بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ب اصل سوال یہ ہے کہ ایسا ہونے کے باوجود، اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے فتح کے شادیانے بجانے کے بجائے شکست کا رونا کیوں شروع کا ہے؟ اس سوال کے جواب کا تجزیے کی دو سطحوں پر جائزہ لینا چاہئے:
پہلا اسرائیل کے سلامتی کے بیانئے میں معنوی بحران، اور
دوسرا، ریاستِ اسرائیل میں طاقت کے داخلی ڈھانچے میں تبدیلی کے لئے ماحول تیار کرنا۔
صہیونی سلامتی کے بیانئے میں 'معنی کا بحران'
صہیونی ریاست کے سیاسی نظام میں، سلامتی، نہ صرف ایک پالیسی بلکہ ریاست کے تشخص اور شناخت کا ستون ہے۔ بن گوریون کے زمانے سے لے کر آج تک، اسرائیلی ریاست کی قانونی حیثیت " (Legitimacy) یہودیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کی صلاحیت" کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ ایسے فریم ورک میں، سرحدوں کی حفاظت میں ایک دن کی ناکامی یا غیر متوقع جانی نقصان بھی ریاست کی قانونی حیثیت کو بنیادی طور پر خطرے سے دوچار کر دیتا ہے۔
غزہ کی تازہ جنگ نے بالکل اسی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا۔ اکتوبر سنہ 2023ع میں حماس کے جنگجوؤں کا سرحدی آبادیوں کی گہرائی میں داخلہ، فوجیوں کی گرفتاری اور حماس کے مقابلے میں فوج کی کمزوری کی تصاویر کے بار بار اعادے نے اسرائیلی عوام کے ذہن پر ایک نفسیاتی ضرب لگائی جس کا ازالہ غزہ میں کسی بھی مادی تباہی کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیلی میڈیا نے اس بحران کو سمجھتے ہوئے شکست کا بیانیہ اس لئے پیش کیا کیونکہ وہ "فتح کی ذہنی تصویر" اور "خوف اور عدم اعتماد کی زمینی حقیقت" کے درمیان مطابقت تلاش نہیں کر سکتے تھے۔
دوسرے لفظوں میں، وہ جنگ جو میدان میں فتح سمجھی جا سکتی تھی، 'معنی' اور 'اجتماعی شعور' کی سطح پر علامتی شکست میں بدل گئی۔ یہاں ہم "'معنی' کی جنگ میں شکست" کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں ریاست 'فتح کی کہانی' معاشرے کو قبول نہیں کروا سکی۔ ذرائع ابلاغ اس شکست کو پیش کر کے درحقیقت ریاست کی "قانونی حیثیت " (Legitimacy) کے بحران کی آواز بنے ہیں، نہ کہ اس بحران کو جنم دینے والے۔
شکست کا بیانیہ سیاسی تبدیلی کی تمہید
لیکن تجزیئے کا دوسرا پہلو داخلی سیاست کے میدان سے متعلق ہے۔ اسرائیل کے طاقت و اقتدار کے ڈھانچے میں، ہر جنگ کے بعد ذرائع ابلاغ عملی طور پر عوامی رائے کو طاقت کی تبدیلی کے لئے تیار کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ 'شکست کا بیانیہ آنے والی سیاسی تبدیلیوں کو جائز قرار دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ غزہ کی جنگ میں، ہاآرتص جیسے ذرائع نے نیتن یاہو کی ناکامی اور فوج اور کابینہ کے درمیان خلیج پر توجہ مرکوز کرکے عملی طور پر اعلیٰ سطح پر تبدیلی کے لئے نفسیاتی فضا بنانے کا کام کیا۔ اس نقطۂ نظر سے، شکست کی روایت محض ایک تنقیدی موقف نہیں بلکہ اقتدار کی منتقلی کا ایک خاکہ (یا blueprint) ہے۔
جب اصلی دھارے (Main-stream) کے ذرائع ابلاغ شکست کو ایک مسلّمہ امر بنا دیتے ہیں، تو تحقیقاتی کمیشن کے قیام، عہدیداروں کے استعفوں اور حکمران اتحاد میں تبدیلی کے لئے سیاسی فضا ہموار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا، اسرائیلی ابلاغیاتی بیانئے میں "شکست" کے ایک ہی سیاسی معنی ہیں: حکومت شکست کھا گئی، جو ضروری نہیں ہے کہ ملک یا ریاست کی شکست بھی ہو؛ [یا یوں کہئے کہ بیانیہ اس حقیقت کو جھٹلانے اور چھپانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسرائیل نامی ریاست شکست کھا گئی ہے اور کہنا چاہتا ہے کہ نیتن یاہو شکست کھا گیا ہے، اسے بدل دیں گے، ریاست برقرار ہے]۔
طاقت کی جنگ کے بجائے 'معنی کی جنگ'
آخر میں، شکست کے بیانئے کی بنیادی وجہ جاننے کے لئے اس حقیقت کو مد نظر رکھنا پڑے گا کہ ''مادّی جنگ' اب 'معنوی جنگ' میں تبدیل ہو گئی ہے۔ صہیونی ریاست وسیع پیمانے پر تباہی تو مچا سکتی ہے، لیکن وہ تحفظ کا احساس دوبارہ بحال نہیں کر سکتی۔ غزہ کی بمباری نے شاید مقاومت و مزاحمت کے ڈھانچے کو کمزور کر دیا ہو، لیکن خطے کی رائے عامہ اور یہاں تک کہ اسرائیلی معاشرے میں اس نے "خوف دہشت"، "غیر یقینی مستقبل"، "اعتماد کے خاتمے" اور "قانونی حیثیت پر سوال" کو دوبارہ جنم دیا ہے۔
خلاصہ
اس لئے یہ کہنا چاہئے کہ اسرائیلی میڈیا نے شکست کا بیانیہ فلسطینی قوم سے ہمدردی کے طور پر نہیں بلکہ "قانونی حیثیت" (Legitimacy) کا داخلی بحران کو سنبھالنے اور سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے پیش کیا ہے۔ بہرحال یہ بیانیہ 'معنی کے میدان' میں 'ہار ماننے' کا اعتراف ہے؛ جہاں غزہ کی تباہی بھی اسرائیلی طاقت کا عکس دوبارہ بحال نہیں کر سکا اور نہیں کر سکے گا۔
یعنی یہ کہ 'شکست کا بیانیہ' بھی درحقیقت صہیونی ریاست کے تحفظ کے لئے ہے اور اس کا مقصد ریاست کی شکست کو نیتن یاہو کابینہ کی شکست کے طور پر پیش کرنا ہے۔ گوکہ جیسا کہ بیان ہؤا، اسرائیل 7 اکتوبر 2023 سے ای دن قبل کا اسرائیل نہیں بن سکے گا، بس اس جعلی ریاست کو اپنے زخمی چاٹے گی عرصے تک اور "اسرائیل" کی بحالی کی کوشش کرے گی، چاہے شکست کے بیانیوں کے ذریعے ہو یا دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: علی رضا پورجعفری
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ