بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ٹرمپ اور محمد بن سلمان کی وائٹ ہاؤس میں حالیہ ملاقات (18 نومبر 2025) اور سعودی عرب کو اربوں ڈالر مالیت کے F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کے اعلان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو "امریکہ کے بڑے نان نیٹو اتحادی" کے رتبے پر لے جانے پر ردعمل کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ تقریب جوہری شعبے، مصنوعی ذہانت اور مغربی ایشیائی سلامتی کے شعبوں میں بڑے معاہدوں کا حصہ ہے۔ تاہم چونکہ، بہرحال، تعلقات کی بہتری کا تعلق خاشقجی کیس، صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات اور طاقت کے علاقائی توازن سے ہے، اسی لئے اس پر مختلف النوع رد عمل سامنے آیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں بن سلمان سے ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا:
• "سعودی عرب ہمارے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ ہم انہیں F-35s فروخت کریں گے، اور اب وہ باضابطہ طور پر ایک بڑے غیر نیٹو اتحادی کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔ یہ فوجی تعاون کو اعلیٰ سطح پر لے جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ کو محفوظ بناتا ہے!"
علاوہ ازیں، جمال خاشقجی کے المناک قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک رپورٹر کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے واضح طور پر سعودی ولی عہد کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ خاشقجی کے قتل میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا اور یہ "میڈیا کی سازشیں تھیں۔"
دوسری طرف سے بن سلمان نے وائٹ ہاؤس کے عشائیے میں کہا: "ہم امریکہ میں اپنی سرمایہ کاری 600 بلین ڈالر سے بڑھا کر 1 ٹریلین (1000 بلین) ڈالر کر رہے ہیں، خاص طور پر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور جوہری توانائی میں۔ یہ نیا اتحاد غزہ میں امن اور اسرائیل کے ساتھ معمول پر لانے کی کلید ہے، لیکن فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط پر۔"
انہوں نے ٹرمپ کو "مضبوط لیڈر" کے طور پر سراہا۔
نیویارک ٹائمز نے اس ملاقات کے بارے میں لکھا:
• "یہ ملاقات ٹرمپ-ایم بی ایس 'برومانس' (1) کی طرف واپسی ہے اور طاقت کے توازن کو سعودیوں کے حق میں تبدیل کر سکتی ہے، لیکن اس سے چین یا ایران کو F-35 ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کو بھی اپنی فضائی برتری کھونے کی تشویش ہے۔"
واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایک تجزیے میں ان معاہدوں کی شرائط پر منفی نقطہ نظر اپناتے ہوئے لکھا:
• "خاشقجی کے قتل میں MBS کے کردار کے بارے میں CIA کی انٹیلی جنس رپورٹس کو نظر انداز کرکے، ٹرمپ نے معاشی مفادات کے لئے انسانی حقوق کو قربان کر دیا ہے۔ F-35 کو بغیر کسی شرط کے بیچنا امریکہ کو آمروں کے حامی کے طور پر متعارف کرائے گا۔"
الجزیرہ نے میٹنگ کے بارے میں محتاط انداز میں منفی نظریہ اپنا تے ہوئے کہا:
• "ٹرمپ نے ایم بی ایس کو غزہ کی عبوری ٹیم میں مدعو کیا ہے، جبکہ سعودیوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط لگا رکھی ہے۔ F-35 کی فروخت ایران کو مشتعل کر سکتا ہے اور کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔"
صہیونی اخبار ہاآرتص نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ نیتن یاہو سے مشاورت کے بغیر کیا ہے، گوکہ یقینی طور پر امریکی صدر سے صہیونیوں یہ توقع (کہ وہ اپنے کسی بھی اقدام کے حوالے سے اسرائیل کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے)، بہت زیادہ قبل غور ہے!
اسرائیل سعودیوں کو F-35 کی فروخت کا مخالف ہے کیونکہ اس کی فوجی برتری کو خطرہ لاحق ہے۔ ٹرمپ نیتن یاہو سے مشورہ کئے بغیر آگے بڑھے ہیں اور اس سے امریکہ-اسرائیل تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں!"


ٹرمپ کے حامی دائیں بازو کے امریکی صحافی نک سورٹر (Nick Sortor) نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں مکمل طور پر مثبت نظریہ پیش کیا:
• "ٹرمپ نے بن سلمان پر دباؤ ڈال کر امریکہ میں سعودی سرمایہ کاری کو 1 ٹریلین ڈالر تک بڑھا دیا ہے! یہ معاہدے کا فن ہے - 'طاقت کے ذریعے امن'۔"
تاہم اینٹی وار ویب سائٹ کے X اکاؤنٹ کا موقف پر کافی تنقیدی تھا:
• "ٹرمپ نے سعودیوں کو ایک بڑا غیر نیٹو اتحادی بنا دیا ہے اور F-35 اور امریکی ٹینک فروخت کئے ہیں۔ یہ اسلحے کی دوڑ کا حصہ ہے جو مشرق وسطیٰ کو مزید غیر مستحکم کر رہی ہے۔"
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر شمع جونیجو نے اپنی پوسٹ میں ایک دلچسپ بات کہی:
• "ٹرمپ سعودیوں کو F-35 فروخت کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کو ڈر ہے کہ پاکستانی پائلٹ انہیں اڑائیں گے! اس سے طاقت کا توازن بالکل بدل جائے گا۔"
مجموعی طور پر، ٹرمپ کے حامی (بنیادی طور پر ایکس صارفین اور فاکس نیوز جیسے قدامت پسند میڈیا آؤٹ لیٹس) ملاقات اور اس کے بعد ہونے والے معاہدوں کو ایک "سفارتی فتح" کے طور پر دیکھتے ہیں جو سعودی سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گی اور، ان کی رائے میں، "امن و سلامتی کو طاقت کے ذریعے محفوظ بنائے گا۔"
ناقدین (بشمول لبرل میڈیا اور صہیونی) ٹرمپ پر بالترتیب انسانی حقوق (خاشقجی کیس) کو نظر انداز کرنے اور سلامتی کے خطرات پیدا کرنے (ٹیکنالوجی حریفوں کو منتقل کرنے) کا الزام لگا رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کے تجزیہ نگاروں نے محتاط اور معتدل موقف کے ساتھ کہا ہے کہ یہ معاہدے خطے کی حرکیات کو تبدیل کر سکتے ہیں لیکن غزہ میں سعودی کردار اور صہیونی ریاست کے ساتھ معمول پر آنے جیسی شرطوں کے ساتھ۔

ٹرمپ کا ایکشن کیوں؟
ٹرمپ نے صہیونی حساسیت سے مکمل آگاہی کے ساتھ، سعودی عرب کو "سب سے اہم غیر نیٹو اتحادی" قرار دیا اور اسے F-35 کی فروخت کی اجازت دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی ریاست امریکہ کی نظریاتی اور اسٹراٹیجک اتحادی ہے اور ٹرمپ کے دور میں (2017-2021 اور اب 2025-) دونوں کے درمیان تعلقات اپنے عروج پر پہنچے ہیں - سفارت خانے کی یروشلم منتقلی سے لے کر ابراہیم معاہدے تک ـ لیکن ٹرمپ کا یہ اقدام (سعودی عرب کو "سب سے اہم بڑا نان نیٹو اتحادی" قرار دینا اور 18 نومبر 2025 کی میٹنگ کے دوران انہیں F-35 فروخت کرنا) بظاہر متضاد لگتا ہے؛ لیکن ٹرمپ کے نقطہ نظر سے، یہ بالکل منطقی اور معقول ہے۔

ٹرمپ ہمیشہ "سودے بازی کے فن" کا پرچار کرتے ہیں اور محمد بن سلمان کے ساتھ یہ ملاقات بالکل اسی تناظر میں ہے: مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کے لئے ایک بڑا اور انتہائی مہنگا پیکج، "طاقت کے ذریعے امن" کی حکمت عملی پر ارتکاز کے ساتھ۔
بنیادی وجوہات
ایران مخالف محاذ کو مضبوط کرنا: سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اب F-35 (ففتھ جنریشن فائٹر) کے ساتھ محاذ مزاحمت (محور مقاومت) کے خلاف محاذ پر سعودی ہاتھ مضبوط ہو رہا ہے۔ ٹرمپ اسے ایران پر "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں؛ نہ صرف ہتھیاروں کی فروخت، بلکہ سعودی عرب کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل (بغیر افزودگی) ایران کے جوہری پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لئے۔
بن سلمان نے یہ بھی کہا: "ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لئے امن چاہتے ہیں، لیکن فلسطینی ریاست کے لئے واضح راستے کے ساتھ۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ F-35 کے بدلے میں، سعودی ابراہم معاہدے (صہیونی ریاست کے ساتھ معمول پر آنے کے منصوبے) میں شامل ہوں گے لیکن انہوں نے عالم اسلام کے سامنے اس کام کو مقبول بنانے کی غرض سے، اس معاہدے کو مسئلہ فلسطین کے "دو ریاستی حل" سے جوڑ دیا ہے! [جو مختلف وجوہات کی بنا پر ناقابل عمل ہے]۔
بڑے اقتصادی فوائد: سعودی عرب نے مصنوعی ذہانت، ایٹمی ٹیکنالوجی اور نایاب معدنی مواد میں - ریاستہائے متحدہ میں $1 ٹریلین (پہلے $600 بلین سے کہیں بڑھ کر) کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا: "یہ اتحاد مشرق وسطیٰ کو محفوظ بنائے گا اور امریکیوں کے لئے 'اربوں ملازمتیں!' پیدا کرے گا۔"
F-35 (تقریباً 48+300 ٹینک) کی فروخت سے بھی لاک ہیڈ مارٹن اور امریکی معیشت کو اربوں ڈالر کا منافع ہوتا ہے۔

"میجر نان نیٹو اتحادی" کا ٹائٹل: یہ آفیشل ٹائٹل (1987 سے) متعلقہ ملک کو نیٹو کا رکن ہونے کے بغیر، ہتھیاروں تک آسان رسائی، فوجی تربیت، اور سفارتی مدد جیسے فوائد عطا کرتا ہے [قطر بھی ان ہی نان نیٹو اتحادیوں میں شامل ہے، جو صہیونی حملے سے محفوظ نہ رہ سکا]۔ ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب "ہمارا سب سے بڑا اتحادی" ہے کیونکہ وہ ایران یا چین کے برعکس، "پیسہ بھی دیتا ہے اور وفادار بھی ہے"۔ یہ ٹائٹل بن سلمان کو (خاشقجی کیس وغیرجیسے مسائل پر تنقید کرنے والے) نگھریلو ناقدین کے سامنے مضبوط کھڑا رہنے کے لئے مضبوط کرے گا، اور ٹرمپ کو خطے میں فیصلہ کن اثر و رسوخ کے ساتھ ایک "مضبوط رہنما" کے طور پر جتائے گا۔

ٹرمپ نے نیتن یاہو کو اپنا "قریبی دوست" سمجھتے ہیں اور اس کی حساسیت سے آگاہ ہیں؛ اور انھوں نے اسی آگاہی کے ہوتے ہوئے یہ کام کیا ہے، لیکن خارجہ پالیسی میں بھی "بڑا سودا" ان کی ترجیح ہے؛ انھوں نے دعوی کیا کہ "اسرائیل اس لین سے آگاہ ہے اور بہت خوش ہو گا۔"
صہیونیوں نے، ـ خواہ حقیقی خواہ نمائشی، طور پر ـ تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ امریکی "معیاری فوجی برتری" (Qualitative Military Edge [QME]) قانون کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کی معیاری فوجی برتری کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے۔ اسرائیلی فوج نے نے متنبہ کیا ہے کہ "سعودیوں کے F-35 دینے سے اسرائیل کی فضائی برتری کو خطرہ ہے۔ رپورٹ ہے کہ نیتن یاہو نے ظاہرا ذاتی طور پر بھی اس سودے پر اعتراض کیا ہے، لیکن اس کا عمومی موقف ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ جس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ سعودیوں پر اسرائیل کی نارملائزیشن کے حوالے سے دباؤ ڈال رہے ہیں اور نیتن یاہو پر بھی، کہ وہ فی الحال خاموش رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس تقریباً 75 F-35 طیارے ہیں۔ سعودی 100+ خرید سکتے ہیں اور ان کی تعداد اسرائیل سے زیادہ ہے۔ [2]
علاوہ ازیں اسرائیلی تجزیہ کار سعودی عرب سے ایف-35 طیاروں کی ٹیکنالوجی ایران یا چین منتقلی پر گہری تشویش کا شکار ہیں۔ [اور یہ سلسلہ بظاہر بہت طویل مدتی ہوگا، اور جہازوں کی سعودی عرب کو منتقلی پر شاید ایک عشرہ وقت لگے۔]
میڈیا تجزیہ: ہاآرتص اور یروشلم پوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ سودا "طاقت کا توازن سعودیوں کے حق میں بدل دے گا؛ اور امریکہ-اسرائیل تعلقات کشیدہ کر دے گا۔"
لیکن ٹرمپ کی طرف کا جواز کیا ہو سکتا ہے؟
"سعودی F-35s اسرائیل کو فراہم کردہ طیاروں جیسے ہی ہوں گے لیکن بالکل اسی طرح نہیں ہونگے"، مطلب یہ ہے کہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ مخصوص اسرائیلی ٹیکنالوجیز (جیسے جاسوسی سسٹمز اورریموٹ کنٹرول سسٹمز کے حوالے سے) ـ جن کے ساتھ تل ابیب پروازوں کی نگرانی کر سکتا ہے یا ان میں خلل ڈال سکتا ہے، ـ سعودی ورژن میں نہ ہوں۔
مزید برآں، چونکہ اس موسم گرما کے شروع میں اسپین اور پرتگال نے اپنی F-35 کی خریداری منسوخ کر دی ہے، اس لئے افواہیں پھیل رہی ہیں کہ تاخیر کی بنیادی وجہ "Kill switch" (موت کا بٹن - یعنی طیارہ بنانے والی کمپنی اسے ایک بٹن کے ذریعے مکمل طور پر غیر فعال کر سکتی ہے) کا مسئلہ ہے، اور یہ خدشات ہیں کہ F-35 کا کوئی بھی بیڑہ امریکہ کے زیر کنٹرول دیکھ بھال، لاجسٹکس، اور کمپیوٹر سسٹم تک رسائی کے بغیر، فوری طور پر غیر موثر ہو جاتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے پاس موجود F-35 طیاروں کا آپریشنل کنٹرول بالواسطہ طور پر، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس رہتا ہے۔
بلاشبہ، سب سے پیچیدہ اور اہم کنٹرول میکانزم، ان طیاروں کا، امریکی لاجسٹک اور سپورٹ چین پر، مکمل انحصار ہے۔ F-35 کے بہت سے اہم اجزاء مہربند (Sealed) ہوتے ہیں اور ان کی مرمت صرف نامزد امریکی فیکٹریوں میں ہونا چاہئے ہوتی ہے۔ اگر کسی غیر ملکی آپریٹر کے ساتھ امریکہ کے تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو اسپیئر پارٹس، سافٹ ویئر اپ ڈیٹس اور سپورٹ سروسز تک رسائی بھی ختم کر دی جاتی ہے اور اس سے ہونے والا نقصان اس ملک کے F-35 بیڑے کو تیزی سے زمین بوس کر دیتا ہے۔

اس کے علاوہ، F-35 کا دماغ ALIS/ODIN نظام ہے، جو مشن کی منصوبہ بندی، ڈیٹا کے تجزیئے اور لاجسٹکس مینجمنٹ کا ذمہ دار ہے۔ تمام "مشن ڈیٹا فائلز (MDFs)" جو مخصوص خطرات کی نشاندہی کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہیں، صرف امریکی سرزمین پر تیار کی جاتی ہیں اور اسی سسٹم کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں۔
اس نیٹ ورک تک رسائی کو منقطع کرنے سے طیارے کی جنگی صلاحیتوں کو بری طرح کم ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ F-35 فروخت کے معاہدوں میں واضح آپریشنل حدود شامل ہو سکتی ہیں [جس طرح کہ پاکستان کو ایف-16 فراہم کرکے شرط رکھی گئی کہ یہ طیارے کبھی بھی اور کسی صورت حال میں بھی بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونگے!]۔ مثال کے طور پر، ان لڑاکا طیاروں کو اسرائیل کے قریب واقع اڈوں پر تعینات کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے، یا سعودی عرب کو برآمد کئے جانے والے ورژن میں کچھ جدید ریڈار اور الیکٹرانک جنگی صلاحیتوں تک رسائی کو غیر فعال فعال کیا جا سکتا ہے۔
[بہرحال امریکہ میں جو کچھ بھی بنتا ہے اسرائیلی اس پر نگرانی کرنے کا حق رکھتے ہیں چنانچہ سعودی عرب کے لئے بننے والے طیارے بھی ان ہی کی نگرانی میں بنیں گے، اور انہیں مکمل طور Sfety Maches بنا کر ریاض بھیجا جائے گا بشرطیکہ بیچ راستے، یہ سودا منسوخ نہ ہوجائے، ترکیہ، ہسپانیہ اور پرتگال کی طرح]۔
نتیجہ
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کا صہیونی ریاست کی تزویراتی برتری میں خلل ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ یہ یہ ریاست واشنگٹن کی نظریاتی اتحادی اور یقیناً ٹرمپ کی ایران مخالف حکمت عملی میں ان کی بنیادی حلیف ریاست ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ٹرمپ حکومت کی برتری کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کو متوازن بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ F-35 کی فروخت سعودیوں کو ایک "حقیقی اتحادی" میں تبدیل کر دے گی، جو بالآخر صہیونی ریاست کے مفاد میں ہے، کیونکہ مغربی-صہیونی محاذ کا بنیادی ہدف بنیادی طور پر محور مقاومت (یا محاذ مزآحمت) ـ اور خاص طور پر ـ ایران پر قابو پانا ہے۔ یہ رعایت دے کر، ٹرمپ ابراہیم معاہدے کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور سعودیوں کی موجودگی سے، اپنے غزہ کے منصوبے کو زیادہ آسانی سے مکمل کرنا چاہتا ہے (بن سلمان کو غزہ کی عبوری کمیٹی میں مدعو کیا گیا ہے)۔ مجموعی تناظر میں اگر سعودی کمزور رہیں تو صہیونی ریاست تنہا رہ جائے گی۔ [اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب ایک دھوکہ ہو اور ایک دو سال بعد انفراسٹرکچر یا اسرائیل کی ناراضگی یا دوسرا کوئی بہانہ لاکر ان طیاروں کی تحویل ہمیشہ کے لئے روک دی جائے]۔
ناقدین (جیسے واشنگٹن پوسٹ کا مضمون) کہتے ہیں کہ یہ معاہدے "پیسے کے لئے انسانی حقوق کی قربانی" کے مترادف ہیں اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ X پر، اسرائیلی صارفین کا کہنا ہے کہ "ٹرمپ نے ہماری برتری بیچ دی،" لیکن ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ "یہ 1 ٹریلین ڈالر کا معاہدہ ہے، اور اسرائیل اب بھی پہلے نمبر اتحادی ہے۔"

مختصراً، صہیونی حساسیت سے پوری طرح آگاہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ ایک بڑے معاہدے کے جزو کے طور پر کیا ہے جس میں واشنگٹن سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور F-35 کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا، اس اقدام کو محض "اسرائیل کی برتری کی قربانی" کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ ایک پیچیدہ سفارتی کھیل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا حتمی نتیجہ ان وعدوں کی تکمیل پر منحصر ہے، خاص طور پر اسرائیل کے لئے معمول اور سلامتی کی ضمانتوں کے شعبے میں۔ [اور ان سودوں کے حتمی نتیجے کے بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا قتل از وقت ہوگا]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ برومانس یا برومانیت (bromance): دو مردوں کے درمیان بہت ہی قریبی مگر بالکلیہ غیر جنسی تعلقات پر مبنی وابستگی کا نام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ