بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
ترک صدر کو شام میں اپنی جوابازی کا نتیجہ توقع سے زیادہ، جلدی، مل گیا۔ وہ عرصے سے شام کو کمزور کر رہے تھے اور اسد حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے، اور اکیسویں صدی کے پہلے برسوں سے دمشق کی مسجد اموی میں نماز پڑھنے کی آرزو لے کر زندگی کے شب و روز گذار رہے تھے۔ لیکن آج وہ صرف شام کے کسی بھی علاقے پر ـ اپنے رفیق کار اسرائیل ـ کی بمباریوں کا تماشا دیکھ سکتے ہیں، مذمتی بیان دے سکتے ہیں اور اپنے اور نیتن یاہو کے آقا "امریکہ" کا سہارا لے سکتے ہیں جو اسرائیل کے تمام حملوں کے پس پشت کھڑا ہے! اور ان کے "آرزومندانہ شام پراجیکٹ" میں اس کے رفقائے کار ـ اور موجودہ شام کے اصل معمار ـ وزیر خارجہ 'ہاکان فیدان' اور 'میت' (Millî İstihbarat Teşkilatı [MIT] = National Intelligence Organization) کے سربراہ ابراہیم کالین" اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
اسلامی بیداری یا عربی بہار سے لے کر آج تک، دوسروں کو کمائی پر ڈاکہ ڈالنا اور دوسروں کی حصولیابیوں کو اپنے نام کرنا ترکیہ کے آخوانی سیاستدان کی عادت بن چکی ہے؛ لیکن یہ ناقابل تعریف پالیسی صرف کبھی کبھار کارگر واقع ہوتی ہے۔ اردون نے اس پالیسی کو ایک جاری عمل سمجھا تھا لیکن لیکن اب وہ حقیقت کی سخت دیوار سے جا لگے ہیں۔ 2011 میں عربی انقلابات کی لہر اٹھی اور یہ تصور نمایاں ہوگیا کہ خطے کی اقوام ایران کی خودمختارانہ خارجہ پالیسی کو نمونہ عمل بنانا چاہتی ہیں، تو اردوان اچانک میدان میں آئے اور ایران کے ساتھ مسابقت تشکیل دینے کی کوشش کی اور انقلابیوں کو مشورہ دیا کہ "ترکی اسلام" کو نصب العین بنا دیں۔
شام میں عالمی جنگ کا آغاز ہؤا تو اردوان ایرانی-روسی-شامی محاذ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ایران نے "محور مقاومت" کی بنیاد رکھی تھی تو اردوان نے پراکسی گروپ بنا لئے اور "اویغور"، "چیچن" سلفیوں کو کرائے کے گروپوں میں بدل دیا؛ وہ سمجھ رہے تھے کہ جو کچھ محور مقاومت نے مغربی ایشیا میں حاصل کیا ہے وہ بھی اپنے پراکسیوں کے ذریعے حاصل کرلیں گے۔ ان کو شاید یہ سوچنے کا موقع نہیں ملا تھا کہ محور مقاومت ایک حریت پسند محاذ ہے جس کے سامنے جانا پہچانا دشمن ہے: "اسرائیل" اور جب تک کہ اسرائیل ہے مقاومت بھی جاری ہے چاہے محور مقاومت کی رکن تحریکیں تنہا ہی کیوں نہ رہ جائیں۔ جبکہ ان کے پراکسی گروپوں کا اپنا کوئی خاص ہدف نہیں تھا؛ وہ تو تنخواہ لے رہے تھے چنانچہ جب وہ کامیابی کے مرحلے میں جا پہنچے اور انقرہ طرف سے ملنے والی تنخواہوں سے کہیں بڑی تنخواہیں آنے لگیں تو انہوں نے ترکیہ کو چھوڑ دیا اور سب سعودی عرب کی طرف راغب ہوگئے؛ اور پھر تباہ حال شام میں جینے کے لئے ان کو بڑی رقوم کی ضرورت تھی اتنی کہ جن سے ترکیہ عہدہ برآ نہیں ہو پا رہا تھا۔
ہیئت تحریرالشام کے سربراہ ابومحمد الجولانی (جو اب احمد الشرع کہلوانے لگے تھے) اچانک سعودی عرب کے دورے پر چلے گئے، اور جناب اردوان نے اس کو بے وفائی قرار دیا، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ الجولانی کو احمد الشرع بنانے والا سعودی عرب نہیں بلکہ ترکیہ تھا! اور انہیں انقرہ میں استقبالی بینر پر "عبوری صدر احمد الشرع" لکھ کر یاددہانی کرائی کہ وہ شام کے عبوری حاکم ہیں!
دسمبر 2024 میں، تحریر الشام (HTS) کے باغیوں نے پوری دنیا کی حیرت زدہ نگاہوں کے سامنے، شامی فوج کی طرف سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کے بغیر محض 11 دنوں میں دمشق تک رسائی حاصل کر لی۔ مغربی اور ترکی میڈیا کے پاس ـ اس واقعے کو "پراگ کا لمحہ" (سوویت یونین کے آخری دنوں میں مشرقی یورپ کے انقلابات کی طرف اشارہ) کہنے اور خوب سراہنے ـ کا پورا موقع تھا، اب جب دھول بیٹھ چکی ہے تو لگتا ہے کہ شام نہ صرف آزادی اور ترقی کے دروازے پر نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی تاریک سرنگ میں داخل ہو چکا ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔
اس سے قبل، سب کچھ بظاہر ٹھیک لگ رہا تھا۔ شام کو ایک دہائی بعد دوبارہ عرب لیگ میں قبول کر لیا گیا تھا، اور عرب ممالک بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے قطاریں لگائے ہوئے تھے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک شام میں استحکام کی بحالی کو اپنے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مفید سمجھ رہے تھے۔ ایران، روس اور ترکی کے درمیان آستانہ اجلاس سب کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کر رہا تھا، جس کے تحت ایک مضبوط اور مستحکم شام اسرائیل کے علاقائی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف عرب پڑوسیوں کے لئے ایک دیوار کی مانند کام کر سکتا تھا۔ لیکن اردوان حکومت شام کا "کیک" صرف اپنے لئے چاہتی تھی۔
اردوان نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے افراتفری کے موقع کو شام میں اپنے دیرینہ خوابوں کو پورا کرنے کے لئے موزوں سمجھا، لیکن اس اخوانی صدر نے دراصل پینڈورا باکس ہی کھول دیا۔ اگر اردوان یہ سمجھتے تھے کہ وہ شام کو تل ابیب کے ساتھ بانٹ سکتا ہے، تو انھوں نے ابھی تک اسرائیل کو صحیح طریقے سے پہچانا نہیں ہے۔
ان (حالیہ) سات مہینوں میں، اردوان یہ سمجھتے رہے کہ وہ شامی واقعات کا بلا شرکت غیرے، مالک ہے، اور ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کا دمشق کی بلندیوں پر کافی پیتا ہوا فوٹو انقرہ کی فتح کی آخری تصویر کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن حالیہ واقعات صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ترکیہ اس کھیل سے باہر ہوکر دور ہوتا جا رہا ہے۔
انقرہ دمشق میں اپنی فتح کے نشے سے اس قدر سرشار تھے کہ انھوں نے غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے تہران کو مشورہ دیا کہ وہ شام میں مداخلت نہ کرے اور بشار الاسد کے زوال سے سبق سیکھے۔ ایرانی حکام نے ترکیہ کے ہم منصبوں کو یاد دہانی کی کوشش کی کہ بعدازیں شام میں کسی بھی کھلاڑی کا اثر مستحکم نہیں رہے گا، لیکن انقرہ ہوشیار نہیں تھا، اور مشرق وسطیٰ میں بعض اوقات ہوشیاری صرف بھاری قیمت چکا کر ہی حاصل ہوتی ہے۔
اردوان نے جس طرح صرف تماشائی بن کر دیکھا کہ جولانی کا پہلا بیرونی دورہ انقرہ کے بجائے ریاض میں طے پایا، بلکہ انھوں نے اگلے مرحلے میں احمد الشرع کو کردوں اور QSD افواج کے ساتھ مشرق فرات میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ معاہدہ امریکی ہم آہنگی کے ساتھ اور ترکی کو اطلاع دیے بغیر منعقد کیا گیا۔ یہاں تک کہ شام پر سے پابندیاں اٹھانے کا اعزاز بھی ترکیہ کو نہیں بلکہ سعودیوں کی قسمت میں آیا، اور محمد بن سلمان نے ہی ٹرمپ اور جولانی کی ملاقات کا اہتمام کیا، اور اپنی ساکھ بنائی۔ اردوان کو صرف یہی کچھ ملا کہ انہیں اس تقریب میں آن لائن شامل ہونے کی اجازت دی گئی!
ان حالات میں، رجب طیب اردوان صرف 'مفت میں اسرائیل کی تزویرانی گہرائی بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو انقرہ اور پورے خطے کے لئے ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے اگر شام میں صہیونی ریاست کو پاؤں جمانے کا موقع ملے تو وہ ترکیہ کا براہ راست پڑوسی بن جائے گی؛ اور یوں ترکیہ کے لئے صورتحال ایک مخمصے جیسی ہے، اور انقرہ کو اپنے سامنے آسان راستے نظر نہیں آ رہے ہیں:
پہلا انتخاب: اسرائیل کے شام میں طاقت کے مظاہرے کے سامنے خاموش رہنا، اور اپنے تحریر الشامی اتحادیوں کو نیتن یاہو کی جنگی مشین کے سامنے تنہا چھوڑ دینا۔ یہ اردوان کی شام میں "ریاست سازی" کی تمام تیاریوں کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔ ان حالات میں صہیونیوں کا بڑا منصوبہ یعنی "داؤد راہداری" ـ جو شام کی تقسیم اور مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے پر منتج ہوگا، ترکیہ کی ماحول سازی پر آگے بڑھا ہے۔ اس صورت میں ترکیہ خطے کے ارکان کے ساتھ سابقہ تعلق قائم نہیں رکھ سکے گا۔ اور بالآخر، اسرائیل کا بڑا علاقائی منصوبہ بھی ترکیہ کی پوزیشن کو کمزور کر دے گا۔
داؤد کوریڈور ( David Corridor) کے تحت جنوبی شام میں، دمشق سے جولان کی پہاڑیوں تک ایک "بفر زون" قائم کیا جائے گا جس میں سویداء کا علاقہ بھی شام ہوگا اور یہ کوریڈور بالآخر جولان اور سویدا سے مشرقی فرات کے علاقے دیرالزور اور التنف تک کھینچا جائے گا، جو ترکیہ کے مخالفین "قسد" کی کرد فورسز کے کنٹرول میں ہے اور یہاں امریکی اڈے بھی ہیں: انقرہ کے علاقائی تسلط کے لئے ایک بڑی رکاوٹ۔
دوسرا انتخاب حو پہلے سخت انتخاب سے بھی کہیں زیادہ سخت ہو سکتا ہے اور یہ ہے کہ وہ اسرائیل سے ٹکر لے اور شام میں نیتن یاہو کے جارحانہ منصوبوں کو روک لے۔ بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تصادم کی وجوہات تو طے ہو چکی ہیں، اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ یہ تصادم ہوگا کیسے؟ اسرائیل ایک ایسا کھلاڑی ہے جو پورے خطے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہ 'بالادستی' کو کسی دوسرے کھلاڑی کے ساتھ بانٹنے والا نہیں ہے۔
اسرائیل کے حملے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب گذشتہ ہفتوں میں بہت ساری خبریں عام ہوئی تھیں کہ جولانی کی عبوری حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شامل ہوگئی ہے۔ ان خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سامنے راستے کھلے ہیں؛ قیاس آرائیوں کے مطابق، اس معاہدے میں جولانی کی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کے بدلے جولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے حوالے کرنے کی بات ہوئی تھی۔
حتیٰ کہ گذشتہ ہفتے بعض باخبر سفارتی ذرائع نے خبر دی کہ احمد الشرع نے اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ زاحی ہینگبی سے ابوظہبی میں ملاقات کی ہے، جس کا اہتمام متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید نے کیا تھا۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ شام کے عبوری سربراہ اور صہیونی ریاست کے سلامتی کے امور کے ادارے سربراہ کے درمیان یہ مذاکرات دمشق اور تل ابیب کے درمیان خفیہ بات چیت میں ایک اہم موڑ ہے، اور اسرائیل اور شام کے بعض نئے خفیہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی ایک سطح موجود ہے اور الشرع نے اقتدار میں رہنے کے لئے صہیونی ریاست کی حمایت حاصل کرنے کے بدلے جولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں۔
باخبر سفارتی ذرائع نے کہا کہ عنقریب جنوبی شام میں تین بفر زونز قائم کیے جائیں گے: 'درعا، قنیطرہ اور سویدا'۔ ان ذرائع کے مطابق، شامی فوج کے جنوبی بیرکوں سے تمام بھاری ہتھیار ہٹا دیئے جائیں گے، اور شامی فوج اور پولیس کو بفر زونز میں صرف ہلکا اسلحہ لے جانے کی اجازت ہوگی۔
اس سب کے باوجود، صیہونی ریاست شام کی موجودہ حکومت کو ایک ناکام اور کمزور ریاست سمجھتی ہے جو اسرائیل کے مزید حملوں کے سامنے اور بھی زیادہ رعایتیں دے گی۔ دوسری طرف سے، شام کے فوجی بنیادی ڈھانچے کو کمزور کر کے جولانی کی کسی بھی ممکنہ مہم جوئی کی صلاحیت کو زیرو ہوجائے گی۔ اسرائیل اپنے حملوں سے ایک اور مقصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، اور وہ ہے ترکیہ کے سامنے طاقت کا مظاہرہ۔ تل ابیو، شام میں اپنی فوجی آزادی کے ذریعے ایک طرف سے تو انقرہ کے ردعمل کو پرکھ رہا ہے، اور دوسری طرف سے ترک حکومت پر اپنی سلامتی کی شرطیں مسلط کر رہا ہے کہ کہیں ترک 'اسد کے بعد والے شام' اپنی ملکیت نہ سمجھ بیٹھیں!
یہ اردوان کی ان آرزومندانہ پالیسیوں کے نتائج ہیں جن پر عملدرآمد کے لئے انھوں نے غیر محتاط روشیں اپنائیں۔ ترکیہ کے صدر ہمیشہ دیر سے آنے اور جلدی سے چلے جانے کے عادی رہے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ اردوان اب ایک دلدل میں پھنس چکے ہیں: ایک 'بد' اور 'بدتر' انتخاب کے درمیان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: علی رضا حقیقت
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ