بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || دشمن کی ادراکی جنگ (Cognitive warfare) اور بیانیہ سازی (Narrative Making) کے مقابلے میں ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ، "فاطمی تربیتی بسیج" کی ضرورت ہے۔ یہ ایک عوامی بسیج یا (لام بندی (Mobilization) ہے جو شناخت ساز (یا تشخص ساز) اور تہذیب ساز ہے، جو نوجوان نسل کے ذہن، دل اور عمل کو مغربی طرز زندگی کے حملے سے بچا سکتی ہے اور انہیں اسلامی شناخت اور تشخص کی طرف واپس لے جا سکتی ہے۔
آج ہمیں فاطمی تربیتی بسیج کی ضرورت کیوں ہے؟
آج کی نوجوان نسل تاریخ کی سب سے بڑی فکری جنگ کا سامنا کر رہی ہے۔
عالمی اعداد و شمار مغربی طرز زندگی کے المیے کو عیاں کرتے ہیں:
• ٪47 امریکی نوجوان شدید پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہیں۔
• ٪43 لڑکیوں نے 2023 میں 'خود آُزاری' (یعنی خود کو نقصان پہنچانے) کی کوشش کی۔
• مغربی نوجوان روزانہ اوسطاً 9 گھنٹے موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔
• یورپ میں شرح پیدائش 1.2 سے نیچے آ گئی ہے، جسے مغرب کی "تہذیبی موت" قرار دیا جا رہا ہے۔
• کچھ یورپی ممالک میں طلاق کی شرح ٪50 سے زیادہ ہے۔
یہ مغربی طرز زندگی کے زوال کے بارے میں انتباہات ہیں۔ اب جبکہ دشمن کے پاس، اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے کوئی قابل عمل اور مثبت ماڈل نہیں ہے، تو وہ اسی شکست و ریخت کے ماڈل کو "مغربی ترقی کے وہم" کے طور پر مسلم اور مشرقی نوجوانوں کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہیں پر فاطمی تربیتی مکتب منظر کو بدل دیتا ہے۔
فاطمی تربیتی بسیج کا تشخص
"فاطمی تربیتی بسیج" ایک ایسا تربیتی اور تہذیبی منصوبہ ہے جو مؤمن، صالح، بہادر، بصیر، حق پرست، پر عزم اور معاشرتی اور اجتماعی عزم، ارادے اور جوش و استتعداد رکھنے والے انسان کی تعمیر کرتا ہے۔
یہ تحریک تین ستونوں پر قائم ہے:
1۔ فاطمی مکتب
• ایمان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے، اعمال صالحہ کی تشکیل، روحانی پاکیزگی، بصیرت، بہادری، ولایت کی پیروی، انسانی وقار و کرامت اور اجتماعی عزت کی بنیاد پر خود سازی اور اصلاح نفس، معاشرہ سازی اور تہذیب سازی۔
2۔ عوامی بسیج
• مومن، رضاکار، جہادی، انقلابی اور مؤثر افراد کا نیٹ ورک۔
3۔ نظریاتی تبدیلی
• نوجوانوں کے ذہن، ذوق اور دل کی تعمیر نو اور انہیں مغربی طرز زندگی سے اسلامی طرز زندگی کی طرف موڑنا۔
فاطمی تربیت کا عمل (Process)
1۔ آگاہی ـ بیداری کا آغاز
• مغربی طرز زندگی کی حقیقت کو آشکار کرنا: ڈپریشن، تشخص کا فقدان، ناپائیدار تعلقات، عیاشی میں محویت، شناختی بحران (Identity crisis) اور سماجی و اخلاقی ٹوٹ پھوٹ۔
اسلامی اقدار کا واضح بیانیہ
• حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی زیارت سے وابستگی: "یَا مُمْتَحَنَةُ ۔۔۔ فَوَجَدَكِ صَابِرَةً"۔ (اے وہ جسے آزمایا گیا اور اللہ نے آپ کو صبر کی حالت میں پایا) بصیرت تربیتی عمل کا آغاز ہے۔
2۔ توجہ اور دلچسپی – دلوں کو موہ لینا
• "فاطمی تربیتی مکتب میں معرفت، محبت، عشق اور روحانی تعلق، تربیت کی قوت محرکہ ہے۔"
• نوجوان جب دیکھتا ہے کہ اسلامی شناخت نشوونما، ترقی، استعداد، حرکت پذیری، آزادی، انسانی وقار و کرامت اور سماجی عزت کی بنیادیں فراہم کرتی ہے تو وہ اس کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔
• مسجد میں فعال کامیاب لڑکیوں اور لڑکوں کی متاثر کن داستانیں
3۔ ادراک اور غور و فکر ـ تفکر کا مرحلہ
• "أفَلا يَتَدَبَّرُونَ" (کیا وہ غور و تدبر نہیں کرتے؟)، غور و فکر کے بغیر تربیت ادھوری ہے۔
• فکری اور ابلاغی ـ تجزیاتی حلقوں کی تشکیل اور طلبہ کے باہمی مباحثوں کا انعقاد۔
4۔ قبولیت ـ قلبی پذیرائی
• عفت کی قدر، شخصیت کی نشوونما، خاندان اور ولایت کے بارے میں فہم و شعور پیدا کرنا۔
• زیارتِ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے تربیتی پیغامات سے استفادہ اور استفاضہ: "طَهُرْنَا بِوِلایتِكِ؛ ہمیں آپ کی ولایت کی برکت سے پاک و پاکیزہ کیا گیا"۔
5۔ نظریئے کی تبدیلی ـ نقطہٴ انقلاب (Turning point)
• اس حقیقت کو سمجھنا کہ "جو کوئی بھی زندگی بخش اسلامی مکتب کے خلاف چلے گا، وہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔"
• نگاہوں کو "مغرب = ترقی" سے "اسلام = وقارت و کرامت، نفسیاتی تحفظ، سکون و اطمینان، ترقی اور انصاف" کی طرف بدل دینا۔
6۔ عمل – میدان میں حرکت
• مواسات (یعنی غم خواری، ہمدردی اور دستگیری)، جہادی سرگرمیوں، مسجدی سرگرمیوں میں شراکت اور میڈیا سازی اور مواد کی تخلیق (Content Creation) میں حصہ لینا۔ • حضرت زہرا (س) نے ایمان کو اجتماعی میدان میں اور تقویٰ کو جدوجہد، آگاہی اور بیانیہ سازی کے دھارے میں پایہ تکمیل تک پہنچایا: "صدّیقةٌ شهیدة"۔
7۔ تشخص کا استحکام ـ شخصیت کی پائیداری
• مومن دوستوں کی مصاحبت، ایام اللہ میں شرکت، نماز جمعہ میں حاضری۔
• فاطمی زیارت: "مُبْغِضٌ لِمَنْ أَبْغَضْتِ؛ (میں دشمن ہوں اس کا جس سے آپ نے دشمنی کی)" حد بندی شناخت و تشخص کا معیار ہے۔
• یہ سات مراحل مسجد، مدرسہ، بسیج اور خاندان میں تربیتی جہاد کا روڈ میپ ہیں۔
مسجد؛ شناخت کی تجدید کی تہذیبی چھاؤنی
• فاطمی مکتب میں مسجد انسان کی شخصیت کی انجینئرنگ (اور انسانی شخصیت کی تعمیر) کا مرکز ہے۔
مسجد کے تین تہذیبی منصبی کارکردگیاں:
• مؤمن اور بصیر انسانوں کی تربیت
• سماجی تنظیم سازی اور سماجی جہاد
• معاشرے کی دینی-تہذیبی شناخت کا انتظام و انصرام
- مسجد کو "تربیتی جہاد کا آپریشنل روم" بننا چاہئے۔
فاطمی مکتب میں امام جماعت:
• امام جماعت؛ تربیتی منتظم اور عوامی نیٹ ورک کا رہنما
• سوچ بدلنے کا مربی
• تربیتی نیٹ ورکنگ کا رہنما
• بصیرتی پیغامات کا مصدر
• بچوں اور نوجوانوں کے حلقوں اور خلیوں کا منتظم
حامی پایگاه بسیج و محور امیدآفرینی و الهامبخشی
• بسیج کی بنیاد کا حامی، امید اور اثر گذاری کا مرکز
• ہر مسجد؛ ایک امام جماعت؛
• اور ہر امام جماعت آنے والی نسل کا تربیتی منتظم
فاطمی تربیتی بسیج کے عملی اجزاء و عناصر
1۔ تربیتی منتظم اور ماہرین کا مرکزی گروہ
2۔ ولائی نیٹ ورکنگ (فاطمی دوست، زہرائی لڑکیاں...)
3۔ مسجد کی بسیج چوکی
4۔ قرآن اور نہج البلاغہ کی بیٹھکیں
5۔ نماز جمعہ سے تعلق
6۔ ایام اللہ اور شہداء کی یاد کو زندہ کرنا
7۔ مواسات (غم خواری اور دستگیری)، اور سماجی خدمت
یہ "نرم طاقت" کے ستون ہیں
فاطمی تربیتی بسیج کی تہذیبی خصوصیات
• انسان سازی کے ذریعے تہذیب سازی
• سماجی رابطے کے نیٹ ورکس (سوشل میڈیا وغیرہ) کے دور میں شناخت و تشخص کی تعمیر نو
• نوجوان نسل کو فکری اور ادراکی جنگ سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مستعد اور مضبوط بنانا
• عوامی بسیج کے ذریعے قومی طاقت کو مضبوط کرنا
• اسلامی طرز زندگی کے نمونوں کا تعارف کرانا
• سماجی امید اور روحانی استعداد و توانائی پیدا کرنا
• "فاطمی تربیتی بسیج" کا مطلب ہے مسلم نوجوان کو تہذیب ساز فعال کارکن میں تبدیل کرنا؛ نہ یہ کہ وہ محض مغربی نیٹ ورکس کا صارف ہو۔
فاطمی تربیتی بسیج کا مطلب ہے:
• حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے انسان ساز مکتب کی طرف واپسی، مغرب کی موہوم اور غیر حقیقی ترقی کے تصور کا مقابلہ، مؤمن اور بہادر نسل کی تعمیر کے لئے تہذیبی جہاد، تربیت کے لئے عوامی نیٹ ورکنگ، اور مسجد کو شناخت ساز چوکی کے طور پر زندہ کرنا۔
• فکری و ادراکی جنگ کے دوران فاطمی تربیتی مکتب کی طرف واپسی نوجوان نسل کو مغربی شناختی بحران سے محفوظ کر سکتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے ارشادات:
• "فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ایک طرف، اللہ کے حکم کے سامنے بندگی، عبادت اور تسلیم، نیز مظلومانہ جدوجہد اور شہادت کا مظہر ہیں؛ اور دوسری طرف، صدیوں تک امت اسلام کے افکار عامہ میں شان و عظمت اور نور اور روشنی کا مظہر ہیں۔" (خطاب بمورخہ یکم جنوری 1990ع)
• "جب گھر کی خاتون خود کو جدوجہد میں شریک سمجھتی تھی اور میدان میں آتی تھی، درحقیقت وہ اس گھر کو میدان میں لاتی تھی جس میں مرد، عورت اور بچے شامل تھے، اور خاندان کو میدانِ جدوجہد میں حاضر کرتی تھیں۔ جنگوں میں بھی ایسا ہی تھا..." (ارومیہ کی خواتین کے اجتماع سے خطاب، بمورخہ 18 ستمبر 1996ع)
ارشاد رب متعال ہے:
"فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ؛
[ہدایت کا یہ روشن چراغ] ان گھروں میں ہے جن کو خدا نے بلند مرتبہ ہونے کا اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام یاد کیا جاتا ہے؛ ان میں صبح و شام اس کی تسبیح ہوتی ہے۔" (سورہ نور، آیت 36)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: آیت اللہ عباس کعبی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ