26 نومبر 2025 - 23:23
'تکذیب کی سلطنت' کے مدمقابل 'تصدیق' کی ذمہ داری

معاملہ محض صدق (سچ) اور کذب (جھوٹ) نہیں ہے! وہ واضح اور مسلّمہ اعداد و شمار کو بھی جھٹلا دیتے ہیں، ہر "صحیح کام پر حساسیت" پیدا کی جاتی ہے، حق کو پہچانتے ہیں پھر بھی قبول نہیں کرتے، بلکہ اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ یہ محض جھوٹ نہیں ہے، یہ جَحْد (ضد پر مبنی انکار) اور تکذیب (جھٹلانا) ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ڈاکٹر سعید جلیلی نے سیاسی حکمت کے 122ویں اجلاس میں سچ اور جھوٹ سے بالاتر ایک اور دیرینہ سیاسی کشمکش کا جائزہ لیا، یعنی "تکذیب کی سلطنت" (Empire of Denial) کے مقابلے میں "تصدیق کی ذمہ داری": "وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ"۔ [1] نہ صرف فکر، کلام اور عمل کو درست ہونا چاہئے، بلکہ "سچی بات کی مدد" کے لئے میدان میں آنا چاہئے اور اسے سیاسی میدان میں "تکذیبوں کے مقابلے میں" "تصدیق و تائید کرنا چاہئے"۔ جیسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رحلت کے بعد سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا عظیم جہاد۔

ڈاکٹر سعید جلیلی پچھلے دو اجلاسوں میں "سیاست میں صداقت" کے بارے میں بات کر چکے ہیں: "درست سوچ"، اور "بات اور عمل میں یکسانی"۔ لیکن اس اجلاس میں انھوں نے ایک ایسے میدان کے بارے میں بات کی جو سچ اور جھوٹ سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات معاملہ سچ کو جھوٹ دکھانے اور جھوٹ کے سچ دکھانے، حق کو باطل دکھانے اور باطل کو حق دکھانے، کا ہوتا ہے؛ اپنی باطل بات کو سچ ثابت کیا جاتا ہے اور دوسروں کی سچی بات کو جھوٹ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ سچی بات کو میدان سے نکال باہر کیا جائے: "وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ" [2] یہاں سچائی اور ایمانداری سے بالاتر، ایک سیاسی ذمہ داری ادا کرنا پڑتی ہے: "تکذیب کے مقابلے میں" "تصدیق" کی ذمہ داری۔ یعنی یہ کہ نہ صرف فکر، کلام اور عمل کو درست ہونا چاہئے، بلکہ "سچی بات کی مدد" کے لئے میدان میں آنا چاہئے اور اسے سیاسی میدان میں "تکذیبوں کے مقابلے میں" "تصدیق کرنا چاہئے"۔ جیسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رحلت کے بعد سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا عظیم جہاد۔

تصدیق اور تکذیب کی جنگ انسان کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بیان کے مطابق، یہ "فطرتِ مخمورہ" اور "فطرتِ محجوبہ" کے درمیان کشمکش ہے۔ خدا نے انسان کی فطرت کو اپنے جمال اور جلال کے دونوں ہاتھوں سے گوندھا ہے، چنانچہ تمام انسان [فطری لحاظ سے] ایک ہی طرح سے، حق کو پانے اور قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، سوائے اس کے کہ وہ اس فطرت کو ڈھانپ لیں؛ انسان اپنی فطرت کو ڈھانپ لے تو حق کو سمجھتا تو ہے لیکن نہ صرف اس کی تصدیق نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا، بلکہ اس سے بدتر، اس کا انکار کرتا ہے اور قبول نہیں کرتا اور منہ موڑ لیتا ہے: "فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى * وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى"۔ [3] اسی طرح امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے بیان کے مطابق، "تصدیق" "عقل کی فوج" ہے، لیکن "جحد" "جہل کی فوج" بن جاتا ہے اور جاہلیت کے نظام کی مدد کرتی ہے۔

جحد اور تکذیب (انکار کرنے اور جھٹلانے) کا آغاز انسان کے خُو [اور ذاتی خصلت] ہوتا ہے اور یہ آخر کار سیاسی تعلقات میں پھیل جاتی ہے۔ "جحد" کا مطلب ہے کہ وہ جانتے ہیں اور قبول نہیں کرتے: "فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ"، [4] نہ صرف خدا کے پیغمبر کو، بلکہ کسی بھی بھلائی کو قبول نہیں کرتے: لیکن آخر کیوں؟ قرآن اس قضیے کی انسانی جڑوں کی طرف اشارہ کرتا ہے: "وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا"۔ [5] یہ جحد و انکار کا انسانیاتی راز ہے: ظلم اور عُلُوّ... وہی جو قوم عاد کی منطق میں مجسمس ہؤا، وہی جو آج ٹرمپ کے منطق میں بھی دیکھا جا سکتا ہے: "فَأَمّا عادٌ فَاستَكبَروا فِي الأَرضِ بِغَيرِ الحَقِّ وَقالوا مَن أَشَدُّ مِنّا قُوَّةً ۖ أَوَلَم يَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذي خَلَقَهُم هُوَ أَشَدُّ مِنهُم قُوَّةً ۖ وَكانوا بِآياتِنا يَجحَدونَ"۔ [6]

یہ نہ سمجھنا کہ یہ ایک آسان میدان ہے، اور تم سچ اور حق کی بات کرو گے تو سب قبول کر لیں گے! سیاسی میدان ازل سے ایسی ہی جنگ کا میدان ہے: "وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ" [7] "كَذَّبَت قَومُ نوحٍ المُرسَلينَ"، [8] "كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ"؛ [9] یہ میدان آسان نہیں ہے، یہاں تک کہ انبیاء اپنی تکذیب سے فکرمند تھے: "رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ"۔ [10] یہی نہیں، بلکہ یہاں تک بھی کہ مایوس ہو جاتے تھے: "حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا"، [11] اور یہ سب ایک سیاسی کشمکش میں ہؤا، تاکہ پیغمبر کو مجبور کیا جائے کہ ان کی پالیسیوں کے سامنے جھک جائیں: "وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ"۔ [12] علاج کیا ہے؟ یہ کہ ان کی بات کے سامنے مت جھکنا اور مقاومت و مزاحمت کرنا: "فَلا تُطِعِ المُكَذِّبينَ"۔ [13]

اگر انہوں نے تکذیب کی، جھٹلایا، تو گھبرانا مت، تھکنا مت، یہ قرآن کا حکم ہے: "وَإِن كَذَّبوكَ فَقُل لي عَمَلي وَلَكُم عَمَلُكُم ۖ أَنتُم بَريئونَ مِمّا أَعمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعمَلُونَ؛ [14] مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ اور عمل کرتے رہو! اس دنیا کے مقابلے میں جو اپنی ابلاغیاتی سلطنت (Media empire) لے کر میدان میں دنیا آئی ہے تاکہ "ایک امت" کے حق کا انکار کر دے (حالانکہ وہ جانتی ہے کہ یہ حق اسی امت کا ہے)، حق کی 'تصدیق' کے لئے کھڑا ہونا چاہئے، نہ کہ بہانے بنا کر سستی دکھائی جائے؛ مقاومت و مزاحمت کو ترک کیا جائے اور اپنے حقوق، امت کے حقوق، قبلہ اول، فلسطین، شریف مقام معراج اور فلسطین و غزہ سمیت مظلوم اقوام کی حمایت سے پہلو تہی کی جائے۔ تکذیب کے خلاف جنگ، صبر اور مقاومت کے امتحان کا ایک حصہ ہے؛ اس ایک حصے میں کامیاب ہو جاؤ، تو تب ہی خدا کی مدد آتی ہے: "وَلَقَد كُذِّبَت رُسُلٌ مِن قَبلِكَ فَصَبَروا عَلىٰ ما كُذِّبوا وَأوذوا حَتّىٰ أَتاهُم نَصرُنا۔" [15]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریر: ڈاکٹر سعید جلیلی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110


[1]۔ اور وہ جو یہ سچ لے کر آئے اور وہ جو اس کی تصدیق کرے، وہی پرہیز گار ہیں۔ (سورہ زمر، آیت 33)۔

[2]۔ اور وہ لوگ جو کافر ہوئے، باطل کی بنیاد پر جھگڑتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے حق اور سچ کو پامال کر دیں۔ (سورہ کہف، آیت 56)

[3]۔ پھر نہ تو اس نے تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی * بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا۔ (سورہ قیامت، آیات 31-32)۔

[4]۔ چنانچہ، یقینا وہ آپ ہی کو نہیں جھٹلاتے بلکہ [یہ] ظالمین اللہ کی آیتوں کا بھی انکار کرتے ہیں"۔ (سورہ انعام، آیت 33)۔

[5]۔ اور انہوں نے ان کا ظلم اور سرکشی کی رو سے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔ (سورہ نمل آیت 14)۔

[6]۔ پھر [قوم] عاد نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور کہا: ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے؟ اور [بالآخر] وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ (سورہ فصلت، آیت 15)۔

[7]۔ اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے بھی کئی رسولوں کو جھٹلایا گیا ہے۔ (سورہ فاطر، آیت 4)۔

[8]۔ نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ (سورہ شعراء، آیت 105)۔

[9]۔ قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا (سورہ شعراء، آیت 141)

[10]۔ اے میرے رب میں ڈرتا ہوں کہ مجھے جھٹلا دیں۔ (سورہ شعراء، 12)۔

[11]۔ [انبیاء نے اپنی دعوت بدستور جاری رکھی] یہاں تک کہ انبیاء مایوس ہونے لگے اور [کچھ نے] گمان کیا کہ گویا ان سے جھوٹ کہا گیا ہے"۔ (سورہ یوسف، آیت 110)

[12]۔ وہ [کفار] بہت چاہتے ہیں کہ آپ نرمی کریں [اور رواداری اختیار کریں اور ان کے بتوں کو نہ چھیڑیں] تاکہ وہ بھی [منافقت کی رو سے] آپ سے نرمی اور رواداری اختیار کریں۔ (سورہ قلم، آیت 9)۔

[13]۔ [اب جو ایسی بات ہے] تو جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کریں۔ (سورہ قلم، آیت 8)

[14]۔ اور اگر انہوں نے آپ کو جھٹلایا تو کہہ دیجئے میرا عمل مجھ سے مختص ہے، اور تمہارا عمل تم سے مختص ہے؛ تم میرے کام کے جوابدہ نہیں ہو اور میں تمہارے کام کا جوابدہ نہیں ہوں۔ (سورہ یونس، آیت 41)

[15]۔ اور یقینا آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انہوں نے صبر و استقامت سے کام لیا ان کے جھٹلانے پر؛ اور انہیں وہ ایذائیں پہنچائی گئیں؛ یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچی۔ (سورہ انعام، آیت 34)۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha