اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، ڈاکٹر یاقین، جو انڈونیشیا کی جامعہ حسنالدین میں ماہیات اور ماحول میں زہریلے مادوں کے اثرات کے ماہر ہیں، ابنا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: اپنے علمی دورے کے دوران ایران کو سائنسی ترقی میں ایک غیر معمولی نمونہ اور امریکہ و اسرائیل کے دباؤ کے سامنے پائیداری کی ایک کم نظیر مثال قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے بارے میں منفی تاثر اکثر انہی اداروں کی جانب سے جنم لیتا ہے جو تہران کے خودمختار رویّے کو قبول کرنے سے قاصر ہیں؛ مگر بارہ روزہ جنگ کے بعد کئی اہلِ فکر نے اعتراف کیا کہ ایران وہ واحد ملک رہا ہے جس نے ظلم کے سامنے عملی طور پر مزاحمت کی ہے۔
ڈاکٹر یاقین نے اپنے سفر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ استنبول میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے بعد انہوں نے خود ایران کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا؛ ایسے ملک میں جو چار دہائیوں سے جاری پابندیوں کے باوجود ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں قابلِ ذکر ترقی کر چکا ہے۔
انہوں نے ایرانی محققین کی طرف سے رابطے کے فوری جواب کو حیران کن قرار دیا اور بتایا کہ جب انہیں ترکی کی جامعات سے کوئی جواب نہیں ملا تو ایران میں کہیں بھیجے گئے پیغامات کا ردعمل تیزی سے اور مکمل تعاون کے ساتھ ملا۔
یہ انڈونیشی پروفیسر ایران کو آلودگی کے پائمانوں کی نگرانی اور خوردنی پلاسٹک ذرات کے جذب کے نئے طریقے ایجاد کرنے میں پیش پیش قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ تہران کے ساتھ سائنسی تعاون انڈونیشیا کی جامعات کے لیے نئے راستے کھول سکتا ہے۔
انہوں نے ایران اور ملائیشیا سمیت عالمِ ملکوں کے ساتھ تاریخی علمی و ثقافتی رابطوں کی گہرائی کی طرف اشارہ کیا اور ان تعلقات کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر یاقین نے مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری کے دورے کو الہامی قرار دیا اور کہا کہ ایرانی محققین کا جوش و جذبہ اس ملک کا حقیقی سرمایہ ہے۔
انہوں نے مستقبل کے مطالعہ جات (فیوچر اسٹڈیز) کے کردار پر بھی بات کی اور کہا کہ یہ مطالعے ایران کی اسٹریٹجک منصوبہ بندی میں مفید مثال ہیں جنہیں انڈونیشی شہروں کے لیے قابلِ عمل تصور کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر یاقین نے انڈونیشی عوام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ایران کی حقیقت جاننے کے لیے براہِ راست اس ملک کا دورہ ضروری ہے اور تجویز دی کہ ’’عمرہ پلس ایران‘‘ جیسے پروگرام ترتیب دیے جائیں تاکہ زائرین اور سیاح ایران کی سائنسی اور ثقافتی حقیقتوں سے خود واقف ہو سکیں۔
انہوں نے ایران کو سائنسی اعتبار سے ترقی یافتہ، ثقافتی طور پر گہرا اور مہمان نواز قوم قرار دیا اور زور دیا کہ ایران کی حقیقی تصویر تک پہنچنے کے لیے پروپیگنڈا اور گمراہ کن بیانیوں کو عبور کرنا لازم ہے۔
آپ کا تبصرہ