بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مڈل ایسٹ مانیٹر ویب سائٹ پر شائع ہونے والے انکشافات کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے اندرونی تعلقات گہری دراڑوں کا شکار ہیں جس نے "تعاون کونسل کے رکن ممالک کے اتحاد" کو شدید آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
اس ویب سائٹ نے خطے کے ایک شاہی خاندان سے وابستہ ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے لکھا ہے کہ پوشیدہ جھگڑے اور بدلتے ہوئے اتحاد روایتی اختلافات کی شدت سے بھی آگے نکل کر علاقائی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی-سیاسی تنازعے کی حد تک جا پہنچے ہیں۔
اس عرب عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ ہونے کی شرط پر مڈل ایسٹ مانیٹر کو بتایا: "ایک بڑا حیرت ناک واقعہ رونما ہونے والا ہے اور اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان خفیہ اور بڑھتا ہؤا تعاون، خلیج فارس میں غالب طاقت کے طور پر، سعودی عرب کا روایتی کردار کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔
انھوں نے کہا کہ یہ خفیہ اتحاد خطے میں طاقت کے توازنِ کی نئی تعریف پیش کرنے اور "ابراہیم معاہدوں" کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے راستے میں "سست روی" پر ریاض کو سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس ذریعے نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل ابوظہی کو ایک متبادل اسٹراٹیجک پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے؛ ایک ایسا ملک جو نئے مشرق وسطیٰ کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے؛ ایک ایسا علاقہ جہاں ترجیح ان ممالک کو حاصل ہو گی جو اسرائیل-امریکہ کے منصوبے کے ساتھ سب سے زیادہ ہم آہنگی رکھتے ہوں اور سیاسی شرائط، خاص طور پر فلسطین کے معاملے پر کسی بڑی شرط کے بغیر، معمول سازی کے راستے پر چلنے کے لئے تیار ہوں۔
انہوں نے زور دے کر کہا: "خلیج فارس کے عرب ممالک کے اتحاد کی جن تصویروں کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ صرف ایک چمکدار ابلاغی تصاویر ہیں جن کے پیچھے تلخ مقابلے، اثر و رسوخ کی کشمکش اور دارالحکومتوں کے درمیان باہمی دھوکہ دہی اور دغا بازی چھپی ہوئی ہے"۔
خلیج فارس کے اس عرب عہدے دار نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "پرانے قاعدے قانون اب موجود نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی واضح سرخ لکیریں ہیں"۔
ان کا خیال ہے کہ خلیجی ممالک کے درمیان معاہدہ اور یکجہتی محض ایک وہم ہے اور اجلاسوں میں امیروں اور ولی عہدوں کا اکٹھے کھڑا ہونا بند دروازوں کے پیچھے والی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔
ان کے بقول، اسرائیل اب فعال طور پر موجودہ دراڑوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور علاقائی اثر و رسوخ کے نقشے کو اس بار سعودی عرب کے خلاف، دوبارہ بنانا چاہتا ہے۔
ساز باز کے معاہدے، دراڑوں کا آغاز
اس ذریعے نے زور دے کر کہا کہ 2020 میں امارات اور بحرین کی طرف سے "ابراہیم معاہدوں" پر دستخطوں کا واقعہ علاقائی تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا جس نے کویت جیسے ممالک کی سیاسی پوزیشن کی نئی تعریف کے لئے دروازہ کھول دیا؛ ایسا ملک جو آہستہ آہستہ ابوظہبی کے قریب ہو رہا ہے اور ریاض کے ساتھ اپنے روایتی تعلقات کم کر رہا ہے۔
ان کے مطابق، یہ تبدیلی خلیج فارس میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ بتدریج کم کرنے اور اس کی جگہ معمول کے ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگ نئے محور کو سامنے لانے کے اسرائیلی منصوبوں کا ہی تسلسل ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل اپنا اثر پھیلانے کی کوشش میں، بیرون ملک مخالفین کو "بے اثر" کرنے کے لئے سیکورٹی امداد فراہم کر چکا ہے اور علاقائی منظر کو "Musical Chairs Game" سے تشبیہ دی ہے، جہاں اتحاد تیزی سے دوبارہ ترتیب دیے جاتے ہیں اور روایتی اصولوں اور معیاروں کو کمزور کیا جا چکا ہے۔
اس عہدے دار نے سعودی-قطر اتحاد کی واپسی کے امکان کا بھی حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ امارات ان حلیفوں کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو غاصب صہیونی ریاست کی معمول سازی (نارملائزیشن) کے راستے کی حمایت کریں، جبکہ اس وقت یمن ریاض اور ابوظہبی کے درمیان کشیدگی کے اہم ترین محاذوں میں سے ایک ہے۔
انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ کویت ایک حساس پوزیشن میں گھرا ہؤا ہے اور ان تبدیلیوں نے اس ملک کے امیر، شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح، پر سیاسی ضرب لگائی ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ شیخ مشعل کی داخلی مقبولیت میں کمی اور ان کے متنازعہ فیصلے، بشمول مئی 2024 میں آئینی جمہوریت کی معطلی، جیسے مسائل کویت کی پالیسیوں میں ان تبدیلیوں کو تیزتر کرنے میں مؤثر ہیں۔
معاشی مسابقت سے جیوپولیٹیکل تنازع تک
مڈل ایسٹ مانیٹر نے رپورٹ کیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پوشیدہ تنازع اب محض معاشی مسابقت یا ترقیاتی نقطہ نظر میں اختلافات، تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ ایک گہرے جغرافیاتی-سیاسی تنازع کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں انٹیلی جنس کے ذرائع اور بین الاقوامی اتحادوں کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ "خلیج فارس ایک گھر" کا تصور ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے اور تعاون کونسل کی دو کیمپوں میں تقسیم کا قوی امکان ہے: ایک سعودی عرب کی قیادت میں قدامت پسندانہ کیمپ، جس میں قطر اور عمان شامل ہو سکتے ہیں، اور دوسرا بنیادی تبدیلیوں اور معمول سازی کی طرف بڑھنے والا کیمپ، جس کی قیادت امارات کر رہا ہے، اور اس میں بحرین اور کویت شامل ہو سکتے ہیں۔
ان انکشافات کا سب سے حساس پہلو ریاض پر دباؤ کے آلے کے طور پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے کردار کا پہلو ہے۔ اس ذریعے نے یہ بھی زور دے کر کہا ہے کہ سعودی عرب کا اثر کم کرنے کے لئے امارات کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنا، نئے علاقائی نظام کی تشکیل کی کوشش کا حصہ ہے جس نے سعودی عرب کو ایک پیچیدہ اور دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔ یمن تنازع کا اہم ترین میدان رہا ہے اور بیرون ملک مخالفین کا معاملہ، کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بنا ہے اور قانونی و بین الاقوامی نتائج کے بارے میں تشویش پیدا کر رہا ہے۔
اس عہدے دار کے مطابق، اگر ان انکشافات کی صحت کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو خلیج فارس وفاداریوں اور اتحادوں کی مکمل نئی تعریف کے دور میں داخل ہو جائے گا؛ یہ دور ایک نئے سیاسی "سائیکس پیکو" معاہدے (Sykes–Picot Agreement) کی طرح ہوگا اور یہ صورتحال آنے والے سالوں میں علاقے کے نقشے میں گہری تبدیلیوں کا اشارہ دیتی ہے؛ گوکہ سعودی عرب بھی ہاتھ باندھ کر چین سے نہیں بیٹھے گا، اور وہ اپنے آگے کے امکانات سے فائدہ اٹھا کر اس نئی صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: رضا دہقانی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ