15 اکتوبر 2025 - 23:12
رہا ہونے والے فلسطینی اسیروں کے انسو اور مسکراہٹیں، ایک رپورٹ + ویڈیو

جب آزاد ہونے والے فلسطینیوں کے ناموں کی فہرست شائع ہوئی تو میں نے اپنے بھائی کا نام تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا۔ پوچھ گچھ اور سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کے بعد بھی میرے بھائی یعقوب کا نام فہرست میں نہیں تھا اور یہ ہمارے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || العالم نیٹ ورک کے نامہ نگار نے رہائی پانے والے فلسطینی اسیروں اور جیلوں میں قید متعدد دیگر اسیروں کے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرکے ایک رپورٹ  تیار کی ہے۔

اس رپورٹ کے آغاز میں؛ صہیونی عقوبت خانے سے رہا ہونے والے فلسطینی اسیر ـ "جلبوع جیل" سے فرار کے ماسٹر مائنڈ اور "فریڈم ٹنل کے انجنئر" ـ محمود العارضہ کے الفاظ، جنین شہر کے ان 31 قیدیوں میں سے ایک ہیں جو مقاومت کے مجاہدین کی مزاحمت کے بدولت ظالم صہیونی غاصبوں کے چنگل سے رہا ہوگئے ہیں۔

ان میں سے 24 کو دوسرے علاقوں میں منتقل کیا گیا اور 7 مغربی کنارے کے علاقے جنین میں واپس آ گئے، لیکن عمر قید کی سزا پانے والے 9 قیدی ـ جن میں یعقوب قادری بھی شامل ہیں - "آزادی سرنگ" کے چھ سورماؤں میں سے ایک ہیں اور کینسر کے موذی مرض میں بھی مبتلا ہیں ـ غاصبوں کے قیدخانوں میں موجود ہیں۔

جلبوع جیل سے فرار ہونے میں زکریا الزبیدی، محمد العارضہ، محمد العارضہ، یعقوب قادری، ایہم کممجی اور مناضل الانفیعات نامی چھ فلسطینی قیدی سرنگ کھود کر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

’ٹنل آف فریڈم‘ کے چھ ہیروز میں سے ایک یعقوب قادری ہیں جن کی بہن 'ریم قادری' نے العالم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "جب رہا ہونے والے فلسطینی اسیروں کے ناموں کی فہرست شائع ہوئی تو ہم نے اپنے بھائی کا نام تلاش کیا لیکن نہیں ملا، تاہم ہم نے ہمت نہیں ہاری اور انتظار کیا کہ اسیروں کے انفارمیشن آفس کے اعلان کا انتظار کیا لیکن میرے بھائی کا نام پھر بھی نہیں آیا اور یہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔"

انھوں نے کہا: "میں مسلسل اس بارے میں سوچتی ہوں کہ انہیں کیسا محسوس ہوگا جب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے تمام دوست رہا ہوچکے ہیں اور وہ صرف قید میں رہ گیا ہے۔ ہم ان کے جذبات کو اس وقت سمجھتے ہیں جب ان کے تمام دوستوں اور ساتھیوں کو معلوم ہؤا کہ انہیں رہا کردیا گیا ہے اور جیل کی کوٹھری میں انہیں تسلی دینے والا کوئی نہیں ہے، جو کینسر کے مریض بھی ہیں۔"

اس کے علاوہ، 31 عمر قید اور 15 سال قید کی سزا پانے والے اسیر سعید الطوباسی کی والدہ حوریہ الطوباسی نے العالم کو بتایا: "ہم ہر روز اپنے بیٹے کی رہائی پر مبارکباد پیش کرنے اور خوش آمدید کہنے کے لئے اس معاہدے کے نفاذ کا انتظار کرتے رہے ہیں، اور ہر معاہدے کے ساتھ، اور ہر معاہدے کے ساتھ، ہمیں امید رہتی تھی کہ ہمارا بیٹا رہا ہونے والوں میں شامل ہوگا۔"

سعید کی والدہ نے مزید کہا: "ہم خوش ہیں کہ غزہ پر مسلط کردہ جنگ بند ہو گئی ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیا کہوں... وہ 23 سال سے اپنے بھائیوں کے لئے ملُول ہیں۔"

العالم کے مطابق صہیونی غاصبوں کی جانب سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کے استقبال اور تقریبات کے انعقاد پر عائد پابندیوں کے باوجود مغربی کنارے کے شہر جنین کے عوام نے 21 سال بعد رہائی پانے والے اسیر 'علی القنیری' کو گلے لگایا اور ان کا پرجوش استقبال کیا۔ علی القنیری کے بھائی نے کہا: "غزہ اور مغربی کنارے میں ہمارے مشکل حالات کی وجہ سے؛ ہم نے جو شہداء کھوئے ہیں اور وہ زخم جو ابھی تک ہمارے دلوں پر موجود ہیں؛ ہماری خوشی مکمل نہیں ہے۔۔۔ لیکن زندگی چلتی ہے اور اب سب سے اہم چیز جنگ کو روکنا ہے۔"

اس سارے حالات و واقعات کے باوجود قیدیوں کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی؛ اور ہزاروں فلسطینی اسیر تاحال صہیونی غاصبوں کے عقوبت خانوں میں قید ہیں جنہیں عمر قید اور طویل مدتی قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

عورتیں، بچے، بوڑھے اور بیمار ابھی تک اپنی رہائی کے منتظر ہیں، اور لوگ رہائی پانے والے قیدیوں کی خوشی اور قابضین کی جیلوں میں قید ان لوگوں کے غیر یقینی انجام کی وجہ سے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں... فلسطینیوں نے معاہدے کا خیرمقدم کیا، لیکن ان تمام متضاد جذبات کا مشترکہ عنصر غزہ جنگ کے خاتمے کی خوشی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha