20 اپریل 2025 - 02:11
کیا اسرائیل فوجی بغاوت سے دوچار ہورہا ہے؟ 

الجزیرہ چینل کے اسٹوڈیو میں ہونے والی اس مختصر سی بات چیت میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا صہیونی ریاست عنقریب ایک فوجی بغاوت سے دوچار ہو رہی ہے؟ ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اس وقت اسرائیل کے پاس طاقت کے دو ہی حربے ہیں: فلسطینیوں کو فاقے کرانے کا رذیلانہ حربہ بروئے کار لانا اور عسکری کاروائیاں جاری رکھنا۔ 

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
سوال: کیا صہیونی ریاست عنقریب ایک فوجی بغاوت سے دوچار ہو رہی ہے؟
اینکر: مجھے خوشی ہے کہ یہاں اسٹوڈیو میں یونیورسٹی کے استاد اور اسرائیلی امور کے تجزیہ کار "ڈاکٹر مُہَنَّد مصطفی" کو خوش آمدید کہوں۔ نیز جناب سیاسی اور تزویراتی امور کے ماہر اور محقق جناب "سعید زیاد" کو بھی خوشامدید کہوں۔ خوش آمدید۔
ڈاکٹر مُہَنَّد! ہم گھنٹہ پہلے [مقبوضہ فلسطین میں فوجی اداروں کی طرف سے شروع ہونے والی] اس تحریک کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے جو مسلسل پھیل رہی ہے؛ اور آپ نے اس تحریک کو "خاموش نافرمانی" کا نام دیا۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ یہ تحریک ایک فوجی بغاوت کی صورت اختیار کرے؟
ڈاکٹر مُہَنَّد: نہیں، بلکہ میرا تصور یہ ہے کہ یہ خطوط اور طومار (Scroll) اس مرحلے پر نہیں پہنچے ہیں کہ ان کے ذریعے فوجی نافرمانی کی دعوت دی جائے۔ تاکہ علی الاعلان اور سابق فوجی یونٹوں یا ریزرو فوجیوں کے نام دوسرے سپاہیوں اور افسروں سے کہا جائے کہ وہ مزید اسرائیلی فوج میں خدمت نہ کریں۔ یہ بات یہاں تک نہیں پہنچے گی، کیوں؟ اس لئے کہ یہ اسرائیلی فوج کی نابودی اور تحلیل کا سبب بن جائے گا، جبکہ تنقید اور احتجاج کرنے والے فوج کی تحلیل اور نابودی کے خواہاں نہیں ہیں۔ وہ صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں فوجی کاروائیوں کی روش بدل دی جائے۔ اور پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ فوجی نافرمانی کی ایسی کوئی دعوت ریاست کو ان کے خلاف بھڑکائے گی اور ان کی اپنی قانونی حیثیت چھین لی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کی کوشش یہ ہے کہ غزہ میں [نیتن یاہو کی اس] کاروائی سے قانونی جواز چھین لیا جائے۔ اسی بنا پر یہ احتجاجی اور تنقیدی خطوط اور طومار فوجی بغاوت کے خواہاں نہیں ہیں؛ بلکہ یہ فوج پر دباؤ ڈال کر اسرائیلی حکومت کے موقف میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ 
تاہم ان احتجاجی اور تنقیدی خطوط اور طوماروں کے ذریعے فوج کے اندر ایک خاموش نافرمانی کی حمایت کی جا رہی ہے؛ اور یہ نافرمانی نہ تو انفرادی ہے اور نہ ہی اجتماعی؛ اور یہ نافرمانی ریزرو سپاہیوں اور افسران کی طرف سے عدم اطاعت اعلی افسران کے منفی جواب دینے کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ اور نافرمانی کی یہ سطح بھی اسرائیل [فوج جیسی] فوج کے لئے بہت بھاری ہے چنانچہ اسرائیلی فوج اس لحاظ سے بحران اور بے چینی کا سامنا کر رہی ہے۔ صہیونی فوج نے فیصلہ کیا کہ اس بحران کا سامنا کرنے کے لئے ریزرو فوجیوں کے ساتھ کوئی مفاہمت نہ کرے بلکہ اس نے حل یہ نکالا کہ ریزرو فوجیوں کو فوج میں خدمت کے لئے نہ بلائے! اس کا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی ریزور فوجیوں کے مطالبات کو بائی پاس کرنا چاہتی ہے؟ جی ہاں! فوج ریزرو فوجیوں کو نہیں بلاتی تاکہ ریزرو فوجیوں کی عدم پابندی اور نافرمانی عوام کے لئے آشکار نہ ہونے پائے؛ اور اس پالیسی کا وسیلہ یہ ہے کہ ریزرو فوجیوں کو خدمت کے لئے نہ بلایا جائے۔ لیکن بہر حال یہ مسئلہ اسرائیلی فوج کو ضرور متاثر کرے گا۔ کیونکہ جنگ [یکطرفہ طور پر ہی سہی] بدستور جاری ہے۔ 
جنگ بدستور جاری ہے اور صہیونی فوج اس انداز سے غزہ کی پٹی پر مکمل قبضہ نہیں کر سکتی جس طرح کہ نیتن یاہو چاہتا ہے، چنانچہ یہ معاملہ فوج کو عسکری مخمصے سے دوچار کرتا ہے اور حکومت کو سیاسی الجھنوں سے۔ 
اینکر: بہت خوب، سعید زیاد! محور مقاومت (محاذ مزاحمت) اس صورت حال کی نگرانی کر رہا ہے۔ آپ کے خیال میں محور مقاومت کے آپشن کیا ہیں؟
سعید زیاد: یہ سوال مسلسل دہرایا جا رہا ہے کہ مقاومت اس صورت حال پر گہری نظر رکھتی ہے اور اس سلسلے میں کچھ کلپ بھی پے درپے نشر کر رہی ہے، یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ مقاومت کے پاس اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں جو پوری جنگ کے دائرے پر بھی اور فطری طور پر سیاسی دائروں پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔ ان دائروں میں سے ایک ـ جس کی طرف آپ نے ڈاکٹر مہند کے ساتھ بات چیت کے دوران اشارہ بھی کیا ـ اسرائیل کے اندر خاموش نافرمانی ہے۔ یہ ایک نیا عامل ہے اور جب سے یہ عامل موجودہ منظرنامے میں شامل ہؤا، اور وجہ یہ تھی کہ جنگ بھی زیادہ طویل ہو چکی ہے؛ اور اسرائیل کو اس جنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور عسکری دشواریوں اور خفیہ قضیوں کے افشا ہونے کی ایک صورت میدانی طور پر آشکار ہو گئی؛ وہ یہ اسرائیل کوئی اچھی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے، اور یہ وہی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے جنگ طویل ہوگئی اور اس میں دنوں اور مہینوں کا اضافہ ہؤا۔ یہاں تک یہ مسئلہ اسرائیل کے ہاں سیاسی پیش منظر کے تعطل تک پہنچ گيا۔ اور اسرائیل کی حکومت کو جنرل اسٹاف کے تمام کمانڈروں کو بدلنا پڑا اور شین بت (شاباک] کے سربراہ کی تبدیلی کے لئے بھی منصوبے بنا رہی ہے۔ لیکن یہ تمام تبدیلیاں نئی کمانڈ کا سبب نہیں بن سکی ہیں کیونکہ نئے کمانڈر بھی پرانے کمانڈروں کی طرح جنگ کے فوجی پہلو کے انجام تک پہنچانے پر قادر نہیں ہیں یوں کہ اسرائیل کی سیاسی صورت حال پر اثر  ہو سکیں۔ 
اس وقت اسرائیل کے پاس طاقت کے دو کارڈ ہیں: فلسطینیوں کو فاقے کرانا اور عسکری کاروائیاں جاری رکھنا۔ فوجی دباؤ کے حوالے سے نہ [نئے چیف آف جنرل اسٹاف] ایال زمیر (Eyal Zamir) اور نہ ہی نئے کمانڈر ابھی تک دائیں بازو کے انتہاپسندوں کا خواب شرمندہ تعبیر کرکے غزہ پر قبضہ کر سکے ہیں اور نہ ہی مناسب ڈویژنوں کی تعیناتی حماس پر دباؤ بڑھانے یا اس کی فوجی صلاحیت کے خاتمے میں کامیابی کا سبب بن سکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ غزہ کے اندر زمینی کاروائیوں کے ذریعے بھی کوئی بڑا وار کرنے سے عاجز ہیں، کیونکہ صہیونی فوج جانی نقصان سے خوفزدہ ہے۔ 
فاقے کرانے کا [رذیلانہ حربہ] ہی رہتا ہے اور اسرائیل ریاست رذالت کے ساتھ اس حربے کو بروئے کار لا رہی ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف حماس پر بلکہ غزہ میں پوری فلسطینی قوم کو شدید صعوبتوں سے دوچار کر رہی ہے۔ صہیونی فوج کے ہاتھ میں موجود یہ کارڈ عوام کے لئے بہت حساس، اذیت ناک اور بھاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارڈ اسرائیل نے اس سے پہلے بھی تین مرتبہ آزمایا ہے اور لاحاصل رہا ہے۔ 
مارچ 2024ع‍ میں بھی یہ کارڈ ناکام رہا، اس کے بعد جولائی میں بھی اور بعدازاں "جرنیلوں کے منصوبے" کے دوران نیز زمینی کاروائیوں کے دوران، اسرائیلیوں کا یہ حربہ مکمل طور پر ناکام ہؤا؛ اور سمجھوتے کا پہلا مرحلہ شروع ہؤا۔ اور ان مسائل اور اس دباؤ اور علاقائی صورت حال اور ٹرمپ کے علاقائی دورے کے نتیجے میں  سمجھوتے کا پہلا مرحلہ شروع ہؤا۔ اور یہ تمام تر مسائل اگرچہ جنگ کے عمل پر حقیقی صورت میں، فیصلہ کن انداز سے اثر انداز نہیں ہوتے۔ لیکن ممکن ہے کہ یہ کسی حد تک ایسا ماحول پیدا کریں جو نئی حقیقت اور نئی سیاسی صورت حال اور نئے مذاکرات کو جنم دے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha