بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی اور مغربی تھنک ٹینکوں نے اپنے ممالک کی طرف سے صہیونی ریاست کی حمایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ریاست کے لئے فوجی مشیر کا کردار ادا کیا اور 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد، زیادہ تر مضامین ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں کی کمزوریوں اور 'کم صلاحیت' کے پہلوؤں پر مرکوز رہے ہیں، لیکن اب وہ ایران کی جانب سے ایک فوجی نظریئے کا حوالہ دے رہے ہیں جو اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز کی بوچھاڑ برسا سکتا ہے اور اس ریاست اور اس کے اتحادیوں کے دفاعی نظام کو ایک اہم خطرے سے دوچار کر سکتا ہے!
ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کی اسرائیل پر بوچھاڑ
مغربی تھنک ٹینک اب کہتے ہیں کہ ایران نے ایک 'نان کنٹیکٹ جنگی نظریہ (Noncontact Warfar Doctrine) پیش کیا ہے جو ایران کے لئے طویل مدت میں کم خرچ، اور دشمن کے لئے تھکا دینے والا اور خطرناک طور پر تباہ کن ہے۔
'اسٹرٹیجک ریسرچ سینٹر' تھنک ٹینک ایران کی میزائل کی طاقت اور وسیع فائرنگ کے حجم کے بارے میں لکھتا ہے:
• ایران کا "درجہ بندی شدہ' (Calibrated) اور ٹیلی گرافک (یا فاصلاتی) حملہ ایک ہی فائرنگ میں 100 سے زیادہ بیلسٹک میزائلوں پر مشتمل تھا۔ چنانچہ ایران کی بیلسٹک میزائل لانچنگ کی گنجائش پہلے سے زیادہ ہوگی اور ایران مزید حملے کرنے کی صلاحیت کا حامل رہے گا۔
• ایک نیا ابھرتا ہؤا اور کئی ممالک میں رائج 'فائر پاور حملے' (Firepower Strikes)، ایک نیا تصور ہے جس میں میں کروز میزائل، بیلسٹک میزائل، حملہ آور ڈرونز اور ہوائی، زمینی اور بحری حملے شامل ہیں، جن کو اکثر معلوماتی اثرات کی وسیع رینج کی طرف سے سپورٹ ملتی ہے، تاکہ فوجی اور/ یا غیر فوجی اہداف پر حملہ کیا جا سکے۔
• روسی نظریئے میں 'نان کنٹیکٹ جنگ' (Noncontact Warfar) کا ایک تصور موجود ہے جو دور دراز کے فاصلوں سے درست حملوں کے ذریعے آپریشنل اور اسٹراٹیجک اہداف حاصل کرنے کے طریقے پر بحث کرتا ہے، جس میں اہم بنیادی ڈھانچے پر حملے شامل ہیں۔
یہاں تک کہ امریکی نظریئے میں بھی یکجا حملوں اور پلس (Pulse) کے بارے میں ایک ابھرتا ہوا بحث ہے، جو دشمن کی دفاعی معلومات اور صلاحیتوں پر قابو پانے کے لئے استعمال ہوتا ہے تاکہ مشترکہ مہمات کو فعال کیا جا سکے۔
یہاں تک کہ امریکی نظریے میں بھی، کنورجیس (Convergent) اور پَلس (Pulse) اسٹرائیکس کے بارے میں ایک ابھرتی ہوئی بحث جاری ہے، جو مخالف انٹیلی جنس اور دفاعی صلاحیتوں کو مغلوب کرنے کی غرض سے، مشترکہ مہمات کو فعال کرنے کے لئے، استعمال ہوتے ہیں۔
• اگرچہ ایرانی میزائلوں کی صحیح تعداد نامعلوم ہے، لیکن ایران کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے مجموعی حملوں کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں کی لہروں کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ بھی ایران کی صورت حال کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہتا ہے کہ تہران نے ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے جواب دیا ہے اور وہ ان حملوں کو ہفتوں تک جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ ایسے وقت ہؤا کہ جب ایران کے فوجی وسائل صہیونی ریاست اور امریکا کا مقابلہ کرنے کے لئے طویل جنگ کے لئے تیار تھے۔
امریکی اور صہیونی ریاست کے گولہ بارود کا خاتمہ
جون 2024 کے وسط میں، امریکی ایوان نمائندگان کی مسلح افواج کی کمیٹی نے دفاعی محکمے کے اعلیٰ عہدیداروں اور فوجی کمانڈروں کی موجودگی میں ایک اجلاس بلایا تاکہ اس ملک کے گولہ بارود بنانے والی صنعت کے نازک حالات کا جائزہ لیا جا سکے۔
یوکرین اور اسرائیل کی جنگوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ توپ خانے پر مرکوز لڑائیاں گولہ بارود کے ذخائر کو تیزی سے ختم کر دیتی ہیں اور امریکہ اور مغربی ممالک پر دوہرا مالی بوجھ ڈالتی ہیں۔ اسی لئے طویل مدت میں ایران اپنے سستے ڈرون اور طاقتور میزائل صلاحیت کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ہفتوں کے اندر کثیر القومی اور کثیرالطبقاتی دفاعی نظامات کو ناکارہ بنا سکتا تھا۔
اسی وجہ سے امریکہ اور مغرب سستے ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے شاہد ڈرونز، اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ایران اور صہیونی ریاست کے درمیان حالیہ جنگ نے لڑائی کے اصولوں کو بدل کرکے رکھ دیا ہے، خواہ وہ جنگی معاشیات کے میدان میں ہو یا فاصلاتی اور فضائی جنگ کے میدان میں۔
یورونیوز نے اسی سلسلے میں "اکیسویں صدی کی جنگیں ڈرونز کے سائے میں؛ ایران کا 'شاہد' ڈرون سپر پاورز کے مقابلے کا عملی ثبوت ہے" کے عنوان سے ایک مضمون میں، لکھا: "ڈرونز جدید جنگوں کی شکل بدلنے میں بڑھتا ہؤا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ صرف دفاعی صنعتوں بلکہ اکیسویں صدی میں جنگ کی نوعیت کو بھی بدل دیا ہے۔"
ہسپانوی اخبار ال پائیس (El País) لکھتا ہے: "ڈرونز کے بدولت معرض وجود میں آنے والی ٹیکنالوجی اور ترقی نے نہ صرف علاقائی طاقتوں بلکہ سپر پاورز کو بھی ان صنعتوں کی ترقی کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔"
تو جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران کے زیادہ تر ڈرونز اور میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی مار گرایا تھا یا ان میزائلوں نے اسرائیل کو خاطرخواہ نقصان نہیں پہنجایا ہے اور ایران کا یہ طریقہ مؤثر نہیں تھا تو مغربی ممالک اور امریکہ اسی طریقے کے پیچھے کیوں پڑے ہیں اور ٹرمپ بھی ایرانی ڈرونز کی طرح کے ڈرون بنانے پر زور کیوں دے رہے ہیں؟
ایران کے میزائل ذخیرے سے مغرب کا خوف
بروکنگز واضح کرتا ہے: "اس معاملے کو ہلکا نہیں لینا چاہئے: ایران کے پاس بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور ان میں سے کچھ اسرائیل کے شہری علاقوں میں جا کر نمایاں نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ایران طویل عرصے تک اسرائیل کے حملے کا جواب جاری رکھ سکتا ہے۔"
اسی تھنک ٹینک کی "وانڈا فیلباب براؤن" (Vanda Felbab-Brown) کہتی ہیں: "ایران نے اسرائیل کی طرف میزائل داغ کر مشرق وسطیٰ کے غیر تحریری قوانین کو بدل دیا ہے جو مسلح کارروائیوں کو بنیادی طور پر، پراکسی ملیشیاؤں کے ذریعے انجام دینے تک، محدود کرتے تھے۔"
بروکنگز کے محقق جگاناتھ سنکارن (Jaganath Sankaran) کہتے ہیں: "اسرائیل نے صریحاً دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 99 فیصد ایرانی میزائلوں کو ہدف پر لگنے سے پہلے مار گرایا ہے؛ تاہم، یہ شرح اس سے کم ہو سکتی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق، ممکن ہے کہ ایران کے داغے گئے 120 بیلسٹک میزائلوں میں سے 50 فیصد ناکام ہو گئے ہوں ہوں۔ باقی ماندہ بیلسٹک میزائلوں میں سے، 9 بیلسٹک میزائل فوجی اہداف سے ٹکرائے ہیں جن میں نواتیم ایئر بیس بھی شامل ہے۔ ایران یہ اعلان کر سکتا ہے کہ اس نے اسرائیلیوں کو یاد دہانی کرائی ہے کہ ایک مکمل پیمانے پر حملے میں کس قسم کی ہلاکتیں، تباہیاں اور بربادیاں لائی جا سکتی ہیں۔"
ایرانی میزائلوں کی تباہ کاری اور نقصان کی مقدار
یہ ساری باتیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں کہ عبرانی ذرائع سے موصول ہونے والی مختلف رپورٹیں ایرانی میزائلوں کی زبردست تباہ کاری کی مقدار کو عیاں کرتی ہیں، اتنی وسیع تباہ کاری کہ جس نے صہیونی میڈیا اور فوجیوں کو حیرت اور تعجب میں ڈال دیا ہے۔
صہیونی ریاست کے ایک اعلیٰ فوجی اہلکار نے ان تباہیوں کے حجم کے بارے میں کہا: "دھماکے کی آواز بہت قریب تھی، یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ میزائل ہم سے 300 میٹر کے فاصلے پر لگا۔ جب ہم پناہ گاہ سے باہر نکلے تو ہمیں تباہی اور بربادی کا پیمانہ معلوم ہؤا۔ پناہ گاہ سے نکلتے ہی میں نے دیکھا کہ سب کچھ تباہ ہو چکا تھا... باہر سے میں سمجھا کہ صرف میرے اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں، لیکن جب میں گھر کے اندر گیا تو معلوم ہؤا کہ صرف کھڑکیوں کے فریم باقی ہیں، جبکہ دروازے اپنے چوکھٹوں سے اکھڑ گئے تھے، تباہی کا حجم دور تک، خاص طور پر عمارتوں کے درمیان، موجود تھا۔"
ہاآرتص اخبار نے لکھا: "لوگوں نے ایرانی بھاری میزائل جہاں بھی گرے، لوگوں نے ان کے دھماکوں اور تباہی کی لہروں کو محسوس کیا۔ نقصان سینکڑوں میٹر تک پھیل گیا؛ ہزاروں اپارٹمنٹس (فلیٹس) متاثر ہوئے۔"
الوطن اخبار نے بھی رپورٹ دی کہ "اسرائیل میں ایرانی بیلسٹک میزائلوں سے ہونے والا نقصان سرکاری رپورٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اسرائیلی اہلکاروں نے میزائلوں کا نشانہ بننے والے ٹھکانوں اور مراکز کے ڈیٹا کی اشاعت کو بھی سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر - یعنی نشانہ بننے والے مقاومات کی معلومات تک ایران کی رسائی کو محدود کرنے اور آبادکاروں کے عمومی مورال کو برقرار رکھنے کے لئے - محدود کر دیا ہے، کیونکہ ہر میزائل کا حملہ الگ سے، حقیقی خوف پیدا کرتا ہے۔"
صہیونی ریاست نے وسیع پیمانے پر خبروں پر سنسرشپ اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایران کے حملوں کی شدت کو چھپانے کی کوشش کی، لیکن ابتدائی تباہی کی تصاویر اور پھر صہیونی ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے لمحات کی تصاویر ـ جو اب تازہ بہ تازہ شائع ہو رہی ہیں، ـ ان میزائلوں کی تباہ کن نوعیت اور نقصان کے حجم کو واضح طور پر عیاں کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ