15 مئی 2025 - 19:27
النکبہ کے 77 سال بعد بھی، اپنے گھروں کی چابیاں آج بھی فلسطینیوں کے ہاتھ میں + ویڈیو اور تصاویر

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | فلسطین پر مغرب اور امریکہ کی مدد سے صہیونیوں کے قبضے ـ یعنی یوم النکبہ ـ، جبری نقل مکانی، اور طویل ترین اور عظیمترین مصائب و مسائل کے شروع ہونے سے 77 سال بعد بھی، فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی چابیاں محفوظ رکھی ہیں۔ نکبہ بدستور جاری ہے، جارحیت اور ظلم و ستم اور بربریت ہنوز جاری ہے، لیکن فلسطینیوں نے اپنی مزاحمت سے فلسطین کی آزادی کا اشتیاق محفوظ رکھا ہے اور آج بھی فلسطین ـ من البحر الی النہر ـ کا نعرہ باقی ہے اور آزاد فلسطین کی خواہش زندہ ہے، فلسطینیوں کو یقین ہے کہ وہ بالآخر اپنے گھروں کو لوٹیں گے، چنانچہ چابیاں آج بھی ان کے ہاتھوں میں ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | یوم النکبہ کی 77ویں برسی ہے، نکبہ یا نکبت کے معنی المیہ کے ہیں، یہ ایک خوفناک دن ہے فلسطینی تاریخ میں، اور عجب یہ ہے کہ اس المیے کی برسی کے موقع پر ـ آج بھی ـ فلسطینی پناہ گزینوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ فلسطینی قوم آج بھی ثابت قدم اور اپنی سرزمین سے دل بستہ ہے اور آج بھی اپنی واپسی کا حق مانگ رہے ہیں ان سے جو انسانی حقوق کو اوزار بنائے ہوئے ہيں اور فلسطینیوں کے لئے نہ تو حق خودارادیت کے قائل ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کے۔ وہ آج بھی انسانی وقار کے احیاء اور عدل و انصاف کے خواہاں ہیں۔

15 مئی 2025ع‍ کو بھی یوم النکبہ یعنی 15 مئی 1948ع‍  یوم النکبہ کے مارے فلسطین کے زخموں سے تازہ خون رس رہا ہے، مقاومت کی شکل میں، استقامت کی شکل میں؛ فلسطینی آج بھی یوم النکبہ کی یاد زندہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اس یاد کو پچھلوں نے اگلوں کو منتقل کر دی ہے۔

اس دن کو دنیا کے مجرموں نے ایک جعلی ریاست کے قیام کا جشن منایا ایسی سرزمین پر جہاں فلسطینی قوم آباد تھی اور یہ ایک بغیر آبادی والی سرزمین نہیں تھی جس کو بغیر سرزمین کے غاصبوں کے سپرد کیا گیا۔ اور اس گھر (فلسطین) کا اصلی مالک خیمہ بستی میں قیام پذیر ہے پناہ گزین کی حیثیت سے، اور فلسطین کے بچے ان خیموں میں پیدا ہوئے جہاں ـ اس بغیر چھت کے گھر میں ـ ان کے والدین نے ایک چابی لٹکائی ہوئی تھی، چابی دروازے کے بغیر۔

نکبت، المیے اور بدبختی کا آغاز 1948ع‍ سے نہیں ہؤا بلکہ اس سے بھی بدتر اور المناک تر واقعہ کئی سال قبل رونما ہؤا تھا جب فلسطینی سرزمین کا ایک حصہ 'بین الاقوامی حمایت سے' لوٹا گیا۔ نیا نقشہ بنایا گیا، فلسطین کو نقشے سے حذف کیا گیا اور اس کے اصل مکین راہ حل کی تلاش میں تھے۔

مقررہ وقت آن پہنچا، نئے نقشے کی رونمائی ہوئی: ایک قوم کی مکمل بیخ کنی، دنیا کی تاریخ اور جغرافیے سے ان کے قدموں کے نقوش مٹا دیا جانا، اور اس کی از سر نو تاریخ نویسی، ایسی مردہ زبان میں جو دنیا والوں کی روزمرہ بولی جانے والی زبان نہیں تھی۔

فلسطین کے 500 سے زیادہ شہروں اور بستیوں کو منہدم کیا گیا، ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے، اور لاکھوں دشت و صحرا اور خیمہ بستیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ لیکن یہ عالمی دشمن کامیاب نہیں ہوئے، وہ فلسطین کا نام نہیں مٹا سکے، اور فلسطین کو فلسطینیوں کے دلوں سے نہیں نکال سکے۔ فلسطینی اپنی واپسی کے حق سے دستبردار نہيں ہوئے اور اپنے گھروں کی کنجیوں کو محفوظ رکھا، یہ کنجیاں درحقیقت صرف ایک علامت نہیں ہیں بلکہ فلسطینی مقاومت اور مزاحمت کی دستاویز ہیں۔

آج یوم نکبت کے 77 سال بعد، یوم نکبت غزہ کی سرزمین پر دہرایا جا رہا ہے، محض کتابوں میں نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کی عملی زندگی کے میدان میں؛ کیونکہ غاصب و قابض صرف لوگوں کو بے گھر نہیں کرتا، بلکہ ان کا ہدف اصل مکینوں کی مکمل نابودی اور تباہی و بربادی ہے۔ وہ بے رحمی کے ساتھ نہتے عوام کا قتل عام کرتے ہیں، بچوں اور خواتین کو قتل کرتے ہیں،ہستپالوں پر بمباری کرتے ہیں، اور یوں بعض خاندان پوری طرح نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔

لیکن حقیقی میدان وہ نہ ہؤا جس کا خاکہ جلاد نے تیار کیا تھا؛ اس بار فلسطینیوں نے اپنے انجام سے تجربہ حاصل کیا، اس بار غزاوی عوام نے دشمن کے حملوں کے دباؤ میں آکر محفوظ راستہ نہیں مانگا، بلکہ متعلقہ تجاویز کو مسترد کیا، انہوں نے جبری انخلاء یا نقل مکانی کی تجاویز کو مسترد کر دیا اور اپنے بچوں اور اہل خانہ کو اپنی سرزمین میں دفنانے کو ترجیح دی۔ ملت فلسطین نے زور دے کر کہا: "ہم یہاں رہیں گے"۔

یہ "نہ" میں جواب، جس کی جڑیں فلسطینیوں کی نسلوں میں پیوست ہے، اس جواب نے "یوم النکبہ" کے المیے کو ایک طویل جنگ میں بدل دیا۔ فلسطینی مزید ایک "خاموش شکار" (Silent victim) نہیں ہے بلکہ عظیم فریاد بن کر ابھرا ہے جو نام نہاد عالمی برادری اور مسلمانی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے بزدل اور غدار مسلمانوں کو رسوائے عالم کر دیتی ہے۔

یوم النکبہ صرف سوگ اور یاددہانی کا دن نہیں بلکہ مقاومت و مزاحمت گھر واپسی اور وطن کی تعمبر کی علامت ہے، ہاتھ سے نکلی ہوئی سرزمین میں واپس پلٹ کر جانے کی امید کا دن ہے۔ یہ دن ایک موقع ہے تاریخ میں غور و تفکر کا، گذشتہ ایام کے رنج و مشقت اور اس طویل تنازع کے لئے منصفانہ حل کی تلاش کا۔ نیز یوم النکبہ ایک دن ہے اس لئے کہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے حقوق کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر آگہی کے فروغ کا۔

یوم النکبہ ایک تاریخی روئیداد ہے جس نے فلسطینیوں کی زندگی اور مسلمانوں کے مرکزی خطے ـ مغربی ایشیا ـ پر گہرے اثرات چھوڑ دیئے ہیں۔ یہ دن ایک المیے کی یاددہانی بھی ہے اور امت کی بیداری کا ذریعہ بھی۔

یوم النکبہ صرف ایک قوم کی سرزمین کے کھو جانے کی علامت نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے قبلۂ اول پر اسلام کے بدترین دشمن کے قبضے کا دن ہے، جبکہ پوری امت مسلمہ ـ جس کی آبادی تقریبا دو ارب نفوس پر مشتمل ہے ـ آٹھ ملین یہودیوں کے سامنے بے دست و پا ہے، صرف بزدلی اور خوفزدگی کی وجہ سے، جب یہی مسلمان اپنے آپ کو بدر و حنین کا وارث سمجھتے ہیں۔ آج غزہ ایک داغ ہے مغربی تہذیب کے ماتھے پر اور امت مسلمہ کے دامن پر، یوم النکبہ ایک چیلنج ہے امت کے لئے ـ بطور خاص ـ کہ کیا وہ کچھ متحرک ہوکر غزاویوں کی مدد کے لئے فعال ہو بی جاتی ہے یا وہ بھی یوم النکبہ کے تخلیق کاروں کی صف میں کھڑے ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha