26 اکتوبر 2025 - 12:30
ہم 1990 سے جانتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ ہوگی، میجرجنرل جعفری کا انٹرویو-2

ہم جانتے تھے کہ نئے خطرات آٹھ سالہ دفاع مقدس جیسے نہیں ہوں گے۔ دشمنوں نے خطرے کی قسم اور نوعیت کو بدل دیا تھا، اور امریکہ اور اسرائیل کو بنیادی دشمنوں کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ ان کی فوجی ٹیکنالوجی کا ہم سے فاصلہ بہت زیادہ تھا، اس لئے ہماری حکمت عملی غیر متوازن جنگ (Asymmetric warfare) کی طرف چلی گئی۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || میجر جنرل محمد علی جعفری نے کل (مورخہ 25 اکتوبر کی شام کو ٹی وی پروگرام "ماجرائے جنگ" میں محور مقاومت اور حزب اللہ لبنان کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا ہے، مقاومت و مزاحمت کوئی ہارڈ ویئر چیز نہیں ہمارے ہے جسے شکست دی جا سکے۔ اگر مزاحمت کوئی ہارڈ ویئر شیئے ہوتی، تو آج حزب اللہ موجود نہ ہوتی۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق کمانڈر انچیف اور حضرت بقیۃ اللہ(ع) ثقافتی ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل محمد علی جعفری نے اس پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:

پہلے بھی، جب داعش محل کے دروازے تک پہنچی تو بشار نے عوام کو مسلح ہونے دیا

• داعش کے خطرے کے ابتدائی دور میں، بشار اپنے عوام کو اسلحہ دینے کی تجویز قبول نہیں کر رہے تھے۔ ہم نے انہیں کئی بار کہا کہ وہ عوام کو مسلح کریں، لیکن وہ نہ مانے۔ میں نے یہ بھی تجویز دی کہ سپاہ کے کمانڈر ان چیف جاکر ان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھائیں۔ بہرحال شہید میجر جنرل الحاج حسین ہمدانی، جو بشار الاسد کے محل میں موجود تھے، خود گئے اور عوام کو مسلح کرنے کا مشورہ دیا۔ تاہم جب خطرہ بہت قریب آگیا، تو انھوں نے قبول کر لیا۔ جس لمحے بشار نے عوام کے مسلح ہونے پر رضامندی ظاہر کی، محض چند دنوں بعد ہی دہشت گردوں نے حساس مقامات سے پیچھے ہٹنا شروع کیا اور داعش کو پیچھے دھکیلنے کا آغاز ہو گیا۔

• اس دور میں مدد جاری تھی اور حالات کے بہتر ہونے کی امیدیں تھیں، لیکن اس دور کے بعد، بشار حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف تعاون اور حوصلہ ختم ہو چکا تھا۔

سنہ 1990 سے جانتے تھے کہ اسرائیل سے جنگ ہوگی

• اسلامی جمہوریہ کے میزائل اور ڈرون فورسز کو مضبوط بنانے کی وجوہات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ رہبر معظم (حفظہ اللہ) کے نقطہ نظر اور کمان سے جڑا ہؤا ہے۔ آپ نے فوج اور سپاہ کے مشنوں کے بارے میں اہم فیصلے کئے اور ایک سال سے زیادہ عرصے تک فوج اور سپاہ کے مشن کی لائنیں طے کرنے کے عنوان سے اجلاس ہوئے۔

• فوج کی فضائیہ اور سپاہ کی فضائیہ کے درمیان کام کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا کہ فوج کی فضائیہ لڑاکا طیاروں اور فضائی دفاع پر توجہ مرکوز کرے، اور سپاہ کی فضائیہ ایرواسپیس، میزائل اور ڈرون پہلوؤں پر کام کرے۔ اس طرح اس کا مرکزی محور میزائل اور ڈرون مرکوز ہو گیا۔

• ہم جانتے تھے کہ نئے خطرات آٹھ سالہ دفاع مقدس جیسے نہیں ہوں گے۔ دشمنوں نے خطرے کی قسم اور نوعیت کو بدل دیا تھا، اور امریکہ اور اسرائیل کو بنیادی دشمنوں کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ ان کی فوجی ٹیکنالوجی کا ہم سے فاصلہ بہت زیادہ تھا، اس لئے ہماری حکمت عملی غیر متوازن جنگ (Asymmetric warfare) کی طرف چلی گئی۔

میزائل اور ڈرون صلاحیتوں کی تقویت 2000 کی دہائی کے شروع ہوئی

• سنہ 2000 کی دہائی کے آغاز میں ہی میزائل اور ڈرون صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی بات شروع ہوئی۔ جو کچھ دستیاب تھا اسے آہستہ آہستہ ترقی دی گئی، اور سنہ 2000 کی دہائی کے وسط اور 2010 کی دہائی کے آغاز میں جدیدترین میزائل ٹیکنالوجی (Edge technology) تک پہنچنے کی کوششیں تیز ہو گئیں۔

• ہم نے رہبر معظم انقلاب کے حکم پر، میزائلوں کی رینج اپنی ضرورت سے زیادہ نہیں بڑھائی تاکہ یورپی ممالک خطرہ محسوس نہ کریں۔ بہرحال، ہمیں امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے درپیش علاقائی خطرات بنیادی طور پر تقریباً 2000 کلومیٹر کی رینج میں تھے؛ اور اس سے آگے اشتعال انگیزی ضروری نہیں سمجھی گئی۔

• رہبر انقلاب کے بڑے فیصلوں اور فوج اور سپاہ کے مشنوں کے واضح ہونے کی بنا پر میزائل اور ڈرون کی صلاحیتوں کی ترقی کا راستہ طے کیا گیا، اور ہم نے درپیش غیر متوازن خطرات کے مطابق حکمت عملی اپنائی۔

• میزائل اور ڈرون کی ترقی، قابل رسائی اور مؤثر صلاحیتیں تھیں جو دشمن کے ساتھ فضائی اور فنی عدم مساوات اور کمینوں کو پورا کر سکتی تھیں۔ چنانچہ سپاہ کی فضائیہ، قیادت کی رہنمائی میں، میزائلوں اور ڈرونز پر مرکوز ہو گئی اور جنرل اسٹاف نے بھی ہمارے مشن کی حمایت کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha