30 اپریل 2025 - 23:30
ایک سقوط کا تجزیہ، امریکی قوت کا افسانہ جو پانی میں ڈوب گیا + تصاویر

یمنی بحیرہ احمر میں نئے عالمی قواعد لکھ رہے ہیں، اس اثناء میں ایف 18 لڑاکا طیارے کا سمندر میں گرپڑنا ایک حادثہ نہیں، بلکہ یہ ایک افسانے میں دراڑ پڑنے کے مترادف ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ | تصادم کے عین وقت پر محفوظ ترین سمجھے جانے والے طیارہ بردار جہاز سے ایک امریکی لڑاکا طیارے کا پانی میں گرپڑنا، ایک فوجی حادثہ نہيں بلکہ یہ ایک علامت ہے ایک دراڑ کی، جو کہ امریکی بحری حکمت عملی میں پڑ گئی ہے اور ایک علامت ہے اس بات کی کہ خطے میں امریکہ کی پوزیشن گر گئی ہے۔ یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ ایک عظیم تبدیلی ہے، جو ذرائع کی شہ سرخیوں سے بہت آگے، جاری و ساری ہے۔

ایک سقوط کا تجزیہ، امریکی قوت کا افسانہ جو پانی میں ڈوب گیا + تصاویر

اس مختصر تجزیئے میں ایف 18 لڑاکا طیارے کے سمندر میں گر پڑنے کے بارے میں امریکہ کے رسمی بیانیے سے ما وراء، خفیہ حقائق پر نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، ایسے حقائق جو واضح طور پر خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی اور امریکی بحری ڈیٹرنس پروجیکٹ کی ناکامی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ایک منصوبہ بند اور انجینئرڈ بیانیے کا پس پردہ

سینٹکام نے طیارے کے "گر پڑنے" کے فورا بعد کہا کہ وہ حادثاتی طور پر پانی میں گر پڑا ہے! وہ جہاز سے پھسل کر پانی میں گر پڑا! انہوں نے ایک  ٹگ بوٹ (Tugboat) پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن کسی نے بھی امریکی بیڑے اور بالخصوص یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومین طیارہ بردار جہاز کو اس لمحے درپیش خطرات اور حملوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ حقائق کو چھپانے کی کوشش کی۔

لیکن سقوط (اور گر پڑنے!) کے اس واقعے کے وقت اور مقام (زمان اور مکان) کا صحیح جائزہ، لیا جائے تو ایک بالکل مختلف تصویر ابھرتی ہے۔

ایک سقوط کا تجزیہ، امریکی قوت کا افسانہ جو پانی میں ڈوب گیا + تصاویر

جس دن یہ واقعہ ہؤا، اسی دن یمنیوں نے بحیرہ احمر میں امریکی بحری جہازوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کی خبر دی تھی: ڈرون طیارے، بیلسٹک میزائل، اور صنعاء کے پیشگی انتباہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی طیارہ بردار جہاز ہیری ٹرومین فعال تنازع کی حالت (Active conflict status) میں تھا چنانچہ ایک طیارے کا "گر پڑنا" ایک فنی حادثہ" نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہیری ٹرومین حملے سے بچنے کے لئے "فرار کی چال" چلا رہا تھا!

فرار کی تدبیر اور تسدید (Deterrence) کی شکست و ریخت کا آغاز

امریکہ کے سرکاری بیانیے کے برعکس، کچھ غیر سرکاری مگر مستند معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیری ٹرومین طیارہ بردار جہاز یمنیوں کے میزائل حملے سے بچنے کے لئے فرار کی تدبیر (Evasive maneuver) کر رہا تھا۔ اب اگر "طیارہ گر پڑنے" کا واقعہ اس حال میں پیش آیا ہے تو ایک بڑا سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ "میزائل دفاعی نظام اور اس کے جدید ترین دفاعی اور حفاظتی سسٹمز کے باوجود امریکیوں کا اتنا بڑا جہاز بھاگنے پر مجبور کیوں ہؤا ہے؟

ایک سقوط کا تجزیہ، امریکی قوت کا افسانہ جو پانی میں ڈوب گیا + تصاویر

جواب یہ ہے کہ امریکی میری ٹائم ڈیٹرنس کا بنیادی مفروضہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ وہ دفاعی نظامات ـ جنہیں خطروں سے نمٹنا تھا ـ دفاع کے بجائے طیارہ بردار جہاز کو بچاؤ کے لئے فرار پر مجبور کر چکے ہیں۔ ان حالات میں ایک "طیارے کا گر پڑنا" محض فنی نقص نہیں سمجھا جا جا سکتا بلکہ پورے دفاع نظام کی کارکردگی میں خلل آنے کی صدائے بازگشت ہے۔

واقعے کی خبریں ذرہ ذرہ نشر کرنا، شفافیت کا باعث نہیں بن رہا بلکہ یہ ایک خوف و دہشت کی صدائے بازگشت ہے اندرونی رائے عامہ سے بھی اور اس حقیقت کے عیاں ہونے سے بھی کہ ـ امریکہ مزید اپنا دفاع کرنے سے عاجز ہے، چہ جائیکہ وہ اپنے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرسکے۔

افسانہ جو پانی میں ڈوب گیا

ایف 18 لڑاکا طیارہ امریکی فضائیہ کی طاقت کی علامت ہے۔ چنانچہ ایک حقیقی جنگ میں اس طیارے کا "دوسری بار" گرنا، ریاست ہائے متحدہ کی پوری تشہیری اور عسکری ڈھانچے کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

جس فوج کی پوری کارکردگی کا دارومدار تسدیدی صلاحیت پر استوار ہے، اس کے لئے ایسی صورت حال میں اپنا جدیدترین جنگی طیارہ کھو جانا، ایک واضح پیغام کا حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ "'تسخیر ناپذیری کی پرانی تصویر' پر مزید کوئی بھروسہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ دیکھئے: طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومین ـ جو امریکی بحری طاقت کی علامت ہے ـ دشمن ملک پر مسلط ہونے کے بجائے بھاگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

تکنیکی شکست سے تزویراتی بحران تک

شاید کچھ تجزیہ کار اس واقعے کی اہمیت کو فنی نقص تک گھٹا سکتے ہیں لیکن اگر "طیارے کے گر پڑنے" کا یہ واقعہ محض ایک فنی نقص یا آپریشنل غلطی کی بنا پر رونما ہؤا ہو، پھر بھی پوچھنا چاہئے کہ "یہ فنی نقص یا یہ آپریشنل غلطی جھڑپ کے حالات میں اور ہنگامی چالیں چلتے وقت رونما ہوئی ہے؟ امریکی جنگی طیارہ عین اس وقت پر طیارہ بردار جہاز سے پھسل کر سمندر میں کیوں گر پڑا جب یمنیوں کے میزائل فضا میں تھے؟

دو صورتیں قابل تصور ہیں: یا تو امریکیوں کے سراغ لگانے والے آلات خطرے کی تشخیص میں ناکام ہو گئے ہیں یا انہوں نے خطرے کا سراغ تو لگا لیا تھا مگر مقابلے کی صلاحیت ناپید تھی! دونوں صورتوں میں امریکہ کو ایک تزویراتی بحران کا سامنا ہے؛ ایسا بحران جو نہ صرف جنگ کے میدان میں امریکی فوجی صلاحیت کو متنازعہ بناتا ہے بلکہ عالمی اعتبار و اعتماد کے میدان میں اسے مشکوک اور متنازعہ بنا رہا ہے۔

یمن طاقت کے نئے قواعد لکھ رہا ہے

یمنی افواج اب محض رد عمل نہیں دکھاتے بلکہ جنگ کے شرائط اور کیفیات کا تعین بھی خود ہی کرتے ہیں۔ ان کی کاروائیاں دفاعی حالت سے نکل کر حملے کی حالت میں داخل ہوئی ہیں۔ وہ نہ صرف دھمکی دیتے ہیں بلکہ ٹھیک ٹھیک نشانہ بھی بناتے ہیں۔

صنعاء اس کاروائی کی تفصیلات بتانے میں عجلب سے کام نہیں لے رہے ہیں اور یوہ ان کی تزویراتی خود اعتمادی اس حقیقت کی علامت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ نمایآں ہؤا ہے وہ صرف اور صرف کچھ بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔

نتیجہ: ایک جُغ-سیاسی تبدیلی (Geopolitical change) کے آغاز میں ایک علامتی سقوط [گر پڑنا]

ایف 18 طیارے کے سقوط (گر پڑنے) کو صرف عسکری نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے، کیونکہ علاقائی طاقت کے قواعد کے نئے دور کے آغاز کی صدائے بازگشت ہے۔ امریکہ بعدازیں بحیرہ احمر کے بارے میں طاقت کی پوزیشن سے دعوے نہیں کر سکتا اور وعدے نہیں دے سکتا۔ امریکہ کے بحری بیڑے اور اس کے طیارہ بردار بحری جہاز مزید تسدید اور ڈیٹرنس کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ان کو خود حفاظت کی ضرورت ہے۔

یہ تبدیلی البتہ یمن کی فنی ترقی ہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خطے میں ایک جدید سیاسی اور عسکری عزم اور ارادے کے معرض میں آنے کا ثمرہ ہے؛ ایسا عزم و ارادہ جس نے جنگ کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر دشمن کے تسدیدی ڈھانچے کو توڑ رکھا ہے اور اس کے منصوبوں کو ناکارہ بنا دیا ہے۔

ایک سقوط کا تجزیہ، امریکی قوت کا افسانہ جو پانی میں ڈوب گیا + تصاویر

اس نئے راستے پر ایک لڑاکا طیارے کا "گر پڑنا" اس نئے سفر کا آغاز ہے، ـ دو روز ہی قبل امریکی اسٹیلتھ بمبار طیارہ (Northrop B-2 Spirit) بھی یمنیوں کے ریڈار نے دیکھ لیا اور اس کا تعاقب بھی کیا چنانچہ ـ شاید مستقبل قریب میں ہمیں سقوط اور "گر پڑنے" کے اس سے کہیں بڑے واقعات بھی دیکھنے اور سننے کو ملیں، حتی ان پوزیشنوں سے تنزلی کے واقعات، جو آج تک دنیا والوں کی نگاہ میں ناقابل حصول تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: رضا دہقانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha