بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، مصری مصنف "السید شبل" نے ایک نوٹ میں، جو پیر (25 اگست 2025) کو "المیادین" کی ویب گاہ پر شائع ہؤا، لکھا ہے: "امریکی وزیر دفاع نے حال ہی میں یونائیٹڈ اسٹیٹس ایئر فورس کے میجر جنرل اور ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (DIA) کے سربراہ "جیفری کروس" (Jeffrey A. Kruse) اور کئی دیگر اعلیٰ کمانڈروں ـ بشمول نیوی سپیشل وارفیئر کمانڈ کے ذمہ داران ـ کو برطرف کر دیا۔
یہ فیصلہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ سے پیدا ہونے والی الجھن اور دباؤ کی عکاسی کرتا ہے؛ یہ جنگ گذشتہ جون کے مہینے پیش آئی جس کے دوران واشنگٹن نے تل ابیب کی سنگین شکست کے اثرات نبٹانے کی کوشش کی۔
اس بحران میں واشنگٹن دو ضروری چیزوں کے درمیان پھنس گیا تھا: ایک طرف، اسرائیل کو ایک بے مثال خطرے کا سامنا تھا، کیونکہ ایرانی میزائل دفاعی نظام کو نظرانداز کرنے اور اسرائیل کے اندر گہرائی میں اہم فوجی اور شہری اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ دوسری طرف، ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے اتحادیوں کے سامنے فتح کی تصویر برقرار رکھنے کی ضرورت تھی، خاص طور پر ایسی صورت حال میں جب ملکی دباؤ اور ان کی خارجہ پالیسی پر تنقید تیز ہو گئی تھی۔
اس کے جواب میں، امریکہ نے براہ راست کارروائیاں شروع کیں اور ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کرکے انہیں "فیصلہ کن" دھچکا پہنچانے کا ارادہ کیا، بشمول B2 بمباروں کا استعمال۔ لیکن زمینی حقیقت مختلف تھی: ایران نے امریکی اڈے کو نشانہ بنایا کر اور اپنے جوہری پروگرام کو برقرار رکھتے ہوئے جوابی کارروائی کی۔ وائٹ ہاؤس کے پروپیگنڈے اور زمینی حقیقت کے درمیان اس تضاد نے پینٹاگون اور امریکی انٹیلی جنس سروسز میں ایک گہرا بحران پیدا کر دیا۔
کروس کی برخاستگی اور انٹیلی جنس کی وفاداری کا تنازع
توقعات کے برعکس امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ جیفری کروس کو ـ اعزاز کے بجائے ـ عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ برسوں تک، اس نے احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ، امریکی حکام کو ایران کے بارے میں فیلڈ انٹیلی جنس فراہم کی اور کبھی بھی وائٹ ہاؤس کے پروپیگنڈے کے زیر اثر آ کر سچائی کو مسخ نہیں کیا۔ کروس، جس نے "فوج کی آنکھوں" کی کمانڈ کی تھی، سی آئی اے سے بالکل مختلف انداز سے، کام کرتے تھے، اور سی آئی اے کا براہ راست اور آزادانہ طور پر صدر کو رپورٹ کرتا ہے اور جس کی سرگرمیوں کا دائرہ فوجی معاملات سے باہر ہے۔
تاہم، وائٹ ہاؤس نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ وہ اب پیشہ ورانہ جائزوں کو اہمیت نہیں دیتا اور صرف سیاسی وفاداری چاہتا ہے۔ کروس کی برطرفی، جیسے کہ محنت کے وزارت کے اعدادوشمار کے شعبے کی ڈائریکٹر 'ایرکا مکِنٹائر' کی برطرفی، یا سابق نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل 'ٹموتھی ہوگ' کی برطرفی، سرکاری صدارتی بیانیے کو چیلنج کرنے والی ہر آواز کو ختم کرنے کے لئے ڈالے جانے والے دباوٴ کی ایک مثال ہے۔
ایرانی بیانیے کی فتح، ہتھیاروں کی فتح، سے بھی پہلے
شروع ہی سے، ایران اپنی حقیقت پسندانہ بیانیے کے ذریعے اپنے موقف کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہا۔ تہران نے ثابت کیا کہ امریکی حملوں نے ملک کے جوہری پروگرام یا دفاعی صلاحیت کو خاصا نقصان نہیں پہنچایا۔ اس کے برعکس، ٹرمپ "آپریشن مڈ نائٹ ہیمر" کی تشہیر کے ذریعے ایک بڑی کامیابی دکھانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن زمینی حقائق ان کے دعوؤں کے برعکس تھے۔
تقریباً دو ماہ گذرنے کے بعد بھی، ایران کا جوہری پروگرام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اور واشنگٹن اور بعض یورپی دارالحکومت تہران کو مذاکرات پر مجبور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ اس صورت حال کے باوجود ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے بارے میں وائٹ ہاؤس کا سرکاری بیانیہ حقیقت سے بہت دور ہے، اور حالیہ برطرفیاں امریکہ کے اندر ہر پیشہ ورانہ اور آزاد آواز کو دبانے کی کوشش کی عکاس ہیں۔
جب ذرائع ابلاغ ہتھیاروں سے پہلے، جیت جاتے ہیں
بالآخر، حالیہ واقعات نے ایران کے لئےدوہری فتح رقم کی ہے: پہلی فتح یہ کہ اس ملک نے فوجی حوالے سے امریکہ-اسرائیل کی مشترکہ جارحیت کا مقابلہ کیا اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی ٹھکانوں اور اہم مراکز نیز امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر جواب دینے اپنی فوجی صلاحیت کا لوہا منوایا؛ اور دوسری فتح یہ تھی کہ اس نے دنیا کی نظروں کے سامنے امریکہ کا اصل چہرہ دنیا کی نظروں کے سامنے بے نقاب کر کے اپنے بیانیے کی صداقت کو ثابت کر دیا۔
"فتح" کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی واشنگٹن اور تل ابیب کی کوششوں کے برعکس، ایران کے سرکاری میڈیا نے شفاف طریقے سے حملوں کی تفصیلات اور بنیادی ڈھانچے اور فوجی اہداف کو پہنچنے والے نقصان کی اطلاع دی۔ اس شفافیت نے ملکی محاذ کو مضبوط بنانے میں مدد دی اور ایرانی شہریوں کو غیر ملکی خبروں کے ذرائع کی طرف رجوع کرنے سے باز رکھا۔
ایسے حال میں کہ اسرائیل نے میڈیا کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کرکے اپنے نقصانات کو چھپانے کی کوشش کی، ایرانی میڈیا نے درست اور غیر شفاف معلومات فراہم کیں۔ اس نے مغربی سامعین و ناظرین اور صارفین کو بھی معلومات کے لئے اپنے ذرائع سے رجوع کرنے پر آمادہ کیا۔
امریکی تاریخ سے سبق: ناکامیوں کے بعد برطرفیاں
کروس اور دیگر کمانڈروں کی برطرفی، امریکہ کی اس تاریخی روایت کا ایک نمونہ ہے جس میں فوجی ناکامیوں یا شکستوں کے بعد کمانڈ کے اعلیٰ ترین حلقوں میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں:
• کوریا جنگ (1950–1953): ہیری ٹرومین نے جنرل ڈگلس میک آرتھر (Douglas MacArthur) کو جنگ کے انتظام اور چین کے ساتھ بڑھتے تنازع پر اختلافات کے بعد برطرف کر دیا۔
• عراق جنگ (2003–2011): 2006 میں امریکی سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ پر دباؤ آگیا اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا؛ یہ اقدام درحقیقت ایک طرح، عراق میں امریکی اسٹریٹیجی کی ناکامی کا اعتراف تھا۔
• افغانستان (2010): باراک اوباما نے امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل (Stanley McChrystal) کو وائٹ ہاؤس پر تنقید کی بنیاد پر برخاست کر دیا۔ یہ معاملہ جنگ کے انتظام کے حوالے سے نقطہ نظر کے اختلاف کو ظاہر کرتا تھا۔
• اب کروس کی برطرفی اسی سلسلے کی کڑی ہے؛ ایران کے خلاف جنگ کے اعلان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد "قصوروار" ڈھونڈنے کی ایک کوشش۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار برخاستگی میدانِ جنگ میں شکست کے بجائے انٹیلی جنس تشخیصات اور اندازوں میں اختلاف کی وجہ سے ہوئی ہے، اور یہ معاملہ امریکی نظام کے اندر بحران کی گہرائی کو ثابت کرتا ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی اثرات
ٹرمپ کے امریکہ کا یہ داخلی بحران محض داخلی فضا تک محدود نہیں ہے اور اس کے اثرات وسیع ہیں:
اتحادیوں کی سطح پر: نیٹو کے شراکت داروں کا امریکی انٹیلی جنس کی تشخیص اور اندازوں پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے، کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ تشخیص کس حد تک پیشہ ورانہ ہے اور کس حد تک صدر کی رائے کے تابع ہے۔
علاقائی حریفوں کے سطح پر: ایران اپنی حیثیت کو ایک ایسے فریق طرف کے طور پر مضبوط کر رہا ہے جس نے اپنا بیانیہ برقرار رکھی ہے اور دباؤ کے مد مقابل جم کر کھڑا ہے۔
علاقائی سطح پر: اسرائیل، جس نے امریکہ کی "فیصلہ کن ضرب!" پر بھروسہ کیا تھا، اب ایک متضاد حقیقت کا سامنا کر رہا ہے اور امریکی حملے سے اس کو وہ تسدیدی (deterrent) فائدہ نہیں مل سکا ہے جس کا ٹرمپ نے اس کو وعدہ دیا تھا۔
مجموعی طور پر، یہ برطرفیاں ظاہر کرتی ہیں کہ واشنگٹن کو درپیش بحران ایک فوجی ناکامی یا انٹیلی جنس کی غلطی سے کہیں بڑھ کر ہے اور اب یہ اندرونی اور بین الاقوامی اعتماد کے بحران میں بدل گیا ہے؛ جبکہ ایران اپنا بیانیہ مستحکم کرنے میں کامیاب رہا ہے، امریکہ کی ساکھ، جس نے ہمیشہ خود کو "جمہوریت کی مثال" اور "عالمی سلامتی کی ضمانت" کے طور پر پیش کیا ہے، کمزور پڑ گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ