک ـ تلخ مگر مناسب ـ موقع کے طور پر بروئے کار لانا چاہئے۔

یہ واقعہ سب کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے اور وہ یہ کہ "تشدد، تشدد کو جنم دیتا ہے اور جب تک فلسطین میں انصاف قائم نہیں ہوتا، ایسے واقعات دہرائے بھی جا سکتے ہیں۔"

صہیونیت سے نفرت کی لہر اور سڈنی کا المناک واقعہ

آسٹریلوی ذرائع کی سرکاری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے ميں ملوث دو افراد ـ ساجد اکرم اور نوید اکرم ـ باپ بیٹا ہیں، جو داعش کی انتہا پسندانہ سوچ سے متاثر تھے۔ ان کی گاڑی میں، جو موقع کے قریب کھڑی تھی، داعش کے سیاہ جھنڈے ملے ہیں اور حملہ آوروں کی ایک ویڈیو بھی ملی ہے جو حملے کے دوران ان کے اقدامات کو عیاں کرتی ہے۔

پیامدهای جنایات غزه؛ موج نفرت از صهیونیسم و حادثه تلخ سیدنی

آسٹریلوی سکیورٹی ادارے پہلے ہی نوید اکرم پر ـ سڈنی میں ایک داعشی دہشت گرد عنصر سے قریبی تعلق کی وجہ سے ـ نظر رکھے ہوئے تھے، اور موجودہ تحقیقات اس بات پر مرکوز ہیں کہ آیا انہوں نے اس تکفیری گروپ سے بیعت کی تھی یا نہیں؟!

یہ تفصیلات حملے کی نظریاتی اور دہشت گردانہ نوعیت کو اور بھی واضح کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ اس کی جذباتی بنیاد تکفیری انتہا پسندی ہے نہ کہ دیگر مسائل میں۔

ایک سوال:

تجزیہ کاروں نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا ہے کہ کیا صہیونی ریاست نے اپنی عالمی رسوائی چھپانے اور اپنی مظلومیت کا پرانا [جھوٹا] بیانیہ دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ان چند یہودیوں کو بھینٹ نہیں چڑھایا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha