اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے آج
بدھ (30 اکتوبر 2024ع) کی شام کو، سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے پہلا خطاب کرتے ہوئے
شہید سید ہاشم صفی الدین اور شہید یحییٰ السنوار کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا
اور کہا: شہید سید ہاشم صفی الدین ان اہم ترین افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے محاذ
مقاومت کی ضروریات کی تکمیل کی کوششیں کیں اور شہید سید حسن نصراللہ ان پر انحصار و
اعتماد کرتے تھے۔
انھوں نے کہا:
یحییٰ السنوار فلسطینی مقاومت اور احرار عالم کی مقاومت اور دلیری کی علامت ہیں، جو
آخری سانس تک شجاعت کے ساتھ کھڑے رہے اور جہاد کیا۔
شیخ نعیم قاسم
نے کہا: میں حزب اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے نئے سیکریٹری جنرل کے
طور پر اعتماد کا ووٹ دیا، "یہ امانت سید عباس الموسوی (رضوان اللہ علیہ) کی امانت ہے کہ جنہوں نے ہم
سے کہا کہ اصل اور بنیادی وصیت مقاومت کو محفوظ رکھنا ہے"۔
حزب اللہ کے
سیکریٹری جنرل نے کہا: یہ امانت، عظيم قائد سید حسن نصراللہ کی امانت ہے کہ جب سید
عباس الموسوی شہید ہوئے تو انھوں نے کہا: دشمن ہمارے سیکریٹری جنرل کو شہید کرکے ہمارے
اندر ثابت قدمی اور استقامت کا حوصلہ مار دینا چاہتا تھا اور ہمارے جہاد کا عزم توڑ
دینا چاہتا تھا لیکن ان کا خون ہماری رگوں میں جاری ہے اور وہ [خون] ہمارے عزم و ارادے
کو یہ مشن جاری رکھنے کے لئے مزید پختہ اور مستحکم کرے گا۔
شہید سید حسن
نصر اللہ کے تمام پروگراموں کو جاری رکھیں گے
شیخ نعیم قاسم
نے کہا: میرا لائحۂ عمل تمام سیاسی، جہادی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں ہمارے قائد شہید
سید حسن نصراللہ کے منصوبوں کو جاری رکھنا ہے۔ ہم جنگ کے اس منصوبے پر عمل درآمد
جاری رکھیں گے جس کو شہید سید حسن نصراللہ اور اور مقاومت کے راہنماؤں نے وضع کیا
ہے . ہم متعینہ سیاسی طرز عمل کے ساتھ جنگ
کے راستے پر گامزن رہیں گے۔
انھوں نے اعلان کیا: غزہ کی حمایت اسرائیلی خطرے سے نمٹنے کے لئے واجب تھی اور سب کو غزہ کے عوام کی مدد کرنا چاہئے۔ ہماری مقاومت قابضین اور ان کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف جدوجہد کی بنیاد پر سرزمین کی آزادی کے مقصد سے معرض وجود میں آئی ہے۔
قراردادیں نہیں بلکہ صرف محاذ مقاومت ہی اسرائیل کو مار بھگا سکتا ہے
شیخ نعیم قاسم نے کہا: کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اسرائیل کو اکسایا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کو کسی بہانے کی ضرورت ہے؟! اور کیا 75 سالہ قتل عام، بے وطنی، سرزمین اور مقدسات کی چوری اور بے انتہا جرائم کو بھول چکے ہیں؟! اسرائیل کو اپنی جارحیتوں کے لئے بہانے کی ضرورت نہیں ہے اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ بین الاقوامی قراردادیں اسرائیلی دشمن کو سرزمین لبنان سے بے دخل نہیں کر سکیں ہیں، بلکہ مقاومت ہی تھی جس نے انہیں مار بھگایا ہے۔
انھوں نے کہا:
صہیونی ریاست نے 39 ہزار مرتبہ لبنان کی فضائی اور بحری حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔
طوفان الاقصی [کے آغاز] سے چند ہی روز بعد امریکہ اور صہیونی ریاست کے درمیان حزب
اللہ پر حملے کے مسئلے پر سنجیدہ بحث و مباحثے انجام پائے۔ ہم مقاومت کے ذریعے
اسرائیل کے منصوبوں کو ناکارہ بناتے ہیں اور یہ کام کرنے پر قادر ہیں۔ نیتن یاہو
نے جب لبنان پر جارحیت کا آغاز کیا تو کہا: "یہ جارحیت نئے مشرق وسطیٰ کے
قیام کے لئے ہے"، ہم نے کئی ناگہانی منصوبوں کو ناکام بنایا۔
دشمن دنیا کے
تمام وسائل کو بروئے کار لا کر مقاومت کو فنا کرنا چاہتا ہے
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا: آج ہمیں لبنان اور پورے خطے میں اسرائیل، امریکہ اور مغرب کے بڑے منصوبے کا سامنا ہے۔ اس جنگ میں وہ دنیا کے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ مقاومت کی بیخ کنی کر دیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں تاکہ وہ ہمارے مستقبل کو اپنے قابو میں لا سکیں۔ یہ جنگ صہیونی، امریکی، یورپی اور عالمی جنگ ہے تاکہ مقاومت کو اس خطے میں فنا کر دیں۔ ہم سے مت پوچھو کہ ہم نے غزہ کی مدد کیوں کی، دوسروں سے پوچھو کہ انہوں نے غزہ کی مدد کیوں نہیں کی؟
ان کا کہنا تھا: ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم جنگ نہیں
چاہتے، جیسا کہ ہمارے سید شہید نے بھی زور دے کر کہا تھا۔ لیکن ایک جنگ ہم پر مسلط
کی گئی ہے تو ہم عزت و ہمت کے ساتھ لڑیں گے۔ اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو فتح یابی
کے لئے تیار ہیں۔
ایران لبنانی
مقاومت کا حامی ہے
شیخ نعیم قاسم
نے مزید کہا: ہم کسی نیابت میں نہیں لڑ رہے ہیں [اور کسی کے پراکسی نہیں ہیں]،
بلکہ لبنان کی حفاظت اور اپنی سرزمین کی آزادی اور غزہ کی پشت پناہی کے لئے لڑ رہے
ہیں۔ ایران ہمارے منصوبوں میں ہماری مدد کرتا ہے اور ہم سے کچھ بھی نہیں چاہتا۔ ہم
ہر اس عرب ملک کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں جو اسرائیل کے مقابلے میں ہماری حمایت کرے،
ہم امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ الشَّریف) پر درود و سلام بھیجتے ہیں جنہوں نے
فلسطینی مٹی کے مالکین کی خاطر اسرائیل کی نابودی کا منصوبہ شروع کیا۔ امام خمینی نے
دلیری اور شجاعت کے ساتھ یہ پرچم سنبھالا اور مجاہدوں کی ہر طرح کی حمایت کی۔
انھوں نے کہا:
ایران خود جانتا ہے کہ وہ مقاومت کی حمایت کے لئے کیا قیمت ادا کر رہا ہے۔ اس ملک
نے شہید لیفٹننٹ جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے اس طرح سے مدد کی جو کسی نے نہیں کی
تھی۔ ہم اپنی سرزمین میں لڑتے ہیں اور اپنی سرزمین کو آزاد کر دیتے ہیں، کوئی ہم
سے کچھ نہیں مانگتا اور ہمیں کسی کام کا پابند نہیں بناتا۔
شیخ نعیم قاسم
نے مزید کہا: ایران کے ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑتا بلکہ ہمارے اقدامات کی حمایت
کرتا ہے اور اس کے بدلے کچھ بھی نہیں چاہتا۔ جو بھی عرب یا غیر عرب ہماری حمایت
کرے، ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔ یمن اور عراق میں حامی محاذوں کا شکریہ ادا کرتے
ہیں۔
حزب اللہ نے اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو بحال کر
لیا ہے
انھوں نے کہا:
پیجرز اور وائرلیس سیٹوں [کے ذریعے ہونے والی صہیونی دہشت گردی] کے مسئلے میں 4000
لبنانیوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں ہماری فورسز کے افراد اور عام شہری شامل
تھے۔ لیکن حزب اللہ نے فوری طور پر اپنے
آپ کو یکجہتی اور ہم آہنگی کے مرحلے میں پہنچایا اور یہ حقیقت میدان جنگ کے حالات
سے ثابت ہو رہی ہے۔ حزب اللہ کی صلاحیتیں بہت وسیع ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے
سیکریٹری جنرل نے کہا: زمینی حقائق سے ثابت ہؤا ہے کہ حزب اللہ نے حملوں سے پہنچنے
والے نقصانات کا ازالہ کر چکی
ہے کیونکہ یہ ایک عظیم اور مربوط اور بے پناہ وسائل کی مالک تنظیم ہے۔
حزب اللہ طویل
المدت جنگ کے لئے تیار ہے
شیخ نعیم قاسم
نے کہا: حزب اللہ کو حقیقی جہادی تحربہ حاصل ہے اور ہر سال نئے تجربات سے گذر کر
زیادہ پختہ اور طاقتور ہو چکی ہے۔ حزب اللہ کے پاس اپنے وسائل ہیں اور یہ وسائل
ایک طویل مدتی جنگ کے لئے کافی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے سید نے کہا تھا ہم جنگ کے منتظر
ہیں۔ دشمن خوفزدہ ہو چکا ہے اور وہ اپنے موقف اور اہداف کو مسلسل بدل رہا ہے۔ مقاومت
کے آپریشن روم نے دشمن کو پہنچنے والے نقصانات کی فہرست تیار کر لی ہے۔
ہمارا ڈرون نیتن
یاہو کے بیڈروم تک پہنچ گیا
انھوں نے کہا: دشمنوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ
ہمارے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے مقابلے میں بے بس ہیں۔ میزائل اور ڈرون حملے
ایک باریک بینانہ میدانی منصوبے کے تحت انجام پاتے ہیں۔ دشمن کو جان لینا چاہئے کہ
لبنان کی بستیوں اور شہروں پر اس کے حملے ہماری پسپائی کا باعث نہیں بنتے۔ مقاومت
طاقتور ہے یہاں تک کہ اس نے کامیابی کے ساتھ اپنا ڈرون نیتن یاہو کے بیڈروم تک
پہنچایا ہے۔ نیتن اس بار بچ گیا شاید اس لئے کہ اس کی اجل ابھی نہیں آئی تھی۔ ہم دشمن کو صدمہ پہنچاتے
رہیں گے۔ بنیامینا فوجی اڈے پر ہمارا حملہ اس مدعا کو عیاں کر رہا ہے نیز حیفا اور
عکا پر پمارے حملے بھی اسی حقیقت کا ثبوت ہیں۔
پرعزم اور استوار انسانوں
کی جنگ
شیخ نعیم قاسم نے کہا: ہم
نے فیصلہ کیا ہے کہ اس جنگ کو "استوار انسانوں کی جنگ" کا نام دیں۔ ہم
اسرائیل کے فوجی اڈوں کو نشانہ بناتے ہیں حالانکہ دشمن ہمارے عام شہریوں اور شہری
ڈھانچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
انھوں نے صہیونی
ریاست سے مخاطب ہوکر کہا: تم ضرور بضرور شکست کھاؤگے، کیونکہ یہ زمین ہماری ہے اور
ہماری قوم ہمارے گرد متحد اور آہنگ ہے۔ ہماری سرزمین سے نکل جاؤ، تاکہ تمہارے نقصان
کم ہو جائیں؛ بصورت دیگر، تمہیں بے مثل قیمت ادا کرنا پڑے گی، جیسا کہ ہم جولائی
(2006ع کی 33 روزہ جنگ) میں کامیاب ہوئے تھے، اب بھی کامیاب ہونگے۔
امریکہ مقاومت
کی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکے گا
شیخ نعیم قاسم
نے لبنان میں امریکی سفیر سے مخاطب ہوکر کہا: تو بھی اور تیرے ساتھ دوسرے بھی،
مقاومت کی شکست کو خواب میں بھی نہیں دیکھ سکو گے"۔
سیکریٹری جنرل
حزب اللہ لبنان نے لبنانی پناہ گزینوں سے مخاطب ہوکر کہا: یہ جنگ اسی سطح کی قربانی
اور جانفشانی کی متقاضی ہے۔ ہم اس وقت دشمن کو نقصان پہنچانے کے مرحلے میں ہیں اور
اس مرحلے کا تقاضا صبر و استقامت ہے۔ مقاومت آپ کی قربانیوں کے بغیر کامیاب نہیں
ہوگی۔ دوسرے آپ کے صبر کی انتہا کی وجہ سے حیرت زدہ ہو گئے ہیں۔ حزب اللہ جنگ اور
مقاومت میں اپنے مجاہدین کی برکت سے اور سیاسی مسائل میں آپ کی معیت کے بدولت،
طاقتور ہے۔ جن لوگوں نے جنگ کے بعد کے مرحلے کے لئے کھاتے کھول دیئے ہیں، ہم ان سے
کہتے ہیں کہ "تم امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر لعنت بھیجنے پر مجبور ہو
جاؤگے، کیونکہ انہوں نے تم سے جھوٹ بولا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا: ہم نے ایک مہینے سے
جاری جنگ میں صہیونیوں کے 38 ٹینکوں اور چار ڈرون طیاروں کو مار گرایا ہے۔ یہ ایک
افسانوی جنگ و استقامت ہے۔ اسرائیل کو نہیں معلوم کہ ہمارے ڈرون طیاروں سے کس طرح
نمٹ لے! حزب اللہ کے میزائلوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہؤا ہے، اور اسرائیلی
نہیں جانتے کہ ان کا راستہ روکنے کے لئے کیا کریں! حزب اللہ کے روزانہ حملوں کی
وجہ سے آبادکاروں کی زندگی تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ دشمن وقت پر
بھی اعتماد و انحصار نہیں کر سکتا، کیونکہ نقصانات کی سطح بہت وسیع ہے اور وہ جارحیت
بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اگر دشمن جنگ بند کرنے [کے منصوبے] سے اتقاق کر لے تو
ہم بھی ـ اگر مصلحت سمحھیں تو ـ بالواسطہ مذاکرات کے لئے راہ و روش اور شرطوں کو قبول
کریں گے۔
سیکریٹری جنرل
نے آخر میں کہا: ہر قسم کے مذاکرات کا بنیادی ستون جنگ بندی ہے، جیسا کہ ہمارے سید
شہید نے کہا شکستوں کا زمانہ کب کا گذر چکا ہے، آج فتوحات اور کامیابیوں کا زمانہ
ہے۔۔ صبر کیجئے اور صبور و ثابت قدم رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت
حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔
110