20 دسمبر 2025 - 21:42
ایران کی خلائی طاقت کے بارے میں اطالوی تھنک ٹینک کی رپورٹ

اطالوی تھنک ٹینک "مطالعۂ بین الاقوامی سیاسیات" کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مصنوعی سیارہ کے پروگرام، ایران کے خلائی پروگرام کو ایک قومی کامیابی میں بدل سکتے ہیں جو عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || یورونیوز کے مطابق اطالوی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی سیاسی مطالعات (ISP) نے ایران کے فضائی صنعتی پروگرام پر ایک مضمون میں لکھا ہے:

"حتمی ہدف یہ ہے کہ 2028-2029 تک ہم اس مقام پر پہنچیں کہ ہر مہینے 10 سے زیادہ سیارچے لانچ کئے جائیں۔" ایران کی پہلی نجی خلائی کمپنیوں میں سے ایک 'امید فضا' کمپنی، کے منیجنگ ڈائریکٹر حسین شہرابی نے صرف اس ایک جملے کے ساتھ شاید اب تک کے سب سے جاہ طلبانہ (Ambitious) منظرنامے کی نشاندہی کی ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلائی پروگرام کے لئے پیش کیا گیا ہے۔

ایک ایسے ملک کے لئے جسے صرف ایک دہائی پہلے چھوٹے مصنوعی سیاروں کو مدار میں قائم رکھنے میں دشواری کا سامنا تھا، صنعتی نوعیت کے ایک اعلیٰ شرح کی لانچنگ کے لئے ماحولیاتی نظام کی تشکیل کے بارے میں شہرابی کی پیشین گوئی قابل ذکر ہے۔ لیکن یہ بیان ایک گہری تبدیلی کی علامت بھی ہے: ایران کی کوشش کہ ایک حکومتی سٹریٹجک پروگرام کو ایک تجارتی صنعت میں تبدیل کیا جائے جو کم از کم اپنے BRICS، شنگھائی تعاون تنظیم، اور یوریشیائی اقتصادی یونین کے شراکت داروں کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔

شہرابی کے بیان کے مطابق، ایران کا خلائی پروگرام اب "استحکام" کے مرحلے سے ـ جس میں مصنوعی سیارے کی ٹیکنالوجیز پر مہارت، ڈیزائنگ، تیاری اور لانچنگ کی مکمل سائیکل قائم کرنا اور قابل اعتماد ہونے کا ثبوت دینے کے لئے کافی شافی مشنز مکمل کرنا ـ شامل تھا، سے نکل کر "صنعت کاری" (Industrialization) کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس مرحلے میں ان صلاحیتوں کو فروغ دینا اور تجارتی بنانا ہے۔

ایک مکمل خلائی پروگرام

ایران کا خلائی پروگرام اب ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے: مصنوعی سیاروں کی تیاری اور سیٹلائٹ کیریئرز کی ترقی سے لے کر لانچنگ کے اڈوں کے استعمال اور ڈیٹا ٹریک کرنے اور وصول کرنے کے زمینی اسٹیشنوں تک۔ 100 سے 300 کلوگرام وزن کے درجے میں ایران سیٹلائٹ کیریئرز کے کئی خاندانوں کے مختلف راکٹ استعمال کرتا ہے، جن میں ٹھوس ایندھن والا "قائم-100" (جو سپاہ پاسداران سے تعلق رکھتا ہے) اور مائع ایندھن والا "سیمرغ" (جو وزارت دفاع سے وابستہ ہے) شامل ہیں۔ یہ راکٹ مصنوعی سیاروں کو زمین کے نچلے مدار میں پہنچا کر تعینات کر سکتے ہیں۔

اسی اثناء میں، لانچنگ کے بنیادی ڈھانچے میں بھی توسیع ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم منصوبہ ملک کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع نیا "چابہار خلائی اڈہ" ہے۔ اپنے کم جغرافیائی عرض بلد کی وجہ سے یہ اڈہ زیادہ وسیع مداروں تک رسائی کو ممکن بناتا ہے۔ اس اڈے کا پہلا مرحلہ، جو ٹھوس ایندھن والے لانچنگ راکٹس کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے، آخری مراحل کے قریب ہے اور توقع ہے کہ اس کی پہلی تجرباتی لانچنگ اگلے مہینوں میں انجام پائے گی۔

اس تناظر میں، ایران نے پچھلے سالوں میں دو بڑے اور زیادہ طاقتور سیٹلائٹ کیریئر خاندانوں کی نشوونما پر توجہ مرکوز کی ہے۔ وزارت دفاع کے مائع ایندھن والے "سیمرغ" نے 2024 میں کئی مصنوعی سیاروں کو زمین کے نچلے مدار میں کامیابی سے پہنچا کر تعینات کر دیا۔ سپاہ پاسداران کے ٹھوس ایندھن والے "قائم-100" سیٹلائٹ کیریئر نے اپنے تیسرے تجربے میں مدار تک رسائی حاصل کی اور اس کے بعد کئی دیگر کامیاب مشن انجام دیئے۔ یہ دونوں پروگرام مل کر ایران کی بکھری ہوئی تجرباتی لانچوں سے قابل تکرار اور توسیع پذیر نظاموں کی طرف منتقلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

تاہم، اہم چیلنج اب بھی قابل اعتماد ہونے اور کارکردگی کا ہے۔ ایران کی موجودہ مدار میں بھیجنے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت تقریباً 300 کلوگرم ہے جو 2024 کے آخر میں حاصل ہوئی؛ لیکن قلیل مدتی ہدف 500 کلوگرم تک پہنچنا ہے تاکہ زیادہ وزنی اور زیادہ درست سینسر والے مصنوعی سیاروں کی لانچ ممکن ہو جائے۔ اسی طرح، لانچنگ کی شرح بھی اہم ہے۔ خلائی صنعت میں، صرف ایک کامیابی کافی نہیں ہے۔

ایرانی خلائی ادارے کے سربراہ حسن سالاریہ کے مطابق، کیریئر راکٹ تب ہی مکمل طور پر مستحکم سمجھے جائیں گے جب وہ آٹھ سے دس مرتبہ مسلسل اور نقص کے بغیر، مشن انجام دیں۔ ایران اس راستے پر گامزن ہے، لیکن پائیدار اعتماد کا حصول اب بھی ایک اہم معیار ہے جسے تجارتی مارکیٹ میں اطمینان بخش داخلے سے پہلے، حاصل کرنا ضروری ہے۔

یہ وہ نقطہ ہے جہاں "تجارتی بنانا" ایرانی خلائی پروگرام کا بنیادی محرک بن جاتا ہے۔ یہ تبدیلی ـ سب سے زیادہ ـ اس سال موسم سرما میں تین مصنوعی سیاروں "ظفر"، "پایا" اور دوسرے "کوثر" کی لانچنگ پروگرام میں نظر آتی ہے؛ یہ مصنوعی سیارے بالترتیب ایک سرکاری ادارے، ایک یونیورسٹی ٹیم اور ایک نجی کمپنی نے بنائے ہیں۔ ایرانی عہدیدار اس تنوع کو صنعتی بنانے کے مرحلے کا آغاز قرار دیتے ہیں؛ وہ مرحلہ جس میں ایران الگ الگ تجرباتی مصنوعی سیاروں سے، پیوسته پیداوار اور سیاروں کے جھرمٹ (Constellations) کی طرف منتقل ہوگا۔

حسین شہرابی 'امید فضا'  کمپنی میں نجی شعبے کی کوششوں کے علمبردار ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ایران کو عالمی منڈیوں کے لئے مصنوعی سیاروں کے جھرمٹ (Satellite constellations) ڈیزائن کرنے چاہئیں، نہ کہ صرف اندرونی ضروریات کے لئے؛ اور وہ اسپیس ایکس کو پیمانہ کاری (Scaling) کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے تجویز کردہ منصوبے "دوناما" کے مطابق تین سال کے اندر تقریباً 200 مصنوعی سیارے بنانا کا ہدف ہے؛ اور اس کے ساتھ ساتھ "شہید سلیمانی" constellations جیسے منصوبے بھی نجی شعبے کی قیادت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ شہرابی کا اعلان کردہ ہدف 2029 تک ماہانہ دس مصنوعی سیارے مدار میں بھیجنے کا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سطح ایران کو ایک حقیقی تجارتی کھلاڑی بنانے کے لئے ضروری ہے۔

ایرانی عہدیدار اور نجی کاروباری افراد اپنے لئے مقابلے کا موقع ـ BRICS، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور یوریشیائی اقتصادی یونین کی منڈیوں میں ـ دیکھتے ہیں۔ یہ گروہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی اور تیزی سے ترقی کرنے والی کئی معیشتوں پر مشتمل ہیں، جن میں کروڑوں صارفین ایسے ہیں جو موجودہ سیٹلائٹ فراہم کنندگان سے مکمل خدمات سے مستفید نہیں ہو پائے ہیں۔ مانگ ایک وسیع رینج کا احاطہ کرتی ہے جس میں تصویر کشی، زرعی نگرانی، ماحولیاتی مشاہدہ، بحران کا انتظام، ٹیلی مواصلاتی رابطے، اور ریڈار اور نیویگیشن خدمات شامل ہیں۔ ایران کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایسی خلائی معیشت میں خود کو ایک کم لاگت فراہم کنندہ (Provider) کے طور پر پیش کرے، جو بتدریج مغربی سپلائی سلسلوں سے دور ہو رہی ہے۔

ایرانی خلائی مصنوعات کی فروخت کی سب سے اہم امتیازی خصوصیت "کم لاگت" ہے۔ عہدیدار کھلے عام ملک کی خلائی حکمت عملی کا ڈرون صنعت سے موازنہ کرتے ہیں؛ ایک ایسی صنعت جس نے کم پیداواری اخراجات اور پابندیوں سے پیدا ہونے والی خود کفالت کے بدولت عالمی سطح پر ایک غیر متوقع برآمد کنندہ بننے کا راستہ فراہم کیا۔ خلائی حکام اب وہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ: "ایران بڑی طاقتوں کے مقابلے میں زیادہ پیسہ خرچ نہیں کر سکتا، لیکن وہ ان سے کم قیمت پر کام کر سکتا ہے۔" ایران کی خلائی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ نے حال ہی میں اسی تناظر میں کہا ہے کہ "ملک کے مصنوعی سیارے اور لانچنگ کی خدمات کو معقول (اور قابلِ برداشت) قیمت پر فراہم کرنے کے لئے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔"

ایران کے بین الاقوامی شراکت داروں کی تشکیل میں بھی یہی رویہ کارفرما ہے۔ تہران نے خاص طور پر آنے والی قمری مشن "چانگ ای-8" (Chang'e-8) میں شرکت کے ذریعے چین کے ساتھ اپنی شراکت کو گہرا کیا ہے۔ ایرانی انجینئرز ذیلی نظامات اور سائنسی آلات تیار کر رہے ہیں جو ایک چینی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجے جائیں گے، چاند کے مدار میں کام کریں گے اور ڈیٹا زمین پر واپس بھیجیں گے۔ کم لاگت انجینئرنگ کو 'غیر مغربی' 'ابھرتی ہوئی خلائی طاقتوں' کے ساتھ تعاون کے ساتھ یکجا کرکے، ایران نہ صرف اپنے خلائی پروگرام کو ایک قومی حصول یابی (National Achievennt) بلکہ عالمی مارکیٹ میں ایک مسابقتی اور کم خرچ اداکار بنانے کی امید رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha