بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا:
ریپلکنز کے نقطہ نظر میں تاریخی تبدیلی
امریکی قدامت پسندوں کا یورپ کے بارے میں روایتی رویہ، اگرچہ تنقیدی تھا، مگر مشرقی بلاک (جیسے سوویت یونین) کے خلاف مغربی اتحاد اور مشترکہ مفادات کے سانچے کے اندر ہی بیان کیا جاتا تھا۔ اہم تنقیدوں کا محور دو چیزیں تھیں:
1۔ معاشی مسائل: خیال تھا کہ یورپی ممالک ـ بھاری ٹیکسوں اور فلاحی ریاستوں کے عنوان سے، ـ سرمایہ داری نظام کی تخلیقی صلاحیت اور نشوونما کے عمل کو کمزور کرتے ہیں۔
2۔ دفاعی اخراجات: یورپ پر اپنے دفاع کے لئے مناسب حصہ ادا نہ کرنے اور امریکہ کے فوجی اخراجات سے "مفت سواری" لینے کا الزام تھا۔

ٹرمپ کے نئے نقطہ نظر کا مرکزی نقطۂ انفصال اور مرکزہ
نئی اسٹراٹیجک دستاویز، کچھ پرانی تنقیدات (جیسے دفاعی اخراجات) کو برقرار رکھتے ہوئے، اس فریم ورک سے قدم آگے بڑھاتی ہے اور روایتی "مغرب" کے تصور [تک] کی بنیادوں کو چیلنج کرتی ہے۔ کلیدی تبدیلیاں یہ ہیں:
• روس مزید 'مشترکہ خطرہ' نہیں سمجھا جاتا: اب روس کو امریکہ اور یورپ کے لئے سلامتی کے اولین خدشے کے طور پر نہیں سمجھا جاتا۔
• 'مشترکہ اقدار' کے اصول کی 'نسلی شناخت' میں بدل جانا: نئے دلیل کا 'مرکزہ' نسل اور 'سفید فام شناخت' ہے۔ دستاویز خبردار کرتی ہے کہ یورپ ہجرت کی وجہ سے اپنی "یورپی" (یعنی سفید فام) شناخت کھونے، کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس نقطہ نظر میں، یورپ کے ساتھ اتحاد جاری رکھنے کی شرط، مشترکہ "[سفیدی، سفیدیت یا] سفید فامی" کا تحفظ سمجھا جاتا ہے، نہ کہ مشترکہ جمہوری اقدار کی پابندی!
• انتہائی دائیں بازو کی یورپی پارٹیوں کی کھلی حمایت: دستاویز کا کہنا ہے کہ امریکہ کا مفاد یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں کو فروغ دینا ہے۔ یہ پارٹیاں عام طور پر یہود-مخالف (Anti-Semitic) عناصر اور فاشیت (Fascism) سے متاثر ہیں۔

منطقی تنقید اور دعوؤں کا جائزہ
مضمون شماریاتی اور منطقی ثبوتوں کے ساتھ، اس نئے نقطہ نظر کے مرکزی دعوؤں کو چیلنج کرتا ہے:
• یورپ کے "نسلی خاتمے" کا دعویٰ: اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کے اہم ممالک میں تارکین وطن کی آبادی کا حصہ (مثلاً جرمنی 19%، فرانس 14%، برطانیہ 16%) ریاستہائے متحدہ (15%) کے ساتھ قابل موازنہ ہے چنانچہ یہ دعویٰ مسترد کیا جاتا ہے۔
• یورپ کے کم دفاعی اخراجات کی کمی کا دعویٰ: امریکہ یورپ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے جی ڈی پی کا 5% حصہ دفاع پر خرچ کرے، حالانکہ وہ خود بمشکل 3% کے ہدف تک پہنچ پاتا ہے۔
• تضاد اور حقیقی مقصد: یہ نسلی نقطہ نظر، جو شماریاتی حقائق سے بھی مطابقت نہیں رکھتا، بظاہر ایک سیاسی حربہ ہے اور حقیقی مقصد، ایک وسیع تر ریڈیکل قدامت پسندانہ ایجنڈے کو فروع دینا اور آگے بڑھانا ہے جس میں نسلی قوم پرستی صرف اس کی 'نوکِ تیر' (Arrowhead) ہے؛ یہ نقطہ نظر توجہات اور رائے عامہ کو دیگر پالیسیوں سے ہٹاتا ہے اور حامی طبقوں کو متحرک کرکے میدان میں لاتا ہے۔

نتیجہ: "مغرب" کے تصور کا خاتمہ
اس تبدیلی کا حتمی نتیجہ، "پرانے مغرب کی باضابطہ موت" ہے۔ "مغرب" کا تصور جو دوسری عالمی جنگ کے بعد تزویراتی اتحاد اور آزادی کے گرد مشترکہ جمہوری اقدار کے ایک مجموعے (اگرچہ ناقص) پر مبنی تھا، اب اس کی جگہ نسلی شناخت اور آمریت کی حمایت پر مبنی اتحاد لے رہا ہے۔ جب امریکہ کھلم کھلا یورپ کی آمریت پسند پارٹیوں کی حمایت کرتا ہے اور جمہوریت سے وابستگی کو اتحاد کی شرط نہیں سمجھتا بلکہ اسے رکاوٹ سمجھتا اور یورپی اقدار کو اس بر اعظم کی نسل موت کے متراف سمجھتا ہے، تو وہ تاثر جو دنیا نے 80 سالوں سے "مغرب" سے لے رکھا تھا، خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
![]()
چنانچہ سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ (Franklin D. Roosevelt) آج زندہ ہوتا، تو شاید اپنے مشہور قول کو اٹ کر کہہ دیتا: "یورپیوں کو امید ہے کہ اپنی آزادی کا دفاع کر کے، امریکیوں کو بھی اپنی آزادیوں کے کی ترغیب دلائیں گے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مسعود یوسف حصیرچین
تلخیص و ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ