بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ال ہی میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ایک ساحل پر حنوکاہ نامی یہودی تہوار کے موقع پر جشن مناتے ہوئے صہیونیت کے حامی یہودیوں پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں 16 یہودی مارے گئے اور 40 کے قریب زخمی ہوئے۔

صہیونی اخبار 'یدیعوت آحارونوت' نے لکھا: بونڈی ساحل پر حنوکاہ جشن کے لئے 2000 یہودی جمع ہوئے تھے جنہیں نشانہ بنایا گیا۔
گوکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اس واقعے کی تائید نہیں کی اور غزہ میں بچوں کے قتل پر فخر کرنے والے یہودی، عیسائی اور حتی کہ بعض غیر عیسائی اور غیر یہودی صہیونیوں کے رویے کے برعکس، مسلمانوں نے وسیع پیمانے پر اس واقعے کی مذمت کی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو سالہ قتل عام اور تباہ کاریوں کی وجہ سے ایک عالمی غم و غصہ دنیا بھر کے انسانوں کے ذہنوں اور دلوں میں تہہ در تہہ جمع ہوچکا ہے، جو ممکن ہے کہ اس طرح کے واقعات پر منتج ہو جائے اور ایک طویل مدتی صہیون مخالف تحریک کی صورت اپنائے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کے ذمہ دار صہیونی حکمران اور ان کے عالمی سرپرست ہیں اور ان واقعات کو یہود دشمنی کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ تو "جو بوؤگے وہی کاٹوگے" کا فطری قاعدہ ہے جس میں غیر صہیونی یہودی بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔

چنانچہ اس واقعے پر آسٹریلوی اور صہیونی ذرائع کے خیالات کا جائزہ لینے قبل یہ اہم سوال اٹھانا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات غزہ کے واقعے کے بعد صرف ان یہودیوں کے خلاف کیوں زور پکڑ گئے ہیں جو صہیونیت کے تابعدار اور صہیونی ریاست کے حامی ہیں؟ جس کا سادہ اور قابل فہم جواب یہی ہے کہ یہ کاروائیاں فلسطین میں صہیونیوں کے ہزاروں جرائم اور مظالم اور غزہ میں عورتوں اور بچوں معصوم فلسطینیوں کے خلاف صہیونی کاروائیوں کا نتیجہ ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں صہیونی عناصر بالکل غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ دو سالہ وحشیانہ جارحیت، ٹرمپ کے مسلط کردہ امن منصوبے کے کامیاب ہونے کی صورت میں بھی، طویل عرصے تک مختلف قسم کے رد عمل کا باعث بنتی رہے گی اور صہیونیوں کے حالات روز بروز بد سے بدتر ہوتے جائیں گے اور دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم معاشروں میں ـ صہیونی یہودیوں اور صہیونی عیسائیوں اور ان کی تائید کرنے والے مسلم اور عرب حکمرانوں کی افسوسناک کارکردگی کی وجہ سے ـ یہ تہہ در تہہ جمع ہؤا غم و غصہ مختلف طریقوں سے ابھرتا رہے گا؛ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور دنیا والے صہیونی ریاست اور اس کے حامیوں کے اس گھسے پٹے بیانیے سے مزید متاثر نہیں ہونگے کہ "یہودی مظلوم ہیں؛ اور انہیں 'یہود دشمنی' (سام دشمنی، ضد سامیت، سام مخالفت یا Antisemitism) کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ یہ بیانیہ ناکارہ ہو چکا ہے اور ایک طرف سے یہ یہود دشمنی نہیں بلکہ صہیون دشمنی ہے اور دوسری طرف سے یہ سوال بھی شدت سے ابھرا ہے کہ دنیا بھر میں اتنے سارے مسلم دشمن موجود ہیں، عیسائیوں کے دشمن موجود ہیں اور پر کفر کے فتوے نہیں لگتے تو یہود دشمنی کو کیوں جرم سمجھا جائے؟ یہ صہیونی ریاست اور اس کے مغربی سرپرستوں یا چیلوں کی اپنی کارکردگی کا نتیجہ ہے جس کی ذمہ داری ان ہی طرف لوٹے گی۔
آسٹریلوی وزیر اعظم نے اس واقعے کے یہودی دشمنی قرار دیا، صہیونی صدر اسحاق ہرزوگ نے آسٹریلوی وزیر اعظم کو "حکم دیا" کہ آسٹریلیا میں یہود-دشمنی کی اس لہر کا خود جائزہ لیں!
بہر حال اس واقعے کے بعد صہیونی حکمرانوں اور ان کے حامیوں نے آسٹریلوی پولیس کی تفتیش اور اس کے نتائج کا انتظار کئے بغیر یہودی مظلومیت کے تباہ شدہ بیانیے کے احیاء کی کوشش کرتے ہوئے الزامات کا رخ مختلف قوتوں کی طرف کر دیا ہے لیکن ایسے نظریات بھی سامنے آ رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سڈنی میں یہودیوں کے اجتماع پر حملہ کرنے یا کرانے والا اسرائیل ہی ہو سکتا ہے جو اسی مردہ بیانیے میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہا جس کے ذریعے وہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دنیا کو بیوقوف بناتے رہے ہیں۔

اس میں شک نہیں ہے کہ صہیونیت اور صہیونی ریاست گذشتہ دو سالہ عرصے میں غزہ، مغربی کنارے، شام، یمن اور لبنان میں اپنے مظالم کے ذریعے یہودی مظلومیت کے بیانیے کو خود ہی تباہ کر چکی ہے اور اب وہ اس کا احیاء چاہتے ہیں جس کے لئے اپنے کچھ یہودیوں کو قربان کرنے میں معیوب نہیں سمجھتے، ایسا واقعہ جو تاریخ میں کئی بار دہرایا گیا ہے اور مظلومیت کا ڈرامہ رچانے کے لئے اب انہیں دوبارہ اس کی ضرورت پڑی ہے۔
سات اکتوبر کے واقعے میں فلسطینیوں نے تقریبا ڈھائی سو صہیونی فوجیوں اور سیکورٹی اداروں کے کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا لیکن ہلاک شدہ صہیونیوں کی تعداد 1200 کے لگ بھگ تھی، اور بعد میں معلوم ہؤا کہ 900 سے زائد صہیونیوں کو صہیونی فوج کے جنگی ہیلی کاپٹروں نے گولہ باری کرکے ہلاک کر دیا ہے، کیونکہ ان کو مظلومیت کے بیانئے سے ایک بار پھر فائدہ اٹھانے اور غزہ پر طویل مدتی جنگ مسلط کرنے کے لئے اس کی ضرورت تھی! چنانچہ صہیونیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور جب متاثرہ صہیونیوں نے حقائق پر سے پردہ اٹھایا اور تصاویر اور دستاویزات سامنے آئیں تو صہیونی سرغنوں کو اس غلط بیانی کا اعتراف کرنا پڑا پر ان کا کہنا تھا کہ "صہیونی فوج سے غلطی ہوئی ہے!"
ادھر سات اکتوبر کے معرکۂ طوفان الاقصی اور ایران کی طرف سے وعدہ صادق نامی کاروائیوں اور 12 روزہ جنگ میں صہیونیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا گیا تو لاکھوں آبادکار صہیونیوں نے مقبوضہ فلسطین چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور وہ اپنے آبائی ملکوں میں چلے گئے یا پھر دوسرے ملکوں میں آباد ہوئے۔ الٹی نقل مکانی کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اور اب سڈنی جیسے واقعات کے ذریعے ـ مقبوضہ فلسطینی سرزمین اور صہیونی ریاست کو ـ ایک بار پھر محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر کے ممالک میں مقیم یہودیوں کو ایک بار مقبوضہ فلسطین میں آنے کے لئے راغب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جس کی ایک مثال ذیل کا پیغام ہے:
یہودی مبلغ اور بلاگر امیر زارفتی (Amir Tsarfati) نے سڈنی حملے کے فورا بعد ایک پیغام جاری کرکے لکھا:
"یہودیوں کو سب کچھ جمع کرکے مختلف ممالک سے مقبوضہ فلسطین کی طرف سے جانا چاہئے۔ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور نیویارک کے یہودیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے اثاثے جمع کرکے اٹھیں اور ان ملکوں سے چلے جائیں، 'ہم ان کا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار ہیں' حالات اس سے بہتر نہیں ہونگے اور بدتر ضرور ہونگے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ