اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||
اگر ہم کچھ حسن ظن سے کام لیں تو بھی انقرہ نے، گویا جماعت [دو ریاستی حل کے حامی لوگوں] کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے، 1967 کی سرحدوں سے باہر کے فلسطینی علاقوں میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو، لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس دو ریاستی حل میں "صہیونیت" کی نفی کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ یہ [ناقابل عمل نظریہ] بھی 1967 کی سرحدوں کے اندر ایک اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتا ہے!
دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی "صہیونیت" اور اس کے حتمی مظہر "اسرائیلی ریاست" کے خلاف "مسلحانہ مزاحمت' پرمبنی جدوجہد کے ذریعے "فلسطین کی سالمیت" کے تحفظ کو اپنی حکمت عملی کے طور پر منتخب کیا ہے۔


دوسری طرف ہم ترکیہ کو دیکھتے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ اتارچڑھاؤ سے بھرپور رابطے میں منسلک ہے، جو تعلقات کمزور پڑنے کے باوجود کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ سنجیدہ کشیدگی میں داخل نہیں ہؤا ہے؛ دوسرے لفظوں میں، انقرہ اور تل ابیب کے درمیان معمول پر آنے اور سیکورٹی-اقتصادی تعاون جاری رکھنے کی گنجائش ہمیشہ قائم رہتی ہے، چاہے تعلقات معمول کے مطابق دوستانہ ہوں، چاہے ان میں بظاہر خرابی آئی ہو۔
کہانی کے ترک پہلو پر، ہم اسرائیلی حکومت کے ساتھ ایک اتار چڑھاؤ والا رشتہ دیکھتے ہیں، جو یقیناً کبھی بھی کشیدگی کے مرحلے میں پوری طرح سے داخل نہیں ہؤا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، انقرہ اور تل ابیب کے درمیان معمول پر آنے اور سیکورٹی-اقتصادی تعاون کی ہمیشہ گنجائش رہی ہے۔


کہانی کے ایرانی سائیڈ پر، مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں کے آزادی اور ان کے حقیقی مالکان کے حق خود ارادیت کے حصول تک تعلقات کا مکمل اور مستقل انقطاع اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا مستقل اور ناقابل سمجھوتہ عنوان رہا ہے۔ چنانچہ تہران اور تل ابیب کے درمیان کوئی سفارتی، اقتصادی یا سیکورٹی تعلق قائم نہیں ہے
فلسطینی کاز کے لئے "ترکیہ" کی حمایت بنیادی طور پر سفارتی اور سیاسی ہے جو کبھی کبھار انسانی امداد کی ترسیل تک بھی پہنچتی ہے لیکن ساتھ ساتھ اسرائیل کو گولہ بارود بھیج کر اس کی تلافی کی جاتی ہے۔ بہرحال انقرہ کی طرف سے حماس تحریک کی حمایت کو اب تک ایک سیاسی-فوجی اداکار کے طور پر دیکھا جا سکا ہے، جو کہ ضروری نہیں کہ ایک نظریاتی اتحادی کے طور پر ہو۔ [گوکہ نظریاتی طور پر اردوان اور ان کے ساتھی اخوانی کہلاتے ہیں اور اس لحاظ سے نظریاتی لحاظ سے بھی وہ حماس کے ہم فکر بھی سمجھے جا سکتے تھے۔]
تاہم، ایرانی جانب سے، مزاحمتی گروپوں (حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ لبنان) کے لئے جامع مالی، فوجی، لاجسٹک اور تعلیمی مدد "محور مزاحمت" کے اجزاء کے طور پر ایک مرکزی حکمت عملی ہے۔
ناظرین و سامعین کی کھپت
فلسطینی مزاحمت کے تئیں ترکیہ کے حمایتی رویے کے سامعین (Audiences) گھریلو (اسلام پسند ووٹوں کو راغب کرنے کے لئے) اور علاقائی (اسلامی دنیا میں قیادت! کا امکان پانے کے لئے) دونوں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فلسطینی کاز کی حمایت کے دو پہلو ہیں: دونوں ملکی سطح پر (اسلامی انقلاب کے اصل اقدار کو زندہ رکھنے اور مضبوط کرنے کے لئے) اور علاقائی طور پر (محور مقاومت کی تقویت کے لئے)۔
ترکیہ کے موقف کو مکمل طور پر "سنجیدہ" یا مکمل طور پر "غیر سنجیدہ" کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟
اگر ہم اردوان کے موقف کو خوش نیتی سے دیکھ لیں تو بھی یہ ایک ذہنی تصویر جییسا ہے؛ نہ کہ زمینی حقیقت جیسا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ