5 اکتوبر 2025 - 19:05
اندرونی تقسیم اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ ہے، صہیونی صدر + نکتہ

صہیونی ریاست کے سربراہ نے جنگ غزہ میں جنگ بندی کی بات چیت کے موقع پر ہی صہیونی ریاست کے اندرونی اختلافات میں شدت آنے پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے اسرائیلی ریاست کے وجود کے لئے خطرہ قرار دیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غاصب ریاست کے سربراہ اسحاق ہرزوگ، نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ (یوم کیپور) کی یاد میں منعقدہ تقریب میں  مقبوضہ فلسطین میں اندرونی اختلافات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے صہیونی ریاست کے لئے 'وجودی خطرہ' قرار دیا۔

ہرزوگ نے غزہ کی جنگ کے دوران اندرونی اختلافات کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے اسرائیلی حکام کی جانب سے خصوصی اقدامات کا مطالبہ کیا اور زور دیا کہ حکام کو جنگ غزہ کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور اس کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ بات اس وقت سامنے آئی ہے جب جنگ غزہ ختم کرنے اور جنگ بندی کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے نے اسرائیلی حکومت میں اندرونی اختلافات کو شدت سے ہوا دی ہے، خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کے کابینہ کے اراکین اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں جس سے حکمران اتحاد کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے اسرائیلی وزیر برائے داخلی سلامتی ایتامار بن گویر نے دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی حماس موجود رہی تو وہ بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرے گا۔

بن گویر نے ایک سخت بیان میں کہا: "حالیہ واقعات کے پیشِ نظر، میں اور 'اوتسما یہودیت' پارٹی نے واضح طور پر وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا ہے کہ اگر تمام قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی حماس موجود رہی تو یہ پارٹی کابینہ سے استعفیٰ دے دے گی"۔

اسی دوران، اسرائیلی وزیر خزانہ "بزالئل اسموترچ" نے تجاویز پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم "بنیامین نیتن یاہو" کے فیصلے کو "ایک بڑی غلطی" قرار دیا۔

اسموترچ نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ پر لکھا: "غزہ پر ـ پہلی بار ـ حملے کئے بغیر، جنگ روکنے اور مذاکرات کرنے کا نیتن یاہو کا فیصلہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔"

اسموتریچ نے کہا: "یہ فیصلہ حماس کی طرف سے وقت ضائع کرنے، اور اسرائیلی موقف کو مزید کمزور کرنے کا ایک یقینی فارمولا ہے، خواہ وہ 72 گھنٹے کے دوران قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں ہو یا جنگ کے بنیادی مقصد یعنی حماس کے خاتمے اور غزہ کو مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے معاملے میں ہے۔"

بن گویر نے اس سے قبل اسموتریچ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے ممکنہ معاہدے کی مخالفت کرے۔

اسرائیلی چینل i12 کے مطابق، بن گویر نے کہا: "میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو جنگ بندی اور حماس کے ساتھ معاہدے سے اتفاق کرنے سے روک سکتا ہوں۔"

چینل نے مزید کہا کہ بن گویر کی تجویز ان قیاس آرائیوں کے موقع پر سامنے آئی ہے کہ "اگر نیتن یاہو حماس کے ساتھ معاہدے ـ اور جنگ بندی ـ پر راضی ہو جاتا ہے، اور بن گویر اور اسموترچ کی جماعتیں حکومت چھوڑ جاتی ہیں تو بینی گانٹز کی سربراہی میں 'کیمپ پارٹی' نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل ہو سکتی ہے۔" 

اس صورت میں، نیتن یاہو کی کابینہ کو صہیونی پارلیمان "کنیسٹ" (Knesset) کے 61 ارکان کی حمایت حاصل ہوگی، چنانچہ نیتن یاہو اپنے موجودہ اتحاد کے خاتمے سے بری طرح پریشان ہے۔

جنوری 2025 میں جب نیتن یاہو نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے سے اتفاق کیا تو بن گویر نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا؛ پھر 18 مارچ کو نیتن یاہو نے اپنے معمول کے مطابق عہدشکنی کی اور سمجھوتے کی خلاف ورزی کرکے غزہ جنگ دوبارہ شروع کردی تو یہ شدت پسند شخص دوبارہ حکومت میں شامل ہو گئی۔

اسی اثنا، میں کنیسٹ میں لیکود پارٹی کے رکن عامیت ہالیوی نے غزہ شہر میں فوجی کارروائیاں روکنے اور صہیونی فوجیوں کے دفاعی انداز میں منتقل ہونے کے فیصلے پر تنقید کی۔ ہالیوی نے اپنے ایکس نیٹ ورک (سابقہ ​​ٹویٹر) اکاؤنٹ پر لکھا: "آج غزہ میں اسرائیلی فوج کی فوجی کارروائیوں کو روکنا حماس کی جانب سے ایک گہری غلط فہمی کی عکاسی کرتا ہے۔"

نکتہ:

بہرحال صہیونی ریاست کے صدر کو کچھ نظر آیا ہے جو اسرائیل کو درپیش 'وجودی خطرے' پر زور دے رہے ہیں۔ بلا شبہہ اسرائیلی ریاست کو اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے اور گذشتہ چند برسوں ـ بالخصوص طوفان الاقصی کے بعد ـ اس ریاست کی حالت حقیقتا نازک ہے؛ اور جنگ اس لئے نہیں روکی جا رہی ہے کہ اس سے اسرائیل کی تباہی کھل کر سامنے آئے گی اور اسے ایک ناکام ریاست کا عنوان ملے گا، چنانچہ ٹرمپ کے منصوبے، عربوں کی بے غیرتی، مسلمانوں کی بے حسی، الغرض کوئی بھی چیز اسرائیلی ریاست کو نہیں بچا سکتی، کیونکہ یہ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور ہاں، اسرائیلی جنگ روکنے کی ہمت نہیں رکھتے، دیکھئے ٹرمپ کے مکارانہ صہیونی معاہدے کا انجام کیا بنتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha