بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایسے حال میں کہ نیٹو میں امریکی نمائندے میتھیو ویٹاکر (Matthew Whitaker) نے کہا تھا کہ اسٹیو وٹکاف (Steve Witkoff) کے روس کے دورے کا مقصد "الٹی میٹم دینا" ہے، ماسکو نے ان کی روسی صدر کے ساتھ ملاقات کے اختتام کی خبر دی ہے۔
امریکی صدر کے خصوصی نمائندے بدھ کے روز روس پہنچے۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب یوکرین جنگ کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کو دیے گئے الٹی میٹم کی آخری تاریخ قریب ہے۔
گذشتہ کچھ دنوں سے روس اور خاص طور پر ولادیمیر پوتن کے خلاف امریکی عہدیداروں کے بیانات انتہائی سخت ہوگئے ہیں ان کا لب و لہجہ غیر سفارتی اور تشدد آمیز ہو گیا ہے۔ نیٹو میں امریکی نمائندے میتھیو ویٹاکر نے حال ہی میں کہا تھا کہ "پوتن کا ذہن بیمار اور منحرف ہے۔"
ویٹاکر نے وٹکاف کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ "وٹکاف یوکرین جنگ میں جنگ بندی کا الٹی میٹم دینے کی غرض سے پوتن سے مل رہے ہیں۔"
روسی صدر کے پریس آفس نے اعلان کیا کہ پوتن اور وٹکاف کے درمیان کریملن میں ہونے والی ملاقات ـ جو تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی ـ اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
کریملن نے اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
ادھر امریکہ سے خبر آئی ہے کہ ٹرمپ واشنگٹن کے وقت کے مطابق شام 4:30 بجے (تہران وقت کے مطابق تقریباً رات 12 بجے، پاکستان کے وقت کے مطابق صبح 01:30 بجے اور بھارت کے وقت کے مطابق صبح 02:00 بجے) ایک بیان جاری کریں گے۔
امریکی میڈیا کی قیاس آرائیوں کے مطابق، امریکی صدر کا بیان روس کے خلاف ان کے 10 روزہ الٹی میٹم اور وٹکاف کی پوتن سے ملاقات سے متعلق ہو سکتا ہے، کیونکہ جمعہ کو ٹرمپ کے الٹی میٹم کی آخری تاریخ ہے۔
مختصر تبصرہ:
امریکہ، خاص طور پر ٹرمپ کے دوسرے دور میں، اپنی خارجہ پالیسی کو دھونس، دھمکیوں اور الٹی میٹم کے ذریعے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر یہ حکمت عملی اب پہلے جیسی کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے، کیونکہ عالمی سطح پر "امربکہ بطور سوپر پاور" کا رعب کمزور ہو گیا ہے اور دنیا اب یک قطبی نظام کو تسلیم نہیں کرتی۔
امریکہ کی دھمکیوں سے ڈر کر جھکنے والے ممالک تو شکست کھا جاتے ہیں، لیکن جو مزاحمت کرتے ہیں (جیسے ایران، روس، چین حتی کہ یمن)، وہ امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پوتن ٹرمپ کے الٹی میٹم سے متاثر ہوکر یوکرین جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گے؟
روس کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آتا۔ پوتن نے وٹکاف سے ملاقات کی، مگر کریملن نے ملاقات کی تفصیلات کا اعلان ضروری نہیں سمجھا، جو اس بات کی اشارہ ہو سکتا ہے کہ صدر پوتن نے امریکی مطالبات کو سنجیدہ نہیں لیا ہے یا پھر یہ ملاقات پوتن کی مہارت کی وجہ سے دھونس دھمکی کے ماحول سے نکل گئی ہے!!
اندازہ یہ ہے کہ یوکرین جنگ کے معاملے میں، روس ٹرمپ کی "شرائط" کو قبول کرنے کے بجائے اپنی حکمت عملی پر قائم رہے گا؛ الٹی میٹم کو نظرانداز کرے گا یا پھر ثابت کرے گا کہ یہ الٹی میٹم بھی اس کے گذشتہ کئی الٹی میٹمز کی طرح، زبانی کلامی شیخی سے آگے کچھ بھی نہیں تھا!
یقینی امر ہے کہ اگر امریکہ کوئی عسکری یا معاشی چال چلتا ہے تو روس پہلے سے ہی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جوابی اقدامات کے لیے تیار رہے گا۔
المختصر: امریکی صدر ٹرمپ کا الٹی میٹم بظاہر جارحانہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ ابلاغیاتی تشہیر ہی لگتا ہے۔ پوتن اپنے طویل سیاسی اور انتظامی نیز سفارتی تجربات کی بنا پر انہیں ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
اور ہاں! اگر روس امریکی دھمکیوں میں نہ آیا، تو یقینا ٹرمپ کو ٹرمپ کو یمن اور ایران کے معاملات کی طرح، پسپائی اختیار کرنا پڑے گی، یا پھر بیانات کی بھرمار کرکے، یا پھر کسی ملک پر اپنی توجہ مرکوز کرکے اس کے بارے میں وسیع تشہیری مہم چلا کر، ساکھ بچانے کی کوشش کرنا ہوگی۔
بہرحال فیصلہ کن لمحہ وہ ہوگا جب ٹرمپ کا بیان سامنے آئے گا ـ کیا وہ اپنے الٹی میٹم پر عمل کریں گے؟ ـ اگر وہ الٹی میٹم پر عمل کرنا چاہیں گے تو اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ یا نہیں بلکہ روس کے مضبوط موقف کے سامنے، "کامیابی" کا ڈھونگ رچا کر پیچھے ہٹ جائے گا؟ ـ یہ سب جاننے میں صرف تین گھنٹے کی دیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ