بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || متحدہ عرب امارات اور سوڈان کے درمیان کشیدگی نے 'عالمی توانائی اور سامان کی کمپنی وِیٹول' کے کاموں میں خلل ڈال دیا ہے، کیونکہ یہ کمپنی سوڈان کی مرکزی بندرگاہ سے متحدہ عرب امارات کے لئے خام ایندھن بھیجنے سے قاصر ہے۔ فوجی قیادت کے زیر انتظام سوڈانی حکومت نے متحدہ عرب امارات پر ملک میں ڈھائی سال سے جاری ظالمانہ جنگ میں باغی افواج کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے،اور اسی بنیاد پر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ ابو ظہبی اس الزام کو مسترد کرتا ہے لیکن زمینی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
خرطوم نے اس سال مئی میں خلیج فارس دو ملکوں کے درمیان معرض وجود میں آنے والی دراڑ کی بنیاد پر امارات سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے، جب ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کے خودکش ڈرونز نے پہلی بار جنگ کے دوران سوڈان کی بندرگاہ پر حملہ کیا۔ سوڈانی فوج نے متحدہ عرب امارات کو اس حملے کا ذمہ دار ٹہرایا۔
مورخہ 7 اگست کے بعد سے، متحدہ عرب امارات نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کی وجہ سے سوڈانی بندرگاہوں سے امارات کے لئے اور امارات سے سوڈانی بنرگاہوں کے لئے، کارگو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یوں اس نے ویٹول کو خام تیل کی ترسیل میں خلل ڈالا ہے، جو دنیا میں تیل کی آزاد تجارت کی سب سے بڑی کمپنی ہے، اور اس کمپنی کو فجیرہ ریفائنری کو خدمات فراہم کرنے سے روک دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق فجیرہ کی ریفائنری میں تیل کو ٹینکروں کے لئے کم گندھک والے ایندھن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
خام تیل کا ذریعہ جنوبی سوڈان ہے، جس کی سمندر تک رسائی نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ ریفائننگ کے لئے وِیٹول ٹرمینل پہنچے، یہ تیل عام طور پر سوڈان کی بندرگاہ سے ہو کر گذرتا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جنوبی سوڈان روزانہ تقریباً 149,000 بیرل خام تیل پیدا کرتا ہے، لیکن محاصرے سے پہلے ہی پائپ لائن کی بندش نے تجارت میں خلل ڈال دیا تھا۔ کیپلر کے اعداد و شمار کے مطابق، 30 جولائی کے بعد سے متحدہ عرب امارات کو جنوبی سوڈان کا کوئی کارگو نہیں ملا ہے۔
سوڈان، ـ جس نے حال ہی میں ایران کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کئے ہیں، ـ متحدہ عرب امارات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، جو اس ملک کے باغی گروہوں کا سب سے بڑا حامی اور مالی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے۔
ادھر متحدہ عرب امارات، یوکرین کے آپریٹرز کی ایک یونٹ کا انتظام ہاتھ میں لئے ہوئے ہے جس نے 25 خودکش ڈرونز کے ذریعے سوڈان کی بندرگاہ پر حملہ کیا اور اسے بھاری نقصان پہنچایا۔
اس سے پہلے، صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات کے رہنما، جنہوں نے ایران مخالف کارروائیوں کا قابل ذکر ریکارڈ قائم کر رکھا ہے، نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران اور محور مقاومت کی افواج علاقے میں یمن اور غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کو ہتھیار بھیجنے کے لئے سوڈان کی بندرگاہ استعمال کر رہی ہیں۔ اس طرح، صہیونیوں نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے سوڈان میں محور مقاومت کی افواج کی موجودگی کو اپنی مداخلت کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔
سنہ 2023ع میں ـ سوڈان کی حکومت اور ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کے درمیان ـ خانہ جنگی کے آغاز کے بعد، صہیونی ریاست نے خود کو ممکنہ ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور دونوں فریقوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا حوالہ دیا۔ اسرائیلی محکمۂ خارجہ نے ابتدائی طور پر جنرل عبدالفتاح البرہان اور سوڈانی مسلح افواج کی زبانی کلامی حمایت کی۔ لیکن عملی طور پر، کہا جاتا ہے کہ موساد کا رجحان حمیدتی (محمد حمدان دقلو) اور RSF کی طرف کچھ زیادہ ہی تھا اور اس نے خرطوم میں اس کے ساتھ قریبی تعلق برقرار رکھا تھا۔
سنہ 2022ع میں صہیونی اخبار ہاارتص (Haaretz) کی ایک تحقیقی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "یورپی یونین کے تیار کردہ نگرانی کا جدید سازو سامان، ـ جو سوڈان میں طاقت کا توازن بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ہیں، ایک پرائیویٹ جیٹ کے ذریعے RSF کو پہنچائے گیا تھا۔ یہ ساز وسامان، ـ جس میں جاسوسی کا سافٹ ویئر(Predator Spyware) بھی شامل ہے، انٹیلیکسا کمپنی (Intelexa Technologies) سے آیا ہے، جس کا بانی اسرائیلی انٹیلیجنس کا سابق کرنل تال دیلیان (Tal Dilian)، ہے۔
سوڈانی حکومت کی ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی
واضح رہے کہ "جنرل عبدالفتاح البرہان" کی قیادت میں سوڈانی فوج کے دستوں نے مہینوں کی شدید لڑائی کے بعد ابھی حال ہی میں باغی گروپ 'ریپڈ سپورٹ فورس (RSF)' کے دستوں کو سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے نکال باہر کیا ہے اور ملک میں خانہ جنگی کے تناظر میں ایک اہم فتح حاصل کی ہے۔
اس دوران، تقریبا تمام تر تجزیہ کاروں کا ایک نکتے پر اتفاق ہے اور وہ ـ خاص طور پر سوڈانی فوج کی حمایت اور سوڈانی باغیوں کے خلاف جنگ میں ـ سوڈانی فوج کی حمایت میں ایران کا مؤثر اور قابل ذکر کردار اور ایرانی ڈرونز کی کامیاب موجودگی ہے۔
کچھ مغربی ذرائع کی رپورٹیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ابابیل اور شاهد ایرانی ڈرونز نے ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کو دارالحکومت سے پیچھے دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ سوڈان میں خانہ جنگی کے آغاز میں، اس ملک کی فوج نے باغیوں کے مورچوں پر اپنے جنگی جہازوں سے حملہ کیا تھا جو نہ صرف غیر مؤثر ثابت ہؤا بلکہ عام شہریوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بنا۔
اس سے پہلے بھی سوڈان کے اعلیٰ عہدیداروں ـ خاص طور پر اس ملک کے وزیر خارجہ ـ نے کئی بار تہران کے دورے کئے ہیں۔ ایک ایسا معاملہ جس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا؛ یہاں تک کہ کچھ مغربی اور صہیونی ذرائع نے ایران اور سوڈان کے درمیان تعلقات کے توسیع پر تشویش کا اظہار کیا۔ اگرچہ 1990 کی دہائی میں ایران اور خرطوم کے قریبی تعلقات تھے، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران آہستہ آہستہ سوڈان سے الگ کیا گيا اور سنہ 2016ع میں دونوں فریقوں کے تعلقات مکمل طور پر منقطع ہو گئے۔ لیکن خانہ جنگی نے ایران اور سوڈان کے تعلقات میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔
سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان داخلی تصادم کو خطے اور یہاں تک کہ خطے سے باہر کے ممالک کی طرف سے مختلف حمایت حاصل ہوئی۔ اس ترتیب کی تفصیل کچھ یوں ہے:
سوڈانی فوج کے حامی
اسلامی جمہوریہ ایران: ایران قومی فوج اور سوڈانی حکومت کے اہم حامیوں میں سے ایک تھا۔ اسلامی جمہوریہ یران نے سوڈانی فوج کی مدد کی اس لئے کہ حمیدتی کے اقدامات غیر قانونی اور بغاوت اور غداری کے زمرے میں آتے تھے اور سوڈان کی دوبارہ حصے بخرے ہونے نیز اس ملک میں صہیونی ریاست کا اثر و رسوخ بڑھنے کا خطرہ تھا۔
روس: روس نے ایندھن اور ہتھیار فراہم کر کے سوڈانی فوج کی حمایت کی۔ اس امداد کے نتیجے میں فوج نے خرطوم اور دوسرے علاقوں کے کچھ حصوں کو آزاد کرایا اور واپس حاصل کیا۔
ترکیہ: ترکیہ نے زیادہ تر سفارتی اور ثالثی کا کردار ادا کیا ہے اور برہان حکومت کی سیاسی حمایت کی ہے اور اس نے براہ راست فوجی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
باغی ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کے حامی
متحدہ عرب امارات: متحدہ عرب امارات RSF کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک تھا، جس نے مالی اور لاجسٹک حمایت فراہم کرکے باغی فورس کو سوڈانی فوج کا مقابلہ کرنے میں مدد دی۔ متحدہ عرب امارات افریقہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور خطے میں ایران اور ترکیہ کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
قطر: دوحہ نے تنازعے میں بالواسطہ طور پر حصہ لیا ہے اور زیادہ تر ثالثی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اگرچہ اس نے RSF کی براہ راست فوجی حمایت نہیں کی ہے، تاہم، کچھ گروہوں کے ساتھ تاریخی تعلقات کی وجہ سے، اسے کبھی کبھار RSF کا بالواسطہ حامی سمجھا جاتا تھا۔
صہیونی ریاست: صہیونیوں نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر، RSF کی لفظی اور میدانی حمایت کرکے، میدانی صورت حال میں طاقت کا پلڑا اس گروہ کے حق میں بھاری بنا دینے کی کوشش کی، لیکن عملی طور پر وہ اب تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
سوڈان کے حالیہ واقعات میں، جہاں ایران اور صہیونی ریاست کے درمیان پراکسی جنگ اس کے اتحادی ملک 'متحدہ عرب امارات' کے ساتھ بھڑک اٹھی ہے، ایران نے جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی فوج (SAF) کی فیصلہ کن حمایت کرکے غالب پوزیشن حاصل کر لی ہے۔
اگرچہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل بحیرہ احمر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے باغی RSF فورسز کو مالی، فوجی اور معلوماتی حمایت فراہم کر رہے ہیں، لیکن ایران نے اپنے جدید جنگی ڈرون طیارے 'مہاجر-6' اور 'ابابیل-3' بھیج کر سوڈانی فوج کو اہم لڑائیوں ـ جیسے کہ 'ام درمان' اور 'خرطوم' میں نمایاں پیشقدمی کرنے اور RSF کی سپلائی لائنز کو منقطع کرنے، کے قابل بنا دیا ہے۔
ایران کی اس حمایت نے، ـ جو جولائی 2024 میں باضابطہ طور پر دوبارہ شروع کی گئی، ـ نہ صرف جنگ کا رخ سوڈانی فوج کے حق میں موڑ دیا بلکہ صہیونی ریاست کی سوڈان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو بھی ناکام بنا دیا اور ایران کو اس میدان میں غالب طاقت کے طور پر کھڑا کردیا۔ بالآخر، ایران کی اس پراکسی فتح نے متحدہ عرب امارات اور افریقہ کے اس اہم خطے میں اپنا اثر بڑھانے کے صہیونی ریاست کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے اور قرن افریقا (Horn of Africa) میں تہران کی اسٹراٹیجک پوزیشن کو مضبوط کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ