بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس میں 25 سال تک خدمات انجام دینے والے 'ڈینی سیٹرینوچ' کے مطابق ایران غزہ کی جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر فلسطینی مقاومت کو دوبارہ بحال کرے گا تاکہ اسرائیل کو مسلسل خطرے سے دوچار رکھ سکے۔ ساتھ ہی ایران اپنی داخلی فوجی طاقت بھی بڑھا رہا ہے۔
ایران کے معاملات کے محقق ڈینی سیٹرینوچ کی رپورٹ کا تفصیلی متن درج ذیل ہے:
ایران غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ اس کے نقطہ نظر سے، اس موقع سے فائدہ اٹھا کر حماس کو غزہ پٹی میں برقرار رکھنے کا اسٹراٹیجک مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایران اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گا کہ حماس ہر صورت حال میں غزہ پٹی میں ایک اہم پوزیشن پر برقرار رہے، اور یہ کہ وہ حماس کو مزید مسلح کرنے اور اس کی فوجی طاقت بڑھانے کی کوشش کرے گا۔
مجموعی طور پر، ایران "محور مقاومت" کی تعمیر نو کا مشن ترک نہیں کرنا چاہتا، لیکن ساتھ ہی وہ مقاومت کے اپنے "ایرانی" جزو کو بھی مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد، ایران نے "محور مقاومت" کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈال کر حماس کو اس تزویراتی مقصد کے حصول میں مدد بہم پہنچائی تاکہ وہ غزہ پٹی میں حماس کو ایک مسلح قوت کے طور پر برقرار رکھے جو مستقبل میں 'اسرائیل کو ستاتی رہے گی۔'

غزہ جنگ بندی کا غیر متوقع فائدہ اٹھانے والا ایران ہے
غزہ میں جنگ بندی ایران کے فائدے میں ہے کیونکہ وہ اسے حماس کے تحفظ اور اس کی صلاحیتیں بحال کرنے کے موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ تہران ممکنہ طور پر (مغربی کنارے میں حماس کی کارروائیوں کے علاوہ، جس کا مقصد وہاں حماس کے فوجی ڈھانچے کی حمایت کرنا ہے) غزہ میں بھی اس کی طاقت بڑھانے میں مدد دے گا تاکہ اسے اسرائیل کے لئے ایک مستقل خطرے کے طور برقرار رکھ سکے۔
اگرچہ قطر اور ترکیہ حماس کے ساتھ نظریاتی قربت رکھتے ہیں، لیکن اگر حماس اپنی طاقت بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے ایران کی "لاجسٹک سپورٹ" کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ اپنی فوجی صلاحیت دوبارہ بحال کر سکے۔

اگرچہ "مزاحمتی محور" کو پچھلے دو سالوں میں بڑے دھچکے لگے ہیں، لیکن تہران نے اسے کبھی بھی ترک نہیں کیا ہے اور اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہؤا ہے۔ اگرچہ بہت سی رکاوٹیں ہیں جو ایران کے راستے کو مشکل بنا رہی ہیں، ـ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے لے کر عراق اور لبنان میں مسلسل اسرائیلی حملو اور سیاسی چیلنجوں تک ـ لیکن ایران ہار نہیں مانتا۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ کو بحال کرنے، عراق میں ملیشیاوں کو مضبوط کرنے، اور یمن میں انصاراللہ کی طاقت بڑھانے کی اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

علاوہ ازیں، ایران نے 12 روزہ جنگ سے جو سبق سیکھے ہیں، ان کی بنا پر تہران کی قیادت نے محسوس کیا ہے کہ ایران پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کو روکنے کے لئے صرف "محور مقاومت" پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے جنگ کے خاتمے کے بعد سے، ایران نے اپنی میزائل صلاحیت میں اضافہ کرنے اور ایئر ڈیفنس سسٹمز کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مقاومت اور ڈیٹرنس کے "ایرانی" حصے کو مضبوط کر دیا ہے۔

نتیجے کے طور پر، تہران کی قیادت غزہ میں جنگ بندی سے بہت خوش ہے، اس لئے نہیں کہ یہ جنگ بندی فلسطین کے مسئلے کو حل کرتی ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ حماس کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ غزہ پٹی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرے اور تہران کی مدد سے اپنی فوجی صلاحیت کو دوبارہ بحال کر دے۔ تہران، حماس کو محور مقاومت کا ایک اہم جزو سمجھتا ہے جو اسرائیل کی سلامتی کو برسوں تک چیلنج کر سکتا ہے۔ تاہم، محور مقاومت کی بحالی کی کوششوں کے باوجود، یہ واضح ہے ک ایران اپنی حفاظت کے لئے صرف محور مقاومت پر انحصار نہیں کرے گا اور وہ اسرائیل کے ساتھ ممکنہ تصادم کے اگلے دور کے لئے اپنی جارحانہ اور دفاعی صلاحیتوں کو سنجیدگی سے مضبوط بنا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ