بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ترکیہ نے حال ہی میں اسرائیل سے منسلک کئی جاسوسی کاروائیوں کو ناکام بنانے کا اعلان کیا ہے جو ترکیہ کی سرزمین پر فلسطینی شخصیات کی تلاش میں تھے۔ اور ترک حکام نتانیاہو کی انتہا پسند کابینہ کی موجودگی میں ـ جو کسی قسم کی حدود اور ضآبطوں کو تسلیم نہیں کرتی ـ براہ راست اور کھلی فوجی کارروائی بعید از قیاس نہیں سمجھتے۔
تل ابیب اور انقرہ کے میڈیا حلقوں اور سیاسی تجزیہ کاروں میں اس امکان کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا دائرہ کار ترکیہ سمیت دوسرے ممالک تک بھی بڑھا سکتا ہے۔
ترکیہ میں حماس کے رہنماؤں اور عہدیداروں کی موجودگی اور نقل و حرکت کو سخت خفیہ رکھا جاتا ہے، اور 7 اکتوبر 2023ء کے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد، ـ جس کے بعد غزہ کی پٹی پر مسلسل صہیونی جارحیت جاری ہے، ـ ان انتظآمات میں نمایاں اضافہ ہؤا ہے۔
حتی کہ گذشتہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو استنبول میں ترک اور عربی ایسوسی ایشنز کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ثقافتی تقریب میں حماس کا کوئی باضابطہ عہدیدار موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اس تقریب میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جس میں استنبول میں معلوماتی نمائشوں اور فنڈ ریزنگ کے پروگرام شامل تھے۔
"ترک انفارم" نیوز ویب سائٹ نے اطلاع دی کہ اسرائیل کی طرف سے مختلف ممالک میں حماس کے عہدیداروں کو نشانہ بنانے سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ ترکیہ بھی نشانہ بن سکتا ہے۔
نیوز ویب سائٹ نے مزید کہا کہ ترکیہ میں تحریک حماس کی سرگرمیوں پر کڑی نگرانی کی جاتی ہے، اور حماس کے اعلی عہدیدار باقاعدگی سے ترکیہ کا دورہ کرتے ہیں اور اعلی سطحی اجلاس منعقد کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار "مئیر المصری" ان لوگوں میں شامل تھا جس نے پیشین گوئی کی تھی کہ ترکیہ اس ریاست کے اگلے حملے کا نشانہ ہوگا، اور یہ حملہ ویسا ہی ہوگا جو قطر میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔
المصری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دعوی کیا کہ: "آج قطر، کل ترکیہ۔ اسرائیل دہشت گردی سے نبردآزما ہے۔"
اس نے اسماعیل ہنیہ کے ایران میں قتل سے پہلے ان کے ترکیہ کے سابقہ دورے کے دوران ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کی تصاویر کے ساتھ یہ پوسٹ لگائی ہے۔
پچھلے سال کے شروع میں، ترکیہ کے حکام نے موساد کے لئے "بین الاقوامی جاسوسی" کی سرگرمیوں کے کے شبہے میں 33 اشخاص کو حراست میں لیا تھا، جس کے بعد ترکیہ کے مختلف صوبوں میں حراست میں لئے گئے افراد سے وابستہ مشتبہ افراد کا تعاقب شروع کیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی، صہیونی ریاست کے وزیر اعظم "بنیامین نتانیاہو" نے کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہا: "میں قطر اور تمام دہشت گردوں کی میزبانی کرنے والے ممالک سے کہتا ہوں، یا تو انہیں نکال دیں یا انہیں انصاف کے حوالے کریں تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے، ورنہ ہم خود یہ کام کریں گے۔"
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ "قطر میں حماس پر اسرائیل کا حملہ نائن الیون کے بعد افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کا تعاقب کرنے کی امریکہ کی کوششوں کے مترادف ہے۔"
اس نے کہا کہ "امریکہ نے نائن الیون کے بعد کیا کیا؟ اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ یہ خوفناک جرم کرنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کرے گا خواہ وہ جہاں بھی ہوں۔"
نکتہ:
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست نے قطر پرحملہ کرکے 'عظیم تر اسرائیل' کی طرف قدم بڑھایا ہے جس میں عرب ممالک کا نام و نشان تک نہیں ہے اور معلوم ہوتا ہے ـ کہ چونکہ امریکہ اس منصوبے میں بھی صہیونی ریاست کے اشارے کا منتظر رہتا ہے چنانچہ ـ امریکہ کے دوستوں اور اسرائیل کی چاپلوسی کرنے والے ممالک سب سے پہلے اس سازش کا نشانہ بنیں گے اور اگر ان ممالک نے معذرت خواہانہ اور بزدلانہ رویہ ترک نہ کیا تو یقینی طور پر اگلے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں یہ ممالک بھی صہیونی جارحیتوں کا نشانہ بنیں گے اور امریکہ بھی بدستور اس کی پشت پر کھڑا نظر آئے گا اور مذاکرات کی میز ان حملوں کے لئے پلیٹ فارم کا کام دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ