14 دسمبر 2025 - 11:10
یورپ کچھ بھی کر لے، ٹرمپ کو خوش نہیں کر پائے گا

یورپ کو کب سمجھ میں آئے گا کہ ٹرمپ کی سیاست تنوع کے خلاف ہے، جو شراکت داری کو بوجھ اور کثیر جہتی کو بے وفائی مانتی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || تقریباً ایک دہائی سے یورپ مجموعی طور پر وہی سب کچھ کرتا آ رہا ہے جس کی توقع برسوں سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت والا امریکہ کہتا رہا ہے: یورپ نے ہر سال اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ بیرونی اور اندرونی دونوں سرحدوں پر جانچ پڑتال سخت کی ہے۔ پناہ دینے کے قوانین کو سخت کیا ہے اور مہاجرین کو یورپ پہنچنے سے روکنے کے لئے آمرانہ حکومتوں کے ساتھ معاہدے تک کئے ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد سے یورپ نے جس طرح خود کو ہتھیاروں سے لیس کرنا شروع کیا ہے، ویسا کئی نسلوں میں نہیں دیکھا گیا۔ اس کے باوجود، ان میں سے کسی بھی اقدام پر یورپ کو امریکہ کی طرف سے تعریف نہیں ملی۔ اس کے برعکس، ٹرمپ کی نئی قومی سیکورٹی پالیسی میں یورپ کو ایسے کمزور ساتھی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ آخر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی اس کا اثر یورپی رہنماؤں کی توقعات کے مطابق کیوں نہیں ہوتا؟ جب زیادہ ٹینک، میزائل اور سرحد پر دیوار کا مطالبہ پورا بھی ہو جاتا ہے تو بھی یہ کافی کیوں نہیں ہوتا؟

اس کا جواب نہ تو بجٹ میں ہے اور نہ ہی پالیسیوں میں۔ اس کا جواب دنیا کو دیکھنے کے زاویئے میں ہے۔ مغربی ممالک کو کن پیشین گوئیوں یا اقدار کی بنیاد پر فیصلے لینے چاہئیں، یا سیکورٹی کا مطلب کیا ہے، اس بارے میں یورپ ٹرمپ کی سمجھ سے متفق نہیں ہے۔ اسی لئے یورپ کی فوج چاہے کتنی ہی بڑی اور مضبوط کیوں نہ ہو، یا وہ سرحدوں کو جتنی ہی سختی سے سیل کیوں نہ کر دے، ٹرمپ کو یہ ناکافی ہی لگے گا۔

یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے گذشتہ 10 برسوں کے دوران اپنے فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے اس رجحان کو مزید تیز کر دیا ہے۔ 2025 میں یورپ کے دفاعی اخراجات کے اوسطاً 2 فیصد جی ڈی پی کی سطح تک پہنچنے کا امکان ہے، جو ناٹو کے بنیادی معیار کو پورا کرے گا۔ آلات، گولہ بارود اور ڈرونز میں سرمایہ کاری نمایاں طور پر بڑھ رہی ہے۔

پولینڈ دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والوں میں شامل ہو گیا ہے۔ فرانس اور جرمنی کئی ارب یورو کی خریداری کی تیاری کر رہے ہیں۔ یورپی کمیشن نے سرد جنگ کے بعد سکڑی ہوئی دفاعی صنعت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے سینکڑوں ارب کے پروگرام شروع کئے ہیں۔ 200 برسوں سے کوئی جنگ نہ لڑنے والے سویڈن نے 2026 تک دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2.8 فیصد اور 2030 تک 3.5 فیصد تک لے جانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے لئے یہ اب بھی کافی نہیں۔ وہ اور پنٹاگن کے ان کے افسران اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ یورپ 2027 تک ناٹو کی سیکورٹی کا زیادہ تر بوجھ خود سنبھال لے۔

یہ ایسی ڈیڈ لائن ہے جسے زیادہ تر یورپی ماہرین ناممکن مانتے ہیں۔ اگر اس کے لئے وسائل بھی فراہم کر دیئے جائیں، تب بھی یورپ راتوں رات وہ فوجی قوت، انٹیلی جنس نیٹ ورک، کمانڈ اسٹرکچر یا اسٹریٹجک نیوکلیئر نظام نہیں بنا سکتا جو 1949 سے امریکہ فراہم کرتا آ رہا ہے۔ یورپ وہی کر رہا ہے جو وہ کر سکتا ہے، لیکن ٹرمپ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یورپی ممالک 2 سال کے اندر یورپ کے دفاع کی بنیادی طاقت کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لیں، ورنہ امریکہ ناٹو کی کوآرڈینیشن سے جزوی طور پر دستبردار ہو جائے گا۔

یہ کوئی اسٹریٹجک حقائق پر مبنی سودے بازی نہیں ہے۔ یہ ’امریکہ فرسٹ‘ کی سوچ پر مبنی ایک سیاسی نقطۂ نظر ہے جو اتحادوں کو بوجھ سمجھتا ہے۔

ٹرمپ ناٹو کو مشترکہ خطرات کا سامنا کرنے والے جمہوری ممالک کی برادری نہیں سمجھتے، بلکہ اسے امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی ایک ایسی سروس مانتے ہیں جس کے بدلے یورپ کو فوراً اور بغیر چوں و چرا کے رقم ادا کرنی چاہئے۔ جب تک یورپ اس بات پر زور دیتا رہے گا کہ ’ٹرانس اٹلانٹک دفاع‘ یورپ اور امریکہ کا مشترکہ منصوبہ ہے، ٹرمپ یورپ پر امریکہ سے فائدہ اٹھانے کا الزام لگاتے رہیں گے، چاہے وہ اپنی افواج میں زیادہ سے زیادہ وسائل کیوں نہ جھونک رہے ہوں۔

امیگریشن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ 2015 کے پناہ گزیں بحران کے بعد سے یورپی یونین نے تقریباً وہ سب کچھ کیا ہے جس کا مطالبہ انتہائی دائیں بازو کی قوتیں کرتی رہی ہیں۔ اس نے غیر منظم ہجرت کو کم کیا، نئے نگرانی کے نظام قائم کئے، سرحدی پولیسنگ کو فروغ دیا، ترکی اور لیبیا جیسے ممالک کو آؤٹ سورس کیا، اپنی سرحدوں پر اسکریننگ سخت کی۔ یہاں تک کہ شینگن علاقے میں بھی، جہاں آزادانہ نقل و حرکت قانون کا حصہ ہے، زیادہ سے زیادہ ممالک نے سرحدی کنٹرول دوبارہ نافذ کر دیئے ہیں۔ کئی حکومتوں نے پناہ گزینوں کے قوانین سخت کر دیئے ہیں تاکہ لوگوں کو آنے سے روکا جا سکے اور بے دخلی کے عمل کو بھی تیز کیا ہے۔

امیگریشن اور پناہ سے متعلق یورپی یونین کا نیا معاہدہ داخلے کے عمل کو سخت بناتا ہے اور لوگوں کو تیزی سے واپس بھیجنے کو یقینی بناتا ہے۔

حالیہ برسوں میں یورپی یونین نے امیگریشن کو زیادہ سیکورٹی پر مبنی بنا دیا ہے، سرحدی کنٹرول اور روک تھام کو ترجیح دی ہے، جس کے نتیجے میں اکثر بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون سے جڑی ذمہ داریوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اب بھی یورپ کو ایک زوال پذیر تہذیب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ٹرمپ کی سیکورٹی حکمتِ عملی کا دعویٰ ہے کہ امیگریشن اور کم ہوتی شرحِ پیدائش کی وجہ سے 2 دہائیوں میں یورپ کو اپنی شناخت کھو دینے کا خطرہ ہے۔ یہ دائیں بازو کے سازشی بیانئے جیسا ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ یورپیوں کی جگہ غیر یورپی لے رہے ہیں۔ اس زاویئے سے یورپ کا مسئلہ سرحدی سیکورٹی کی کمی نہیں بلکہ نسلی و ثقافتی خالص پن کی کمی ہے۔ یہ بحث تعداد کے بارے میں نہیں بلکہ شناخت کے بارے میں ہے۔

اگر یورپ کے مرکزی دھارے کے رہنما امیگریشن کو معاشی ضرورت سمجھتے ہیں یا تنوع کو لبرل جمہوریت کی اقدار کے مطابق پاتے ہیں تو وہ پہلے ہی ٹرمپ کی توقعات کے خلاف کھڑے ہیں۔

یورپ کی سیاست اور سماج کی بنیاد میں امتیاز سے پاک اصول ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان اصولوں پر شدید دباؤ پڑا ہے۔ ٹرمپ کی نظر میں یہ اصول کمزوری کی علامت ہیں۔ وہ یورپ کے انتہائی دائیں بازو کی تعریف اس لئے نہیں کرتے کہ وہ مؤثر امیگریشن حکمتِ عملی کی بات کرتے ہیں، بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ثقافتی یکسانیت اور نسلی قوم پرستی کی حمایت کرتے ہیں۔

یوکرین اسی تقسیم کی لکیر کو واضح کرتا ہے۔ یورپ روس کو علاقائی سالمیت کے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور یوکرین-روس جنگ کو بین الاقوامی قانون کے امتحان کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی قانون کے دفاع میں اس نے ویسا جوش نہیں دکھایا۔ اس کے برعکس ٹرمپ یوکرین کے لئے یورپی حمایت کو یورپ کی کمزوری اور انحصار کی ایک اور مثال سمجھتے ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی کا مقصد ماسکو کے ساتھ تعلقات میں دوبارہ استحکام لانا ہے، چاہے اس کے لئے کیئف پر جھکنے کے لئے دباؤ ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے۔

یورپی یونین کا سیکورٹی ماڈل تعاون، مشترکہ خود مختاری اور قانونی قواعد و ضوابط پر مبنی ہے۔ ٹرمپ کے سیکورٹی تصورات ’ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان‘ والی حکمت عملی اور شناختی سیاست سے تشکیل پاتے ہیں۔ جب یورپ کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ اسٹریٹجک خودمختاری چاہتے ہیں تو ان کا مطلب ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے اندر ایک مضبوط یورپ ہوتا ہے۔ جب ٹرمپ یورپ کے لئے خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب امریکہ کے بغیر، لیکن امریکی قوم پرستانہ ترجیحات سے جڑے سیاسی حالات میں سیکورٹی، ہوتا ہے۔

امریکہ اور یورپ ایک وقت نہ صرف ایک سیکورٹی معاہدے سے جڑے تھے بلکہ کھلے معاشروں اور جمہوری مضبوطی کے بارے میں ایک مشترکہ سوچ سے بھی بندھے ہوئے تھے۔ ٹرمپ نے اس کی جگہ ایسی سیاست متعارف کرائی ہے جو تنوع کے خلاف ہے، شراکت داری کو بوجھ اور کثیر جہتی کو بے وفائی سمجھتی ہے۔ یورپ یہ بحث نہیں جیت سکتا۔ اس کے بجائے، اس کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ تعاون اور قانونی حیثیت پر مبنی سیکورٹی کے اپنے نقطۂ نظر کا دفاع کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: اشوک سوین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

نوٹ: مضمون کے مندرجات سے ابنا کا متفق ہونا، ضروری نہیں ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha