اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | "رہف عياد" ایک 12 سالہ فلسطینی بچی ہے جو غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے بھی پہلے غزہ کے علاقے "الشجاعیہ" میں رہائش پذیر تھی اپنے گھر والوں کے ساتھ؛ اور اب غذائی قلت اور جنگ سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں نے رہف عياد کا یہ حال بنا رکھا ہے؛ اس کا وزن گھٹ چکا ہے اور اس کے بال گر چکے ہیں۔
"سوار عاشور" پانچ ماہ کی نو زائیدہ بچی ہے جو موت کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے۔ شدید غذائی قلت اور غزہ کے محاصرے سے پیدا ہونے والی عام بھوک اور وسیع پیمان پر کال پڑنے کی وجہ سے آج سوار عاشور کی حالت یہ ہے۔
یحییٰ زکریا ابو حلیمہ چار سالہ غزاوی بچہ شدید غذائی قلت اور مسلط کردہ جنگ اور نسل کشی سے پیدا ہونے والی متعدد بیماریوں کی وجہ سے گذشتہ ہفتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
غزہ کے بچے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن اپنا پیٹ بھرنے کے لئے سمندری کچھوے شکار کرنے پر مجبور ہونگے، جیسا کہ فلسطینی باپوں اور ماؤں کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ انہیں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ان کو گھوڑوں اور گدھوں کا گوشت کھلانا پڑے گا۔
اسرائیل نامی ریاست نے عرصہ 60 دن سے اپنے زیر قبضہ سرزمین فلسطین کے اصل مالکوں کا منظم انداز سے محاصرہ کر لیا ہے اور غزہ کے باشندوں کو فاقے کروا رہی ہے جن میں دس لاکھ بچے بھی شامل ہیں، مذکورہ ریاست البتہ تنہا نہیں ہے بلکہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور اس جرم میں برابر کی شریک ہیں اسی بنا پر ہی اس عرصے میں غزہ کے اس محصور خطے میں انسانی بنیادوں پر کسی قسم کی امداد بھی داخل نہیں ہوئی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات ناپید ہیں اور فلسطینی عوام ـ بطور خاص اطفال ـ ہلاکت خيز قحط کا سامنے کر رہے ہیں اور غزہ کی پٹی میں انسانی صورت حال ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔
یہ جرائم صرف اعداد و شمار یا رپورٹیں نہیں ہیں بلکہ یہ انتہائی شرمناک اور المناک و غم انگیز مناظر ہیں جو شرمناک، مجرمانہ اور ناقابل یقین عالمی خاموشی کے سائے میں دہرائے جا رہے ہیں۔
سفاکانہ بھوک؛ غزاوی اطفال نشانہ بننے والوں کی صف اول میں
مقبوضہ فلسطینی اراضی میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن آفس کے سربراہ "اجیت سونگھائی" نے الجزیرہ چینل کے نامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی؛ اسرائیل اپنی کوئی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ غزہ کی صورت حال، گذشتہ اٹھارہ مہینوں کی جنگ میں پہلی بار نازک ترین ہے، یہاں پینے کا پانی یا اشیائے خورد و نوش کی تقسیم مکمل طور پر بند ہے؛ 60 دن ہوئے کہ غزہ میں گندم کا ایک دانہ یا انسانی بنیادوں پر کسی قسم کی امداد نہیں پہنچی ہے۔
پانچ ماہ کی سوار عاشور، چار سالہ یحییٰ زکریا ابو حلیمہ اور 12 سالہ رہف عياد فلسطینی بچوں کی صورت حال کے ترجمان ہیں، جن کا بچپن ـ محاصرے، بھوک، دنیا کی مجرمانہ خاموشی اور مغرب سمیت بہت سارے اسلامی ممالک کی طرف سے ان کے قاتل اسرائیلیوں کی مجرمانہ اور ناقابل معافی خاموشی نے - چھین لیا ہے۔
غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر "منیر البرش" نے کہا: ان تین بچوں کی داستان غزہ میں غذائی قلت کے المیے کی تصویر کشی کر رہی ہے اور کم از کم 60 ہزار فلسطینی بچے مسلسل محاصرے اور خوراک اور ادویات سے محرومی کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
فلسطینی سماجی و سیاسی کارکن "یوسف ابو زریق" غزہ میں "غزہ میں فاقوں اور بھوک کی ہلاکت خیزیوں" کی تشریح کرتے ہوئے لکھا: "مردوں کا قدم خم ہوجاتا ہے، عورتیں کھائے پیے بغیر بچوں کو جنم دیتی ہیں، ہمارے جسم دبلے اور فرسودہ ہو جاتے ہیں، اور غذائی قلت کی وجہ سے عارض ہونے والے دبلے پن کو نہیں روک سکتی"۔
انھوں نے اپنے X پیج پر لکھا: "بھوک نے لوگوں سے رونے کی قوت تک بھی چھین لی ہے، ان میں سے کچھ تو دو یا تین شہیدوں کو دفن کر دیتے ہیں، اور پھر پسماندگان کی بھوک مٹانے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی تلاش میں نکلتے ہیں؛ [یعنی یہ کہ] اپنے شہید عزیزوں کے لئے ان کا سوگ، صدمہ اور غم خوف و ہراس اور بھوک کی وجہ سے مسلسل ملتوی ہو رہا ہے!"۔
"غزہ الآن" نامی X اکاؤنٹ نے لکھا: "غزہ میں اطفال صرف بمباریوں میں نہيں مارے جاتے، بلکہ گولے، میزائل اور بم پہنچنے سے پہلے، بھوک انہیں مار رہی ہے۔۔۔ ان کے چپکے ہوئے پیٹ دنیا کی مکمل خاموشی میں چیخ رہے ہیں، اور ان کی ڈوبی ہوئی آنکھیں ملبے کے بیچ روٹی کا ٹکڑا تلاش کر رہی ہیں۔۔۔ وہاں موت کا ذائقہ بھوک والا [ذائقہ] ہے۔۔۔ غزہ میں اطفال بھوکے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے چہرے کے آثار غائب ہو جائیں اور کسی آواز اور پکار اور کسی امداد کے بغیر، موت سے لڑتے ہیں"۔
اور ہاں غزہ میں بچے حادثاتی طور پر نہیں مرتے بلکہ انہیں ٹارگٹ کرکے مارا جاتا ہے: فرعونیوں کی روایت جس پر غاصب صہیونی کاربند ہیں۔
سوشل میڈیا کے ایک صارف نے لکھا: "موت کا ذائقہ بھوک والا ذائقہ ہے اور غیر موجود روٹی کی خوشبو ان دنوں امن اور سلامتی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے"۔
غزہ کے بچوں پر فاقے مسلط کئے گئے ہیں اور وہ بھوک مٹانے کی خاطر پھپھوند لگی بوسیدہ اور خشک روٹی کے ٹکڑے تلاش کرکے کھانے پر مجبور ہیں، بشرطیکہ وہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اور یہ سب دنیا والوں ـ بالخصوص چھوٹے بڑے اسلامی ممالک کی خاموشی ہی نہیں بلکہ غاصب یہودی ریاست کے لئے ان کی مدد و حمایت کا نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ