بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا ـ کے مطابق، انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے آج شام صدر اور کابینہ سے ملاقات میں قومی طاقت اور عظمت کے اسباب و عوامل کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے 'عوامی معیشت' کو ملک کے اہم ترین مسائل میں سے ایک قرار دیا۔ بازار میں نظم و ضبط کے لئے سنجیدہ اقدامات اور قیمتوں کی بے قاعدگی میں اضافے کے حوالے سے عوام کی پریشانیوں کے حل پر زور دیتے ہوئے یہ تجاویز پیش کیں: "'کام اور کوشش اور امید کے ماحول' کو 'نہ جنگ نہ امن کی کیفیت' پر سے نکالنا، 'پیداوار کو مضبوط بنانا'، 'فیصلوں پر نتائج حاصل ہونے تک عملدرآمد'، 'اہم کاموں کے لئے موجودہ موقع سے مفاہومت سازی لئے فائدہ اٹھانا'، 'ہاؤسنگ کے مسئلے کا حل'، 'اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز' خاص طور پر سرکاری اداروں میں، اور 'ذمہ داوں اور اہل قلم و بیان کا ملک اور معاشرے کے حقیقی طاقتور اور امید افزا پہلوؤں کی تشہیر' پر توجہ دینا۔"
آپ نے غزہ میں صہیونی ریاست کے حیرت انگیز جرائم اور تباہ کاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "اس صورت حال سے نمٹنے کا طریقہ احتجاج کرنے والے ممالک ـ خاص طور پر اسلامی ممالک کو ـ اس ریاست کے ساتھ تجارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنا ہے۔"
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے صدر، ملکی عہدیداروں، منتظمین اور سرکاری اداروں کے فعال عملے ـ خاص طور پر 12 روزہ جنگ کی حقیقی آزمائش میں قربانیاں دینے والے اداروں ـ کا شکریہ ادا کیا؛ اور صدر کی 'ہمت و حوصلے'، 'جذبے' اور 'محنت' کی تعریف کی اور فرمایا: "جناب پزشکیان کا چین کا بہت اچھا دورہ اقتصادی-سیاسی اور امکانات پیدا ہونے کا سبب بنا ہے، ان مفید نتائج کی پیروی کی ضرورت ہے"۔
آپ نے سرکاری اہلکاروں اہل قلم و بیان کو 'ملک کی طاقت، قوت اور وسیع امکانات کی تشہیر' اور 'کمزوری اور بے بسیوں پر ارتکاز سے پرہیز' کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: "ملکی ذمہ داروں اور اہل قلم و بیان کے ساتھ ساتھ، پریس اور میڈیا اور آئی آر آئی بی کی بھی اس سلسلے میں ذمہ داریاں ہیں۔"
رہبر انقلاب نے اس ملاقات اس ملاقات میں، صدر کے خطاب کو 'طاقت، امید اور صلاحیت کی روایت' کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا: "ہمت، رغبت، عزم اور مضبوط جذبہ خواہشات اور اهداف کی تکمیل کی بنیاد ہے۔"
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے عوام کی خدمت کے گذرتے ہوئے ہر لمحے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "اگر ہم خدمت کے مواقع کی قدر کریں اور سستے اور متوازی کاموں سے پرہیز کرتے ہوئے غیر متعلقہ مسائل میں مصروف نہ ہوں، تو مسائل طویل مدت میں نہیں بلکہ درمیانی مدت میں ضرور حل ہو جائیں گے۔
آپ نے اقتصاد اور عوامی معیشت کے میدان میں میں زیادہ سنجیدہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا: "مسائل کے حل کے لئے بیرونی تبدیلیوں کا انتظار نہیں کرنا چاہئے؛ ہر شخص ضرور بضرور اپنی ذمہ داری پوری کرے، لیکن ہمت، عزم و امید اور محنت و کوشش کے حوصلے کے ساتھ 'نہ جنگ نہ امن' کی کیفیت پر غلبہ پانا ہوگا جسے دشمن ہمارے اوپر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ کیفیت ملک کے لئے نقصان دہ اور خطرناک ہے۔"
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے قومی طاقت اور قومی عزت تشکیل دینے والے تمام اجزاء اور عوامل کو مضبوط بنانے کو حکومتوں کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا: "ان عوامل میں سب سے اہم قوم کا جذبہ، عزم، یکجہتی اور امید ہے، جنہیں قول و عمل سے پیدا اور مضبوط کرنا ضروری ہے اور انہیں کمزور ہونے سے بچانا چاہئے۔"
کاموں کی درست ترجیح بندی پر توجہ دینے کی ضرورت کابینہ کے لئے رہبر انقلاب کی اور ہدایت تھی۔ آپ نے فرمایا: "ترجیحات کا تعین انتظام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، جس میں 'فوری نوعیت' اور 'بنیادی ڈھانچہ ہونے' کے دو عوامل پر توجہ دینا چاہئے۔"
رہبر انقلاب نے اسلامی اهداف، تعلیمات اور شرائع کی تکمیل کو نظام اسلامی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: "امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے پہلے دن سے یہی اصول پیش اپنائے تھے، اور اگر کوئی کچھ اور اور کہتا ہے، تو یہ غلط ہے۔"
آپ نے نتائج تک فیصلوں کی مسلسل پیروی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا: "صدر محترم صوبائی دوروں، وزارت خانوں کے دوروں اور عوام و منتظمین سے قریبی رابطے سے اس مہم کو عملی شکل دے رہے ہیں، لیکن یہ جذبہ وسطی اور نچلی سطح کے منتظمین میں بھی پیدا ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ فیصلے انتظامی مراتب میں کمزور پڑتے چلے جائیں اور عملی نفاذ تک پہنچتے پہنچتے ان فیصلوں کا کوئی اثر تک بھی باقی نہ رہے۔"
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے ملک میں اجماع سازی اور مفاہمت سازی (Consensus building) کے موجودہ امکان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "تینوں قوتوں (انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ) کے سربراہان کی یک دلی، تعاون اور ہم آہنگی قابل تحسین و تعریف ہے، لیکن فیصلہ ساز اور فیصلہ کن حصوں کو بھی اس عمل میں کردار ادا کرنا چاہئے۔"
آپ نے فرمایا: "مختلف رجحانات کے باوجود ملک میں اجماع سازی کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ ہیں؛ ان مواقع کو اہم کاموں کے لیے استعمال کرنا چاہئے، جن میں حکومتی ڈھانچے کو ہلکا کرنا اور ان اداروں کی تعداد کم کرنا شامل ہے جن کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
صدر اور کابینہ سے رہبر انقلاب کے خطاب کا تکمیلی حصہ: ملک کے اہم مسئلے یعنی 'معیشت' کے بارے میں کچھ تجاویز
آپ کی پہلی ہدایت 'پیداوار اور پیداواری یونٹوں کی بحالی پر توجہ دینے' سے متعلق تھی۔
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا: "وہ تمام افراد جو معاشی مسئلے کو حقیقی اور عملی طور پر سمجھتے ہیں، اس پر متفق ہیں کہ پیداوار ایران کی معاشی ترقی کی کلید ہے؛ لہٰذا پیداوار پر خاص توجہ دی جانی چاہئے، حتیٰ کہ ان یونٹوں کی بجلی ـ ہنگامی حالات کے سوا ـ منقطع نہ کی جائے۔
'بنیادی اشیاء کی بروقت اور مکمل فراہمی' انتظامی عہدیداروں کے لئے رہبر معظم کی ایک ہدایت تھی۔
آّپ نے فرمایا: "بنیادی اشیاء کے ذخائر کو مکمل طور پر قابل اعتماد ہونا چاہئے؛ یہ کام منافع خوروں کی منافع پرستی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مہنگائیوں کے خاتمے کا سبب بنتا ہے اور عوام کے دسترخوان پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور غذائی خطرات کو بھی ختم کر دیتا ہے۔"
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے بعض بنیادی اشیاء کی درآمدات کے انحصار پر تنقید کرتے ہوئے اس عمل کو ملکی عہدیداروں کا ہاتھ باندھنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا: "بنیادی اشیاء کی درآمد اور اس کے نگرانوں کو مسابقتی بنائیں اور اشیاء کو مختلف ذرائع سے حاصل کریں، کیونکہ بعض ماہرین کے مطابق یہ اقدام غیرملکی کرنسی میں خریداریوں کی قیمت نیز ملک کے اندر ان کی ریالی قیمتیں گرنے کا سبب بنتا ہے۔"
رہبر انقلاب نے ایک بار پھر عوامی معیشت کے اہم مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے فرمایا: "عوامی معیشت کے معاملے میں اس طرح سے عمل کریں کہ عوام تقریباً دس بنیادی اشیاء کو قیمتوں میں اضافے کی فکرمندی کے بغیر حاصل کر سکیں، نہ کہ یہ کہ قیمتیں کل آج کے مقابلے میں، دو گنا ہوجائیں۔"
آپ نے بعض معاشی مسائل سے آگاہ افراد کے حوالے سے، فرمایا کہ "راشن کارڈ عوام کے لئے دس بنیادی اشیاء تک بلا تشویش رسائی کے ذرائع میں سے ایک ہے۔"
'مارکیٹ میں نظم و ضبط' ایک اور نکتہ تھا جس پر رہبر انقلاب نے زور دیا اور فرمایا: "مارکیٹ کا اس طرح سے انتظام کریں کہ عوام کو یہ محسوس نہ ہو کہ مارکیٹ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور قیمتیں 'آج اور کل' اور 'یہاں اور وہاں' مختلف ہیں، کیونکہ یہ احساس عوام کے حوصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔"
آپ نے 'سردیوں کے لئے گیس کے ضروری ذخائر' اور 'درآمدی ذریعے سے گیس کی کمی پوری کرنے کی منصوبہ بندی' پر توجہ دینے کی ضرورت زور دیتے ہوئے رہائش کے مسئلے کو بھی توجہ دی اور فرمایا: "ایک اور تجویز ہاؤسنگ کے مسئلہ پر توجہ دینے سے متعلق ہے، جس کے لئے مسئلے کے جزوی حل کے حوالے سے کچھ تجاویز موجود ہیں جنہیں ذمہ دار اہلکاروں کو نتائج کے حصول تک جاری رکھنا چاہئے۔"
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے تیل کی پیداوار میں کمی کا سبب بننے والے عوامل جیسے فرسودہ طریقے اور وسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مسائل کے حل اور تیل نکالنے اور پیداوار میں تبدیلی کے لئے نوجوان تعلیم یافتہ افراد کی دانش سے استفادہ کریں۔ نیز، تیل کی برآمدات کے شعبے میں مزید نقل و حرکت کی ضرورت ہے اور تیل کے صارفین کو متنوع اور متعدد ہونا چاہئے۔"
آپ نے "کھپت پر قابو پانے اور اسراف سے اجتناب" کو ضروری قرار دیا اور ملک کے وسائل کے ایک بڑے حصے کے سرکاری شعبے میں ضائع ہونے کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "پانی، بجلی، گیس اور سرکاری عمارتوں کے شعبوں میں اسراف موجود ہے۔ نیز غیر ضروری دوروں یا ضرورت سے زیادہ ساتھیوں یا مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے میدان میں فضول خرچی کی جارہی ہے جس کی روک تھام ضروری ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ملعون صہیونیوں کے ہاتھوں ہونے والے بے شمار جرائم اور حیران کن تباہ کاریوں کا تذکرہ کیا ـ جن کا وہ کسی شرم و حیاء کے بغیر، ارتکاب کر رہے ہیں ـ اور فرمایا: "اگرچہ یہ جرائم امریکہ جیسی طاقت کی حمایت سے کئے جا رہے ہیں، لیکن اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کا راستہ بند نہیں ہے، راستہ یہ ہے کہ احتجاج کرنے والے ممالک ـ خاص طور پر اسلامی ممالک کو ـ غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ تجارتی، حتی کہ سیاسی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر دیں۔ اور اس کو بالکل الگ تھلگ اور تنہا کر دیا۔"
آپ نے صہیودی ریاست کو دنیا کی سب سے الگ تھلگ اور قابل نفرت ریاست قرار دیا اورفرمایا: "ہماری سفارت کاری کے اہم خطوط میں سے ایک یہ بھی ہونا چاہئے کہ حکومتوں کو اس جرائم پیشہ ریاست کے ساتھ تجارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے کی ترغیب دی جائے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ