30 جنوری 2021 - 20:21
سعودی اور امارات دلدل میں/ کیا جنگ یمن کا اختتام قریب ہے؟

بائیڈن کو اندرونی طور پر سیاسی-سماجی-معاشی زوال اور بیرونی دنیا میں بالادستی کے خاتمے کے بحران کا سامنا ہے اور یقینی امر ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں تبدیلیوں کے حوالے سے بھی بائیڈن کو کافی چیلنجوں کا سامنا ہوگا لیکن کیا وہ سعودیہ اور امارات کے ساتھ امریکی اتحاد کو ختم کریں گے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں نئی امریکی حکومت کے فیصلوں کو دوہری اہمیت حاصل ہے؛ کیونکہ ان فیصلوں کی روشنی میں سعودیہ اور امارات کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں کا تعین ہوگا۔
اس وقت سعودی حکومت بہت فکرمند ہے کیونکہ امریکہ نے سعودی صحافی جمال خاشُقجی (خشوگی) کے قتل کی دستاویزات کو رازداری سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور یمن کی انقلابی تنظیم "انصار اللہ" کو ٹرمپ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے؛ چنانچہ یہ صورت حال واقعی سعودیوں کے لئے تشویشناک ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت اور سعودیوں کو جدید اور بھاری بموں کی فروخت وقتی طور پر ملتوی کی گئی ہے۔
اسی اثناء میں اٹلی نے بھی - 1999ع‍ کے منظور کردہ قانون نمبر 185 کے تحت - سعودی عرب اور امارات کو ہتھیار برآمد کرنے کے سابقہ لائسنسوں کو منسوخ کردیا ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت انسانی حقوق پامال کرنے والے ممالک کو اسلحے کی فروخت ممنوع اور غیر قانون ہے۔ اٹلی نے اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب کو اسلحہ فرخت کرنے کے لئے کوئی بھی نیا لائنس جاری نہیں کرے گا۔
تنظیم برائے بین الاقوامی عفو عام (Amnesty International) اور اکسفام جیسے بین الاقوامی اداروں نے مذکورہ اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔
نظیم برائے بین الاقوامی عفو عام کے اہلکار فلپ ناصف (Philippe Nassif) نے کہا: امریکہ کی جانب سے اسلحے کی فروخت کا التواء ایک مثبت اقدام ہے اور یہ اقدام یورپ ممالک ـ بالخصوص برطانیہ اور فرانس ـ پر دباؤ بڑھنے کا سبب بنے گا تاکہ وہ بھی سعودی اور امارات کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کریں اور یمن میں انسانی بحران میں مزید شدت پیدا کرنے سے باز رہیں۔
باوجود اس کے کہ امارات نے امریکی اقدام کو متوقعہ گردانا تھا لیکن بعض بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت اور ترسیل کے ملتوی کرنے کا فیصلہ بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے علاقے میں امریکہ کے قدیم حلیقوں کے ساتھ امریکہ کے رویے میں تبدیلی کی علامت ہے؛ اور یہ مسئلہ علاقے کے سازشی اور یہودیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والے ممالک کے لئے بہت ہی تشویشناک ہے۔ کیونکہ ایک طرف سے وہ اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف سے وہ اپنے جرائم کے سلسلے میں بین الاقوامی بازخواست سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
غاصب یہودی ریاست کا وزیر اعظم نے - اس خوف سے کہ کہیں امارات اور سعودیہ جیسے ممالک یہ نہ سمجھنا شروع کریں کہ اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے عوض انہیں کچھ بھی نہ مل سکا ہے - انہیں تسلیاں دینے کا آغاز کیا ہے اور کہا ہے کہ "بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایف 35 طیاروں کی فروخت کا التواء سازباز کے معہدے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، اور ہم امارات اور دوسرے [سازشی] ممالک کے ساتھ ایسے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے!"۔
بائیڈن کو اندرونی طور پر سیاسی-سماجی-معاشی زوال اور بیرونی دنیا میں بالادستی کے خاتمے کے بحران کا سامنا ہے اور یقینی امر ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں تبدیلیوں کے حوالے سے بھی بائیڈن کو کافی چیلنجوں کا سامنا ہوگا لیکن کیا وہ سعودیہ اور امارات کے ساتھ امریکی اتحاد کو ختم کریں گے؛ یا ان ممالک کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور ان ممالک کے سلسلے میں امریکی پالیسی میں ظاہری تبدیلی کا مقصد صرف یہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ان دو ممالک سے پھر بھی - نئی روش سے - دودھ دوہنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے؟ یا، کیا سازباز کرکے یہودی ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے یہ ممالک اس حقیقت سے واقف ہوہی جائیں گے کہ اسرائیل کے ساتھ مصالحت سے خفت اور ذلت و خواری اور استکبار اور صہیونیت کی مطلق فرمانبرداری کے سوا کچھ بھی نہیں مل سکا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110