31 مئی 2025 - 18:42
مآخذ: ڈان نیوز
’شاید فلسطینیوں کی نسل کشی اس لیے ٹرمپ کی توجہ کی مستحق نہیں کیونکہ وہ سفید فام نہیں‘

ان تمام چیزوں میں سے جو ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے 4 ماہ میں حاصل کیں، کیا وہ بنیامن نیتن یاہو حکومت کو بھی اسپاٹ لائٹ سے دور کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ | جب اس ماہ کے وسط میں امریکی صدر نے اپنے دورے کو مشرقِ وسطیٰ اور خلیج تک محدود رکھتے ہوئے اسرائیل کو نظرانداز کیا تو تب سے میڈیا پر یہ کہانیاں گردش کررہی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو دیوار سے لگادیا ہے۔ ان کی انتظامیہ نے یمن کے حوثیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، وہ ایران کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں جبکہ امریکی صدر نے ریاض میں سابق جہادی کے ساتھ ملاقات بھی کی جو اب شام کے صدر ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ان میں سے کسی بھی پیش رفت سے اسرائیل خوش ہوا ہو۔

’فلسطینیوں کی لیبیا منتقلی کے منصوبے سے عرب اور یورپی ممالک کو خوفزدہ ہونا چاہیے‘


اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا جہاز یروشلم اترتا تو میڈیا کی توجہ ان کے نسل کش میزبانوں کی جانب مبذول ہوجاتی۔ تو یہ حیران کُن نہیں کہ عموماً زیادہ آواز اٹھانے والی صہیونی لابی نے امریکی صدر کے دورے کے حوالے سے بہت کم اعتراض کیا۔ چاہے قطر سے ملنے والا عالیشان بوئنگ طیارہ ہو یا ریاض، دوحہ اور ابوظبی کے ساتھ ٹریلین ڈالرز کے معاہدوں کی تفصیلات، یہ تمام رپورٹس غذائی قلت سے مرنے والے بچوں اور غزہ کی تباہی پر سے توجہ ہٹاسکتی ہیں جو امریکا کے فراہم کردہ ہتھیاروں کی بدولت ہے۔
گذشتہ جمعے غزہ میں زندہ رہ جانے والے چند ماہرِ اطفال میں سے ایک علا النجار اسرائیلی حملے سے بچ جانے والے ایک طبی مرکز پہنچیں تو ان کے 10 میں سے 7 بچوں کے جلے ہوئے جسد خاکی کو نصر اسپتال پہنچایا گیا جوکہ ناقابلِ شناخت تھیں۔ ان کے 6 ماہ کے بیٹے سیدن سمیت ان کے دو بچے خان یونس میں واقع ان کے گھر کے ملبے تلے دب گئے۔
اس طرح کے المناک نقصان کے بعد زندگی جاری رکھنے میں کتنی طاقت درکار ہوتی ہے، اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے لیکن علا النجار نے بہ طور ڈاکٹر اپنا کام جاری رکھا کیونکہ دیگر جانوں کو ان کی مدد کی ضرورت ہے۔
پیر کو غزہ سٹی کے ایک اسکول جہاں بیت لاہیا کے سیکڑوں محصور افراد نے پناہ حاصل کی تھی، اسے نشانہ بنایا گیا جس میں کم از کم 35 افراد شہید ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس واقعے کے شہدا میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اسرائیلی دفاعی فورسز نے اس اسکول کو ’حماس اور اسلامک جہاد کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر‘ قرار دیا۔ ساتھ ہی جبالیہ میں ایک گھر میں 19 افراد کا قتل عام کیا گیا۔
اسی روز ہزاروں اسرائیلیوں نے یروشلم کے اولڈ سٹی میں مسلمانوں کے کوارٹر کی جانب مارچ کرتے ہوئے، ’عربوں کو موت دو‘، ’غزہ ہمارا ہے‘ اور ’ان کے دیہات کو جلا دو‘ جیسے نعرے لگائے۔ اس مارچ میں شامل ایک بینر پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’نکبہ کے بغیر فتح حاصل نہیں ہوگی‘۔ ریاستی سرپرستی میں اس مارچ کا اہتمام ایم کیلاوی نے کیا جوکہ باروک کہین کی زیرِقیادت ایک تنظیم ہے۔ باروک کہین ہلاک دہشتگرد ربی میئر کہین کے بیٹے ہیں۔ حیرت انگیز نہیں کہ مارچ کرنے والوں میں اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور کہانسٹ اتامار بین گویر شامل تھے جو نسل کشی کے اپنے ارادے کو چھپانے کی کوشش بھی کرتے نظر نہ آئے۔
رواں سال مارچ میں ہارٹز کی جانب سے کروائے گئے ایک پول کا نتیجہ گذشتہ ہفتے جمعرات کو سامنے آیا جس میں انکشاف ہوا کہ 82 فیصد اسرائیلی، غزہ کے مقامی شہریوں اور فلسطینی پناہ گزینوں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 47 فیصد کے نزدیک غزہ کے باشندوں کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

’شاید فلسطینیوں کی نسل کشی اس لیے ٹرمپ کی توجہ کی مستحق نہیں کیونکہ وہ سفید فام نہیں‘


اگر 1930ء اور 1940ء کی دہائیوں میں نازی حکمرانی میں رہنے والے لوگوں سے ان کے یہودی ہمسایوں کے بارے میں ایسے ہی سوالات پوچھے جاتے تو کیا ان کے جوابات اس سے بھی زیادہ انتہا پسند ہوسکتے تھے؟
لیکن اس معاملے کو ایک جانب کرتے ہیں کیونکہ دوسری جانب چین اور یورپی یونین پر ٹرمپ کے تجارتی محصولات، ہارورڈ یونیورسٹی اور بین الاقوامی طلبہ پر ان کے حملے، جنوبی افریقی مہمانوں سے ملاقات کے دوران ’سفید نسل کشی‘ کے بارے میں ان کے جھوٹے دعوے اور روس-یوکرین تنازع (جسے وہ حل نہیں کرسکے) کے حوالے سے ان کے مبہم بیانات ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ شاید فلسطینیوں کی ثابت شدہ نسل کشی صرف اس لیے ٹرمپ کی توجہ کی مستحق نہیں کیونکہ متاثرین سفید فام نہیں ہیں؟
اگرچہ ٹرمپ ولادیمیر پیوٹن کے اقدامات (یا ولادیمیر زیلنسکی کے بیانات) کو کنٹرول نہیں کرسکتے لیکن وہ نیتن یاہو کو یقینی طور پر نسل کشی کی مہم سے روک سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہ کرنا ان کا فیصلہ ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے دانستہ طور پر اسرائیل کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق اور اقدار کی مسلسل خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
ورپی، کینیڈین اور آسٹریلوی رہنماؤں نے حال ہی میں اسرائیلی بیانات اور اقدامات کی مذمت کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ بھی کچھ بہتر نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بیانات اس وقت تک کسی کی جان نہیں بچائیں گے جب تک وہ باقاعدہ اقدامات نہیں کرتے۔
نسل کش ریاست کو نہ صرف ہتھیاروں کی فراہمی معطل کی جانی چاہیے جبکہ اس کے ساتھ تمام تجارت بھی بند ہونی چاہیے جس کی بڑی تجارت چین، امریکا اور یورپی یونین سے جڑی ہے۔ نازی جرمنی کو تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگ کی ضرورت پیش آئی تھی لیکن جنوبی افریقہ کی نسل پرست قوت کو ڈھانے کے لیے بائیکاٹ، سرمایہ کاری کی معطلی اور پابندیاں ہی کافی تھیں۔
غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے بائیکاٹ اور پابندیوں کا راستہ کافی ہوگا۔ لیکن اس راستے کا انتخاب کرکے مقصد کو پورا کرنے میں نہ جانے کتنا وقت لگ جائے؟ ایسے حالات میں آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ جب یہ سب ہورہا تھا تو انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا۔
اگر کبھی غزہ میں شہید ہونے والی ماؤں اور بچوں کی مدفن ہڈیوں اور کھلے آسمان تلے پڑے جسد خاکی پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا مجسمہ کھڑا کرتے ہیں تو یہ پارسی طرز کا خاموشی کا ایک ایسا مینار ہونا چاہیے جہاں صہیونی گدھ ان باقیات کو نوچ رہے ہوں جو جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، بنیامن نیتن یاہو اور ان کے یورپی اتحادیوں کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha