3 جولائی 2025 - 23:50
امریکہ عالمی بالادستی جاری رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا

اگرچہ امریکہ دنیا کی چوہدراہٹ سے گریز کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ اتنی آسانی سے اپنی عالمی بالادستی سے دستبردار نہیں ہوگا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں پروفیسر اور معروف امریکی ماہر معیشت چارلس کنڈل برگر (Charles P. Kindleberger) یورپ کی تعمیر نو کے فکری معمار تھے، جو اپنی ہیجیمونک سٹیبلیٹی تھیوری کے لئے مشہور تھے۔

اس نظریے کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی نظام میں استحکام صرف ایک غالب طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہے، جو تجارت کے لئے کھلے بازار، مستحکم کرنسی یا سمندروں میں آزادانہ آمد و رفت جیسے اقدامات کے ذریعے دنیا میں عوامی بھلائی کے لئے کام کرے۔

کنڈل برگر نے اپنی تھیوری کی بنیاد دو عالمی جنگوں کے درمیانی دور پر رکھی؛ جب برطانیہ کی طاقت کمزور ہوئی تو امریکہ نے غالب طاقت کا کردار اپنانے سے گریز کیا، جس کے نتیجے میں 1930 کی دہائی میں شدید سیاسی و معاشی بحران پیدا ہؤا.

تاہم 1944 تک منظرنامہ پیکس امریکانا (Pax Americana) کے لئے تیار ہو چکا تھا کیونکہ امریکہ نے بالآخر بریٹن ووڈز میں عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل کے لئے عالمی عوامی بھلائی کی فراہمی کا عزم کیا۔

بعد کے محققین نے کنڈل برگر کے خیالات پر مزید تحقیق کی۔ گذشتہ ماہ اپنی آخری سانس لینے والے جوزف نائے (Joseph S. Nye) نے کنڈل برگر ٹریپ نظریے (Kindleberger Trap) کو باقاعدہ متعارف کروایا۔

یہ نظریہ اس وقت کو ظاہر کرتا ہے جب ایک غالب طاقت سے دوسری کی طرف منتقلی کے دوران دنیا شدید سیاسی و اقتصادی خلفشار کا شکار ہو جاتی ہے۔

حال ہی میں امریکہ کو بعض ایسی عالمی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتے ہوتے دیکھا گیا، جو جدید عالمی اقتصادی نظام کی بنیاد رہی ہیں۔

اس پر قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ شاید امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی پیچھے ہٹنے والا ہے۔

ٹرمپ حکومت کے حکام کا کہنا تھا کہ چونکہ امریکی ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی ہے، اس لئے اس کی قدر فطری طور پر بہت زیادہ ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے امریکی اشیا مہنگی ہو گئیں اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی۔

اس حوالے سے اقتصادی مشیراں کونسل (Council of Economic Advisers) کے چیئرمین اسٹیفن میران (Stephen Miran) نے ایک مشہور رپورٹ میں تجویز دی کہ امریکی ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے لئے بین الاقوامی معاہدہ کیا جائے۔

ایسی باتوں نے بعض سرمایہ کاروں کو امریکی اثاثہ جات سے دست بردار ہونے پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ساتھ ہی جب ڈالر کی قدر یورو اور ین کے مقابلے میں کمزور ہوئی تو دنیا کی غالب کرنسی کے طور پر اس کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے۔

دنیا جیسے جیسے بے بسی سے 'کلاسیکی کنڈل برگر جال' کی طرف بڑھ رہی ہے، خاص طور پر جب دنیا بھر میں جیو سیاسی تنازعات کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ دنیا کی قیادت چین کے سپرد کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔

تاہم عالمی طاقتوں کے اس مقابلے کا آخری باب ابھی لکھا نہیں گیا۔

قوموں کو کسی نتیجے پر جلد بازی سے نہیں پہنچنا چاہئے اور پالیسی سازوں کو بھی چاہئے کہ وہ حکام کے بیانات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیں۔ خاص طور ایسے ماحول میں جب ہر جانب جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہوں، ایسے میں کوئی بھی غلطی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے ساتھ حالیہ تنازعے میں انڈین پالیسی سازوں پر ایسا تاثر غالب تھا کہ امریکہ اس تنازعے میں سفارتی مداخلت نہیں کرے گا؛ ممکن ہے اس سوچ کو امریکی حکام کے ابتدائی بیانات نے تقویت دی ہو، خاص طور پر نائب صدر جے ڈی وینس کے اس بیان نے کہ 'بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔'

لیکن جیسے ہی اس تنازعے نے شدت اختیار کی، امریکی نائب صدر اور وزیر خارجہ نے انڈین اور پاکستانی قیادت سے رابطے کیے تاکہ ماحول کو پر امن بنایا جا سکے اور سیزفائر کی راہ ہموار ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ حالیہ جنوبی ایشیائی تنازعے نے واشنگٹن میں پالیسی کے میدان میں گہری سوچ و بچار کو جنم دیا ہے۔ امریکہ عالمی نظام کی باگ ڈور چین کے سپرد کرنے کے لئے تیار نہیں اور اپنے غالب کردار کو برقرار رکھنے کے لئے سخت مقابلہ کرے گا؛ نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا؛ [یا پھر ایسا کرنے کی کوشش کرے گا یا پھر بالادستی کی اداکاری کرتا رہے گا]۔

یہ پالیسی شفٹ ان قیاس آرائیوں کو بھی ختم کر دیتی ہے کہ امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے دست بردار ہونے والا ہے؛ کیونکہ اگر وہ ان اداروں سے علیحدہ ہوتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو گا کیونکہ اس سے عالمی مالیاتی نظام کے قواعد پر اثرانداز ہونے کی اس کی اصل طاقت ختم ہو جائے گی۔

اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی نظام پر امریکی ڈالر کی برتری بھی ختم نہیں ہونے والی۔ اگرچہ ڈالر پر دباؤ ہے لیکن فی الحال اس کا کوئی متبادل نہیں۔

آئی ایم ایف کے مطابق 2024 میں امریکہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 26 فیصد پیدا کر رہا تھا، جو 1980 کے 25 فیصد کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے حالانکہ اس دوران چین کی معیشت نے غیرمعمولی ترقی کی۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تنازعے کے بعد امریکہ کی طرف سے کروائے گئے جنگ بندی معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ واقعات نے امریکی پالیسی سازوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔

اگرچہ امریکہ دنیا کی چوہدراہٹ سے گریز کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اتنی آسانی سے اپنی عالمی طاقت چھوڑنے والا نہیں۔

دوسرے الفاظ میں دنیا ’کنڈل برگر ٹریپ‘ کی طرف جا سکتی ہے لیکن امریکہ بغیر لڑے اپنی عالمی برتری نہیں چھوڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصنف "ڈآکٹر اقدس افضل" نے فل برائٹ سکالرشپ پر معاشیات میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ ان کا ایکس ہینڈل @AqdasAfzal ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha