اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری انسانی المیہ کسی اور نام سے نہیں بلکہ نسل کشی سے تعبیر کیا جانا چاہیے اور اس کا اصل مجرم اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو ہے جس نے انتہائی بے رحمی کے ساتھ ہزاروں نہیں بلکہ دسیوں ہزار معصوموں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔
نیویارک میں منعقد ہونے والے اقوامِ متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی اجلاس کے سلسلے میں موجود ترک صدر اردوان نے امریکی چینل فوکس نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ ترکیہ اس نسل کشی کے سراسر خلاف ہے اور اس کی مزاحمت جاری رکھے گا۔
پروگرام کے میزبان بریٹ بائیر کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اردوان نے ترکیہ کی خارجہ پالیسی، بالخصوص غزہ کی صورتحال اور روس و یوکرین جنگ پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔
غزہ کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر صدر اردوان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس کی کوئی اور توجیہ ممکن نہیں، یہ 100 فیصد نسل کشی ہے اور اس کا ذمے دار نیتن یاہو ہے، نیتن یاہو نے نہایت سنگ دلی سے اس قتلِ عام میں ہزاروں بے گناہوں کو شہید کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ میں اب تک 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد کو علاج کی غرض سے ترکیہ لایا گیا ہے۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے حماس کے قبضے میں موجود اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو صدر اردوان نے کہا کہ یہ معاملہ صرف حماس کے کھاتے میں ڈال دینا درست نہیں، دوسری طرف نیتن یاہو کے مظالم کو ہم کس طرح نظرانداز کر سکتے ہیں؟
اردوان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کیا یہ کہا جا سکتا ہے حماس عسکری طاقت میں اسرائیل سے زیادہ ہے؟ ہرگز نہیں، اسرائیل کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں جنہیں وہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں سب کے خلاف سفاکی سے استعمال کرتا ہے۔
غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے سے متعلق سوال پر صدر اردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں روس و یوکرین جنگ ختم کر دوں گا، کیا یہ ختم ہوئی؟ آج بھی جاری ہے، اسی طرح اس نے غزہ جنگ کے بارے میں بھی یہی کہا تھا لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔
حماس کے بارے میں صدر اردوان نے اپنا پرانا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ 20 برس قبل جب میں یہاں آیا تھا تو مجھ سے یہی سوال پوچھا گیا تھا اور میں نے تب بھی یہی کہا تھا کہ میں حماس کو دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ ایک مزاحمتی تحریک سمجھتا ہوں۔
ایف 35 معاملہ اور امریکا سے تعلقات
صدر اردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جمعرات کو ہونے والی ملاقات کے حوالے سے کہا کہ اس ملاقات میں ایف 35 طیاروں کے معاملے سمیت دیگر دفاعی موضوعات پر بھی بات چیت ہو گی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ترکیہ ایف 35 پروگرام کا باضابطہ شراکت دار اور پیداواری ملک رہا ہے اور اس مقصد کے لیے 1.4 ارب ڈالرز کی خطیر رقم بھی ادا کر چکا ہے، لیکن اس کے باوجود ترکیہ کو طیارے فراہم نہیں کیے گئے، اردوان کے بقول یہ رویہ اسٹریٹجک شراکت داری کے منافی اور سراسر غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس مسئلے کو دوبارہ اٹھائیں گے اور امید کرتے ہیں کہ اس کا کوئی مثبت حل نکلے، اس ملاقات میں ایف 16 طیاروں سے متعلق پیش رفت بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
صدر اردوان نے مزید کہا کہ ترکیہ اور امریکا کے درمیان تجارت خصوصاً دفاعی صنعت کے میدان میں، مستقبل میں کہیں زیادہ فروغ پائے گی، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور صنعت کے دیگر شعبوں میں بھی تعاون میں اضافہ متوقع ہے۔
یورپی یونین پر تنقید
اردوان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ترکیہ جو ایک طاقتور نیٹو رکن ملک ہے، گزشتہ 50 برسوں سے زائد عرصے سے یورپی یونین کے دروازے پر دستک دے رہا ہے لیکن اب تک اسے رکنیت سے محروم رکھا گیا ہے، ان کے مطابق یہ طرزِ عمل سراسر ’غیر منصفانہ‘ ہے۔
آپ کا تبصرہ