23 نومبر 2025 - 03:28
اس دشمن کا انجام طاقت اور دولت نہیں؛ دہشت اور تباہی ہے

سورہ انبیا کی آخری آیات میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ جو دشمن انکار، تفرقہ اندازی اور اپنی طاقت کی نمائش کے ذریعے باطل کی راہ پر گامزن ہیں وعدہ حق کی تکمیل کے وقت ان کو ایک ایسے چہرے کا سامنا ہوگا جس کی انہیں توقع بھی نہیں تھی۔ ان کا انجام اقتدار اور فتح نہیں بلکہ حیرت، دہشت اور مکمل تباہی وبربادی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی || سورہ انبیاء کی آخری آیات، بالخصوص آیات 91 تا 101، دو مختلف راستوں کی واضح تصویر پیش کرتی ہیں: مؤمن بندوں کا راستہ جن سے رحمت اور نجات کا وعدہ کیا گیا ہے، اور حق کے دشمنوں کا راستہ جو دشمنی اور کفر کی وجہ سے آخری حد تک عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔

یہ آیات سورہ انبیاء میں دشمن شناسی کی بحث کا آخری باب ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ تاریخ دو متعین محاذوں کی تکرار کا منظر ہے: ایمان کا محاذ اور انکار کا محاذ۔

اہل ایمان کے لئے اللہ کی رحمتِ موعودہ

آیات 91 اور 92، عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش اور سیدہ مریم (سلام اللہ علیہا) کی عفت و پاکدامنی کو رحمت الٰہیہ کے ظہور کے نمونے کے طور پر بیان کرتی ہیں؛ ایک ایسی رحمت اور معجزہ جو خدا کی لامحدود طاقت کے ادراک کا راستہ کھول دیتا ہے۔ بعدازاں خدا ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی امتیں ایک ہی امت ہیں؛ ایسی امت جو اگر توحید کی راہ پر گامزن رہے تو رحمت کی چھتری تلے قرار پائے گی۔

یہ دشمنوں کے سزا کی بحث میں داخل ہونے کے لئے، ایک اہم تمہید ہے، کیونکہ قرآن سب سے پہلے صالحین کے مقام و منزلت کو بیان کرتا ہے؛ تاکہ کافروں کے انجام سے اس کے تضاد کو، اجاگر کیا جا سکے۔ ہدایت کے واضح اور واحد راستے پر آیات کی یکے بعد دیگرے تاکید کا مطلب یہ ہے کہ حق کے دشمنوں نے شعوری طور پر ایک مختلف راستہ چن لیا ہے اور وہ خود ہی اپنے انجام کے ذمہ دار ہیں۔

دشمنان حق کا بیانیہ؛ ظاہری طاقت، یقینی زوال

آیت 93 کے بعد سے، قرآن ایک تاریخی قاعدے سے پردہ اٹھاتا ہے: جب بھی انبیاء آئے، امتیں ایمان میں متحد ہونے کے بجائے، تقسیم اور تفرقے سے دوچار ہوئیں۔ یہ تقسیم حق کے ساتھ دشمنی کی پہلی علامت ہے؛ ایسی نشانی جو کج فہمی اور ناسمجھی، دنیا پرستی، اور طاقت کی طرف رغبت سے جنم لیتی ہے۔

قرآن اعلان کرتا ہے کہ یہ دشمن، چاہے دنیا میں جتنے ہی مدعی ہوں، بالآخر خدا کی طرف لوٹیں گے، اور وہ ان کے اختلاف کی حقیقت کا فیصلہ کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں، دشمن جھوٹی داستانیں گھڑ سکتا ہے، اپنے آپ کو فاتح ظاہر کر سکتا ہے، یا تشہیری مہم کے ذریعے اپنی کو ایک طاقتور عنصر کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔ لیکن یہ فریب کارانہ ٹیپ ٹاپ حقیقت کی آمد کو نہیں روک سکتی۔

سنتِ الٰہی ان تہذیبوں کی تباہی میں، جنہوں نے حق کا انکار کیا

آیت 95 اللہ کی قطعی سنت کی طرف اشارہ کرتی ہے: کوئی بھی قوم جس نے نبی کا انکار کیا ہو اور جس میں ظلم اور برائی میں جڑ پکڑ لی ہو وہ اپنی تباہی کے بعد کبھی واپس نہیں آئی ہے۔ یہ آیت ان دشمنوں کے لئے ایک کرخت جواب ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ ان کی ماضی کی شکست کا ازالہ کر سکتی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ یہ قومیں نہ صرف واپس نہیں آئیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی عبرت کا نشان بن گئیں۔ دشمن شناسی کا تصور یہاں مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ حقیقت کا دشمن صرف ایک فرد یا گروہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک فکری اور ثقافتی دھارا ہے جو اس کا مسلسل انکار کر کے اپنے آپ کو رحمت الٰہی کے چکر (The cycle of divine mercy) سے دور کر لیتا ہے۔

ظلم کے خاتمے کی نشانیاں

آیات 96 اور 97 میں یاجوج و ماجوج کا بند کھل جانے اور وعدہ حق کی تکمیل کے قریب آنے کی بات کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ آیات آخر الزمان کی علامات سے متعلق ہیں لیکن ان میں دشمن شناسی کے ایک مستقل پیغام پر بھی مشتمل۔

دشمن خواہ کتنے ہی زیادہ، بے شمار اور جارح ہوں، پھر بھی وہ حکم الٰہی سے آگے نہیں بڑھ پاتے اور ان کی جولانیوں کی مدت محدود اور معین ہے۔ قرآن کریم وعدے کی تکمیل کے دن ظالموں کے چہروں کے ہولناک مناظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ دشمن ہمیشہ اپنے ہی بنائے ہوئے مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

دشمن زوال پذیر کیوں ہوتے ہیں؟

آیت نمبر 101 میں اللہ تعالیٰ ایک اور گروہ کا تعارف کراتا ہے: وہ لوگ جن کے لئے نیک نام اور پاکیزگی لکھی گئی ہے اور جنہیں جہنم سے دور رکھا گیا ہے۔ یہ تفکیک (جدا سازی) دشمنوں کے زوال کے فلسفے کو عیاں کرتا ہے: وہ زوال پذیر ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پاکیزگی، عدل و انصاف اور حق و صداقت کے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، دشمنوں کی عُقُوبَت ایک خالصتاً کائناتی ردعمل نہیں ہے؛ بلکہ یہ ان کے اپنے انتخابوں کا فطری نتیجہ ہے۔ قرآن بالواسطہ طور پر فرماتا ہے کہ حق کے خلاف جنگ پیغمبروں کے خلاف جنگ سے پہلے، فطرت اور اپنی تقدیر کے خلاف جنگ ہے۔

دشمن شناسی بیانیوں کے دور میں

یہ آیات نہ صرف ایک تاریخی بیانیہ اجاگر کرتی ہیں بلکہ آج کے لئے ایک واضح پیغام کی حامل بھی ہیں۔ قرآن کی نظر میں دشمن صرف وہ نہیں ہے جس کے ہاتھ میں آلاتِ حرب ہوں؛ بلکہ ممکن ہے کہ ذرائع ابلاغ حقائق کو مسخ کریں، بیانیہ تخلیق کریں اور شکوک و شبہات پھیلا دیں۔ جس طرح امتیں تقسیم ہو کر انبیاء (علیہم السلام) سے دور ہو گئیں، آج بھی حق کی جنگ زیادہ تر بیانیوں کی جنگ ہے۔ لیکن قرآن کا قانون تبدیل نہیں ہؤا: ظلم اور تحریف کی بنیاد پر استوار دشمن جلد یا بدیر منہدم ہو جائے گا اور وعدۂ حق کے مقابلے جم نہیں سکے گا۔

سورہ انبیاء کی آیات 91 تا 101 دشمن شناسی کے لئے واضح بنا دیتی ہیں۔ اصل دشمن وہ ہے جو شعوری طور پر مفادات اور دنیاوی عزائم کی خاطر سچائی کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور اس کے خلاف صف آرا ہو جاتا ہے۔ یہ دشمن کتنا ہی طاقت نمائی اور خود نمائی کیوں نہ کرے، وہ الٰہی سنتوں کی رو سے اپنے ہی کئے میں ڈوب جاتا ہے۔

ظالم تہذیبوں کی بربادی کی الٰہی سنت، اہل باطل کی رسوائی کی الٰہی سنت اور اہل ایمان کی نجات کی الٰہی سنت۔ یہ آیات ہمیں واضح زبان میں یاد دلاتی ہیں کہ حق و باطل کے درمیان معرکہ، ایک مسلسل معرکہ ہے لیکن اس کا نتیجہ شروع ہی سے واضح ہے: حق کے دشمنوں کا انجام زوال اور شکست و ریخت، اور حسرت و پشیمانی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مہدی احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

قرآن کریم کے صفحہ 330 پر متعلقہ آیات کی تلاوت دیکھیں اور سنیں:

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha