بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، مشہور بین الاقوامی خبر رساں ادارے فنانشل ٹائمز نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں اسرائیل پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کا جائزہ لیا ہے:
رپورٹ میں کہا گیا ہے:
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اعلان کیا کہ "اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہؤا ہے"، جس کے چند ہی گھنٹے بعد نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایک دیو ہیکل بل بورڈ نے لاکھوں راہگیروں کو اس حقیقت کی تصویری دکھائی۔ اس اقدام نے دنیا بھر میں احتجاجی سرگرمیوں کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔
اسی وقت، فلسطین کے حامی گروپوں نے "GameOverIsrael" (کھیل ختم ہے، اسرائیل!) کے نام سے ایک مہم شروع کر دی تاکہ یورپی فٹ بال فیڈریشنوں پر اسرائیلی ٹیموں کا مقاطعہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا سکے۔ ایک مہم جو نیویارک میں ورلڈ کپ فائنل سے ٹھیک ایک سال قبل شروع کی گئی۔
لندن کنسرٹ سے لے کر ہالی ووڈ سٹارز تک: سب اسرائیل کے خلاف
نیویارک کے بل بورڈ کے ایک دن بعد، 'جیمز بلیک' اور 'پنک پینتھرز' سمیت درجنوں معروف فنکار، "فلسطین کے لئے شانہ بشانہ" کے عنوان سے بھرے لندن کنسرٹ میں اسٹیج پر آئے۔ تقریب میں فلسطینی کارکنوں اور ہالی ووڈ اداکاروں نے بھی شرکت کی۔
امریکی اداکار 'رچرڈ گیئر' نے اسرائیل کے وزیر اعظم 'بنیامین نیتن یاہو' پر جنگ روکنے کے لئے دباؤ ڈالنے میں ناکامی پر ٹرمپ انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سابق مانچسٹر یونائٹڈ کلب کے فرانسیسی فٹ بال اسٹار 'ایرک کینٹونا' نے بھی کھلاڑیوں اور کلبوں سے اسرائیلی ٹیموں کے بائیکاٹ میں شامل ہونے کی اپیل کی، جس کا سامعین نے شاندار استقبال کیا۔ انھوں نے اپنے آتشیں خطاب میں زور دے کر کہا: "ہمیں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی یاد ہے؛ کھیلوں کے بائیکاٹ نے اسے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔"
فٹ بال: اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ مہم کا مرکزی میدان
کارکنوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی میدان فٹ بال سے زیادہ عالمگير نہیں ہے، اور اگر اس میدان میں اسرائیل کا مقاطعہ کیا جائے تو دوسرے ثقافتی شعبے اور کھیلوں کے مختلف شعبے، بھی اس کی پیروی کریں گے، جیسا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اور اس سے قبل جنوبی افریقہ میں ہؤا تھا۔
"GameOverIsrael" (کھیل ختم ہے، اسرائیل!) مہم کے باضابطہ آغاز سے پہلے، کھیلوں میں اسرائیل پر دباؤ کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ پچھلے مہینے، اطالوی فٹ بال کوچز ایسوسی ایشن نے "غزہ میں روزانہ قتل عام" کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل میں بین الاقوامی مقابلوں کی معطلی کا مطالبہ کیا۔ نارویجن فٹ بال فیڈریشن نے بھی اسرائیل کے خلاف میچ سے حاصل ہونے والی ٹکٹوں کی آمدنی انسانی امداد کے لئے عطیہ کر دی۔
اسپین میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے واضح طور پر اسرائیل پر تمام بین الاقوامی مقابلوں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی سائیکلنگ ٹیم کے خلاف مظاہرے بھی "ویلٹا" مقابلوں کے آخری مرحلے کی منسوخی کا باعث بنے۔
'بائیکاٹ اسرائیل' میں فن و ثقافت بھی شامل
دباؤ صرف کھیلوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہالی ووڈ میں، 4,500 سے زیادہ فنکاروں، اداکاروں اور ہدایت کاروں نے "End of Complicity Pact" کے نام سے ایک بیان پر دستخط کئے ہیں، جس میں اسرائیلی فلمی اداروں کے ساتھ تعاون کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
ثقافتی لیجنڈز بھی احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ 'حنا انبن' نے ایمی ایوارڈ قبول کرتے ہوئے "آزاد فلسطین" کا نعرہ لگایا، اور ہسپانوی 'اداکار جیویئر بارڈم' سرخ قالین پر فلسطینی کیفیہ پہنے نظر آئے۔
یورپ میں، یوروویژن گانے کے مقابلے میں اسرائیل کے خلاف خطرات میں تیزی آگئی ہے۔ آئرلینڈ، اسپین، نیدرلینڈز اور سلووینیا جیسے ممالک نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل ان مقابلوں میں شرکت کرتا ہے تو وہ دستبردار ہو جائیں گے۔
جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کی یاد کی طرف واپسی
بائیکاٹ، پابندیاں اور سزا (BDS) تحریک کے بانیوں میں سے ایک 'عمر برغوثی' ہیں جو کہتے ہیں، "اسرائیل کے بائیکاٹ کی کالیں معمول کا عمل بن چکی ہیں؛ ہالی ووڈ سے لے کر سیاسی رہنماؤں تک۔ یہ ہمارا جنوبی افریقی لمحہ ہے۔"
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ، "جنوبی افریقہ کے تجربے کی طرح، حکومتوں کی طرف سے تبدیلی آخری قدم ہو گی، اور بنیادی توجہ رائے عامہ کو تبدیل کرنے اور ثقافت، کھیلوں اور معیشت کے دباؤ پر مرکوز ہے۔"
اسرائیل کے لئے مغربی دارالحکومتوں کا بدلتا ہؤا لہجہ
سفارتی سطح پر بھی تبدیلی کے آثار ہیں۔ برطانیہ نے اس سال رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز میں اسرائیلیوں کا داخلہ بند کر دیا ہے۔ نیز توقع کی جاتی ہے کہ برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک جلد ہی فلسطین کو تسلیم کر لیں؛ اس اقدام کو دو ریاستی حل کی حمایت اور نیتن یاہو کی پالیسیوں کی مخالفت کے پیغام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک منظم تھی اور اس میں نیلسن منڈیلا جیسے رہنما موجود تھے، لیکن اسرائیل کے خلاف موجودہ مظاہرے زیادہ بکھرے ہوئے ہیں اور ان میں مرکزی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔
بڑھتی ہوئی تنہائی اور نیتن یاہو کا ردعمل
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس عالمی لہر کے سامنے وہی معمول کی حکمت عملی اپنائی ہے، اور تنقید کرنے والوں پر حماس کے پروپیگنڈے یا "مسلم اقلیتوں" سے متاثر ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس نے ایک اقتصادی کانفرنس میں اعتراف کیا: "اسرائیل ایک بہت ہی چیلنجنگ دنیا میں داخل ہو چکا ہے اور اسے خود کفیل معیشت کی طرف بڑھنا چاہئے۔"
ان ریمارکس نے اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا اور اسرائیل کے "عالمی ناپسندیدہ" میں زوال کے بارے میں اسرائیلی خدشات کو بڑھا دیا۔ کچھ اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی دباؤ کا اب تک روزمرہ کی زندگی پر بہت کم اثر پڑا ہے، لیکن اس نے یہود دشمنی کے خدشات اور خدشات کو ہوا دی ہے۔
اس بیان نے اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا اور "اسرائیل کی کایا پلٹ" کے سلسلے میں اسرائیلیوں کے خدشات میں اضآفہ کیا، اسرائیل "عالمی ناپسندیدہ ریاست" کی سطح تک گر گيا۔ بعض اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیرونی دباؤ کا روزمرہ زندگی پر اب تک محدود اثر ہؤا ہے، لیکن 'یہودی مخالف' رویوں کا خوف اور اضطراب بڑھ گیا ہے۔
یونیورسٹیز اور علمی حلقے اسرائیل کے خلاف ہیں
آئرلینڈ، اسپین، اٹلی اور ہالینڈ سمیت کئی یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ اسرائیلی محققین کے مطابق ناشرین اور علمی انجمنیں بھی ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تاہم، کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی تنہائی ـ نیتن یاہو کے لئے "دنیا یہودیوں کے خلاف ہے" کے بیانیے کو تقویت دینے اور قوم پرستوں اور مذہبی شخصیات کے درمیان اپنی مقامی بنیاد کو مضبوط کرنے کا بہانہ بھی ـ ہو سکتی ہے۔
جنگ کا تسلسل اور مستقبل کا نقطہ نظر
عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیل نے اُسی دن غزہ میں ایک نیا زمینی آپریشن شروع کیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے حکومت پر نسل کشی کا الزام لگایا۔ نیتن یاہو نے جنگجویانہ لہجے میں کہا: "ہمیں ایتھنز اور گریٹر سپارٹا دونوں ہی ہونا چاہئے، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔"
اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف اسرائیل کے پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ بحران کے گہرے ہونے اور عالمی پابندیوں میں شدت آنے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ