4 اگست 2025 - 01:39
عیسائی بھی اربعین کے لئے میدان میں، ارمنیوں اور آشوریوں نے اربعین کا موکب قائم کیا

ایران کے ارمنی اور آشوری عیسائی تمرچین بارڈر پر اربعین کے زائرین کی میزبانی کے لئے موکب قائم کرکے قافلۂ اربعین میں شامل ہو گئے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ بحوالۂ فارس خبر ایجنسی، ارومیہ شہر سے:

یہاں تم آتے ہو ایک ایسی درس گاہ میں بیٹھنے کے لئے جس کے معلمین 'احرارِ عالم'  ہیں؛ آدمؑ سے نوحؑ، ابراہیمؑ سے موسیٰؑ تک پہنچتے ہو، پھر مسیح مقدسؑ سے ہوتے ہوئے احمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ان کے آزاد نواسے 'مردِ حُر' حسین ابن علی (علیہ السلام) تک جا نکلتے ہو؛ آج اربعین ایک ایسا سنگم ہے جو عیسیٰؑ کے عاشقوں کو حسینؑ کے دلدادوں سے ملا رہی ہے۔

مشرق آشوری کلیسا کے پادری 'داریاوش عزیزیان' نے فارس کے نامہ نگار سے خصوصی گفتگو میں کہا: "یہ ہم پر ہمسائیگی کا حق اور مذہبی فریضہ ہے کہ اپنے ہمسایہ کے دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ حضرت مسیحؑ کا حکم ہے کہ ہمسائے سے محبت کرو، چاہے وہ مسیحی ہو یا نہ ہو، بس اس کا سایہ ہمارے مشابہ ہو۔ رنگ و نسل کوئی معنی نہیں رکھتے۔"

عزیزیان نے مزید کہا: "ہم برسوں سے ـ خاص طور پر دیہی علاقوں میں مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ ارومیہ میں ہمارے سنی بھائی بہنیں بھی ہیں جو سرحدی علاقے تمرچین کے قریب زیارتی موکب قائم کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میرے والد گاؤں میں امام حسین (علیہ السلام) کے ایام عزاء میں تعزیتی مجالس کو تعزیت پیش کرتے تھے اور مدد کرتے تھے۔ ہم ان تمام زائرین کے لئے دعا گو ہیں کہ وہ پرامن اور چین و سکون کے ساتھ، زیارت کریں۔"

جب دشمن معاشرے کو منقسم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ارومیہ کی "شن ریز" کمپنی کے سربراہ جناب مجنونیانس نے مسیحی ارمنی و آشوری برادری کی جانب سے تمرچین سرحدی راستے پر یہ تاریخی موکب قائم کیا ہے۔

سرحدوں پر لامحدود محبت

'سرحد پر لامحدود محبت' اور عشق و شیدائی کا یہ اجتماع جہاں امام حسین (علیہ السلام) کے راستے پر سارے قدم آکر ملتے ہیں، اور دل ان کی محبت میں دھڑکتے ہیں؛ جذبے اور آنسوؤں کی اس لامتناہی بحر ذخار میں حہاں مسیح اور حسین (علیہما اسلما) ہاھوں میں ہاتھ ڑال کر حریت اور قربانی کا سبق سیکھتے ہیں؛ پھر سرحدیں کیا معنی رکھتی ہيں۔

آری، در این دیار عشق، مرزی برای دلدادگی نیست؛ تنها رودی خروشان از معرفت جاری است که تشنگان حقیقت را سیراب می‌کند، اینجاست که خاک، بوی آسمان می‌گیرد و هر سنگ‌ریزه، نشانه‌ای از بی‌نهایت است.

ہاں! اس وادیِ عشق و شیدائی کی کوئی سرحد نہيں ہے؛ یہاں تو بس معرفت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہؤا دریا جاری ہے؛ جو حقیقت کے پیاسوں کو سیراب کرتا ہے؛ یہی وہ مقام ہے جہاں مٹی آسمان کی خوشبو دیتی ہے، اور ہر کنکر لا محدودیت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha